Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۲۳ - بِیرّیہ اور اتھینے

    اعمال ۱۱:۱۷-۳۴

    بیریہ میں پولُس رسُول کو ایسے یہودی مل گئے جو سچائیوں کی تحقیق کرنے پر رضا مند تھے۔ چنانچہ پولُس نے اُنہیں تعلیم دی۔ اُن کے بارے لُوقا رسُول کا ریکارڈ یوں ہے “یہ لوگ تھسلُینکے کے یہودیوں سے نیک ذات تھے کیونکہ اُنہوں نے بڑے شوق سے کلام کو قبُول کیا اور روز بروز کتاب مقدس میں تحقیق کرتے تھے کہ آیا یہ باتیں اسی طرح ہیں۔ پس اُن میں سے بہتیرے ایمان لائے۔ اور یونانیوں میں سے بھی بہت سی عزت دار عورتیں اور مرد ایمان لائے۔”IKDS 217.1

    بیریہ کے لوگ تنگ نظر نہ تھے۔ وہ اُس تعلیم کی تحقیق کرنے پر رضا مند تھے جو رسُول سکھاتے تھے۔ دیگر کلام مقدس کا مطالعہ محض اشتیاق تجسس کے تحت ہی نہ کرتے تھے بلکہ یہ جاننے کے لئے کہ مسیح موعو د کے بارے اس میں کیا لکھا ہے۔ روزانہ وہ خُداوند کے پاک کلام کا مطالعہ کرتے اور جب مختلف نبیوں کے کلام کا ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کر لیا تو آسمانی فرشتوں نے اُن کے دماغوں کو روشن اور اُن کے دلوں کو متاثر کیا۔ IKDS 217.2

    جہاں کہیں بھی انجیل کی سچائی کی منادی کی جاتی ہے وہاں کے وہ تمام لوگ جو ایمانداری سے دُرست راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں تو کلام مقدس کی تحقیق کرنے کے لئے اُن کی ضرور رہنمائی کی جاتی ہے۔ اگر آج کے آخر زمانہ میں وہ تمام لوگ جن کے سامنے سچائی کی منادی کی جاتی ہے وہ بھی بیریہ کے لوگوں کی طرح روزانہ الہامی کتاب میں تحقیق کریں، اور جو پیغام انہیں سُنایا جاتا ہے اس کا موازنہ بنیوں کے صحیفوں سے کریں تو خُدا کی شریعت کو ماننے والوں کی تعداد موجودہ تعداد سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ جب یہ غیر مقبول سچائی پیش کی جاتی ہے تو بہت سے لوگ اسکی تحقیق کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ گو وہ کلام مقدس کی واضح اور سادہ سچائیوں سے انکار تو نہیں کر سکتے تاہم جو ثبوت فراہم کئے جاتے ہیں ان کی تحقیق کرنے سے کتراتے ہیں۔ بعض کا گمان ہے کہ بیشک یہ تعلیم درُست ہے ، مگر اس نئی روشنی کو ماننے یا نہ ماننے سے کوئی حیران فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا وہ ان قصے کہانیوں سے ہی چمٹے رہتے ہیں جو شیطان رُوحوں کو پراگندہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یوں ان کے دماغ غلط تعلیم سے اندھیر کدہ بن جاتے ہیں۔ اور وہ خالق خُداوند سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ IKDS 217.3

    ہر ایک کی عدالت اُس روشنی کے مطابق ہو گی جو اُسے خُداوند کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ خُدا وند اپنے ایلچیوں کو نجات کا پیغام دے کر بھیجتا ہے اور جتنے اس پیغام کو سُنتے ہیں ان کو وہ ذمہ دار ٹھہرائے گا کہ اُنہوں نے کس طرح اس کے خادم کے ساتھ سلوک کیا۔ وہ جو خلوص نیتی سے سچائی کی تلاش کرتے ہیں وہ یقینا اس پیغام کو جو ان کے سامنے پیش کیا گیا، خُداوند کے کلام کی روشنی میں اُس کی تحقیق کریں گے۔ IKDS 218.1

    تھسلُینکے کے غیر مسیحی یہودی، رسُولوں کے خلاف نفرت اور تعصب لئے ہوئے بیریہ گئے تاکہ ان کو وہاں سے بھی نکال دیں۔ اس خوف سے بیریہ میں رہنے سے پولپس کو کوئی نقصان پہنچے بھائیوں نے اُسے بیریہ کے چند نئے ایماندارون کے ہمراہ تھینے بھیج دیا۔ IKDS 218.2

    بربرّیت، سچائی کے مُعلمین کا شہر شہر پیچھا کرتی رہی۔ مسیح کے دُشمن انجیل کی منادی کو تو نہ روک سکے مگر وہ رسُولوں کے لئے کافی مشکلات پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مخالفت اور کشمکش کی موجودگی میں اس رویا کا پیغام جو پولُس کو اُسے یروشلیم میں ملا تھا اُسے آگے بڑھانے کا اُس نے مُصمّم ارادہ کر لیا۔ اور وہ رویا یہ تھی۔۔۔۔ “میں تجھے غیر قوموں کے پاس دُور دُور بھیجوں گا”۔ اعمال ۲۱:۲۲IKDS 218.3

    بیریہ سے فوراً نکلنے کی وجہ سے پولُس تھسلُینکے کے بھائیوں کو نہ مل سکے جن سے ملنے کی اُمید کرتا تھا۔ اتھینے پہنچتے ہی پولُس نے بیریہ سے جو بھائی اس کے ساتھ آئے تھے انہیں واپس بیریہ بھیج دیا اور تاکیداً کہا کہ سیلاس اور تیمتھیس کو میرے پاس فوراً بھیج دیں۔ تیمتھیس پولُس کی روانگی سے پیشتر بیریہ آیا تھا اور جو کام وہاں بہت اچھی طرح سے شُروع ہُوا تھا اسے سیلاس کے ساتھ مل کر چلانے کے لئے ٹھہرارہا۔ IKDS 219.1

    اتھینے کا شہر بُت پرستوں کی حکومت کا دارالخلافہ تھا۔ پولُس یہاں لُسترہ کے لوگوں جیسے جاہل اور بھولے بھالے لوگوں سے نہ ملا بلکہ یہاں اُسے ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو پڑھے لکھے اور اپنی تہذیب پر فخر کرتے تھے۔ ہر جگہ اُسے دیوی دیوتاون کے بُت، قومی ہیروز کے بُت، قومی شاعروں کے بُت وغیرہ دیکھنے کو ملے۔ عالی شان فن تعمیر کے نادر نمونے، مصّوری، نقاشی قومی عظمت کا اور ہر دلعزیز بتوں کی پرستش کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ خُوبصورتی اور اس فن کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ ہر جادرگاہیں، معبد اور ہیکلیں اور مندر بتا رہے تھے کہ ان پر بے حساب دولت خرچ کی گئی ہے۔ فتح کے جشن مناتے ہوئے بہادروں کے مجسمے، چمکدار آلات حرب یہ سب کچھ اتھینے کی بڑی وسیع آرٹ گیلری کی شان تھے۔ IKDS 219.2

    پولُس نے اُس خوبصورتی اور جاہ و جلال کو دیکھا جو اُسے گھیرے ہوئے تھا۔ نیز اُس نے پُورے شہر کو بُتوں کی گرفت میں پایا۔ خُدا کی غیرت سے اُس کا جی بھر آیا۔ بلکہ یوں کہئے کہ خُدا وند کی یہ بے حُرمتی اُس سے دیکھی نہ گئی۔ اُس کا اپنا جی تو جل گیا تاہم اُسے اتھینے کے لوگوں پر بھی ترس آیا۔ ہر چند پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ تھے مگر وہ حقیقی خُدا سے بے بہرہ تھے۔ اس علم و فضل کے مرکز میں جو کچھ پولُس نے دیکھا اُس سے اُس نے فریب نہ کھایا۔ اُس کی رُوحانی فطرت آسمانی دلکشی سے جس کا جاہ و جلال تا ابد قائم رہے گا اُس سے اس قدر مستعد اور باخبر تھا کہ اس عارضی شان و شوکت کا اُس پر رتی بھر اثر نہ ہُوا۔ تاہم جب اس نے اتھینے کی عظمت کو دیکھا تو اس نے آرٹ اور سائنس کے دلدادوں پر اس بہکانے والی رُوح کی قُوت کو دیکھا جو اُن کے اُوپر تھی۔ لہٰذا اُس کا ذہن اُس اہم اور اشد ضروری کام کے کرنے کے لئے بڑا پسیجا جو اس کے اپنے سامنے تھا۔ IKDS 219.3

    اس بڑے شہر میں جہاں خُدا کی پرستش نہیں ہوتی تھی وہاں وہ خود بھی بڑی تنہائی محسُوس کر رہا تھا۔ چنانچہ اُس نے اپنے ہمخدمت دوستون کی ہمدردی، دلجوئی اور صُحبت کی بڑی تمنا کی۔ جہاں تک انسانی دوستی کا تعلق ہے اس نے اپنے آپ کو بالکل تنہا پایا۔ رسُول تھسلینکیوں کو لکھتے ہوئے یوں فرماتا ہے ” اس واسطے جب ہم زیادہ برداشت نہ کر سکے تو تھسلُینکے میں اکیلے رہ جانا منظور کیا” ۱- تھسلُنیکیوں ۱:۳ پولُس کے سامنے جو رکاوٹیں تھیں انہیں بظاہر مغلوب کرنا ناممکن دکھائی دیتا تھا اور ایسے لگتا تھا کہ ان لوگوں کے دلوں تک رسائی کرنا قریب قریب نا ممکن ہے۔ سیلاس اور تیمتھیس کی انتظار کے دوران پولُس بیکار بیٹھا نہ رہا۔ “وہ عبادت خانہ میں یہودیوں اور خُدا پرستون سے اور چوک میں جو ملتے تھے اُن سے روز بحث کیا کرتا تھا” مگر اس کا اتھینے میں عظیم کام یہ تھا کہ ان کو نجات کی خُوشخبری دے جن کو زندہ خُدا کا علم نہیں۔ رسُول کو جلد ہی مظاہر پرستون (بُت پرستوں) سے واسطہ پڑنے کو تھا جن کا طریقہ ء عبادت بڑا ہی مکارانہ اور دلفریب تھا۔ IKDS 220.1

    معززین شہر کے سامنے کافی عرصہ سے کسی اسکالر، ادیب یا معلم نے نئی تعلیم نہیں رکھی تھی۔ لہٰذا ان معتبر ہستیوں میں سے بعض نے چاہا کہ پولُس آ کر ان کے ساتھ تبادلہء خیال کرے۔ بہت جلد اس کے گرد اچھا خاصہ ہجوم جمع ہو گیا۔ بعض ایک تو تیار ہو کر آئے تھے کہ پولُس کا مضحکہ اڑائیں کیونکہ اُن کے نزدیک تہذیب و تمدن اور علم و فضل کے لحاظ سے وہ اُن سے کہیں کمتر تھا۔ چنانچہ وہ آپس میں طنزاً کہنے لگے۔ IKDS 220.2

    “یہ بکواسی کیا کہنا چاہتا ہے؟ اوروں نے کہا یہ غیر معبودوں کی خبر دینے والا معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ یسوع اور قیامت کی خُوشخبری دیتا تھا۔ ”IKDS 221.1

    ان لوگوں میں جنہوں نے پولُس کے ساتھ مقابلہ کیا “چند اِپکوری اور ستوئیکی فیلسوف تھے” تاہم جو جو اپس کے مقابلہ میں آئے انہیں جلد معلوم ہو گیا کہ اُس کے علم کا خزانہ اُن کے علم سے کہیں زیادہ ہے۔ چنانچہ فلاسفروں نے اُس کے علم کی قدر کی، جبکہ اُس کی شعلہ بیانی سے سامعین بڑے متاثر ہوئے۔ اس کے سامعین کو جلد معلوم ہو گیا کہ یہ کوئی مُبتدی یا نو آموز نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر طبقہ اور شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ بحث کر کے اپنی بات منوا سکتا ہے۔ یوں رسُول ثابت قدم رہا اور انہیں اُن کے اپنے گھر میں شکست فاش دی۔ اس نے دلیل کا جواب دلیل سے اور فلسفے کا جواب فلسفے اور خطابت و فصاحت کا جواب خطابت و فصاحت سے دیا۔ IKDS 221.2

    رسُول کے مد مقابل بُت پرست اصحاب نے اس کی توجہ سقراط کی طرف دلائی جو اجنبی دیوتاوں کو عوام کے سامنے رکھنا چاہتا تھا مگر اُسے اِس کے لئے موت کی سزا دی گئی۔ اُنہوں نے پولُس کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی زندگی کو اس طرح خطرے میں نہ ڈالے۔ لیکن پولُس کی بحث نے لوگوں کی رائے اپنے حق میں مثبت کر دی۔ چنانچہ اُنہوں نے اس کی حکمت کی عزت اور تعریف کی وہ اُن کی سائنس یا طعن و تشنیع سے مرعُوب نہ ہوا۔ بلکہ ان کو تسلی پذیر کرتا ہوا اس نے ارادہ ظاہر کیا کہ جو کچھ اُس کے پاس ہے اسے بیان کر کے رہے گا۔ اور اس کے لئے وہ ہر خطرہ مول لینے کے لئے تیار ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے اس کی کہانی سننے کا اُسے معقول موقع دیا۔ IKDS 221.3

    پس وہ اسے اپنے ساتھ اریوپکُس پر لے گئے۔ یہ مقام اتھینے والوں کے نزدیک مقدّس ترین مقام تھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں مذہبی اُمور کے مُنصف بڑے غوروخوض کے بعد حتمی فیصلے صادر کرتے تھے۔ اور یہ اہم مسائل اخلاقی اور شہری اُمور سے متعلق بھی ہُوا کرتے تھے۔ یہاں شارع عام کے شوروغل سے دُور پولُس کی ساری گُفتگو بڑی صفائی سے سنی جاسکتی تھی۔ اُس کے چوگرد اتھینے کے شاعر، فنکار، فلاسفرز اور حکیم اور عارف جمع تھے۔ اُنہوں نے پوچھا “ہم جاننا چاہتے ہیں کہ جو انوکھی باتیں تو ہمیں سکھاتا ہے اُن سے تیری غرض کیا ہے؟IKDS 222.1

    سنجیدہ ذمہ داری کی اس گھڑی رسُول پُر امن اور پوری طرح آپے میں تھا۔ اُس کا دل اہم پیغام سے بوجھل تھا۔ لہٰذا جو کلام اس کے مُنہ سے نکلا اُس سے اُس کے سامعین قائل ہو گئے کہ یہ کوئی بکواسی نہیں۔ IKDS 222.2

    “اے اتھینے والو! میں دیکھتا ہوں کہ تُم ہر بات میں دیوتاوں کے بڑے ماننے والے ہو۔ چنانچہ میں نے سیر کرتے اور تُمہارے معبودوں پر غور کرتے وقت ایک ایسی قربان گاہ بھی پائی جس پر لکھا تھا “نامعلوم خُدا کے لئے” پس جس کو تُم بغیر معلوم کئے پُوجتے ہو میں تُم کو اُسی کی خبر دیتا ہوں۔ اپنی تمام واقفیت عامہ اور سوجھ بوجھ اور علم و ادب کے باوجود وہ اس خالق خُداوند سے بے خبر تھے جس نے کل کائنات کو خلق کیا۔ تاہم اُس کے سامعین میں ایسے بھی حضرات موجود تھے جو اعلیٰ روشنی کے متمنی تھے، اور وہ بے پایاں روشنی کی طرف قدم مار رہے تھے۔ IKDS 222.3

    اُن کی ہیکل کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہوئے جو بُتوں سے کھچا کھچ بھری پڑی تھی پولُس نے اپنے دل سے بوجھ اُتارا۔ اور اُنہیں “اتھینے کے مذہب” کے غیر تسلی بخش ہونے کے بارے آشکارہ کیا۔ حکیم اور بڑے بڑے دانا اس کے کلام اور دلائل سے بڑے حیران ہوئے۔ اُس نے اُنہیں بتایا کہ وہ اُن کے علوم و فنون اور مذہب سے اچھی طرح واقف ہے۔ اُن کے مجسموں اور بُتوں کی طرف اشارے کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ خُدا، انسان کے ہاتھ کے گھڑے ہوئے ہنر اور ایجاد سے منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بُت تو خُدا وند کے معمولی سے جلال کی بھی نمائندگی نہیں کر سکتے۔ اس نے اُنہیں یاد دلایا کہ ان بتوں میں زندگی نہیں سکتے۔ لہٰذا جو ان کی عبادت و پرستش کرتے ہیں ان بتُوں سے ارفع و اعلیٰ ہیں۔ IKDS 222.4

    پولُس نے بُت پرست سامعین کی توجہ اُن کے جُھوٹے مذہب کی طرف سے ہٹا کر حقیقی خُدا کی طرف لگائی جسے اُنہوں نے “نامعلوم خدا” کا نام دیا تھا۔ اب پولُس اُنہیں اُس خُدا کے بارے بتانے کو تھا جو اپنی قُدرت اور جلال میں اضافہ کروانے کے لئے انسان کا محتاج نہیں۔ IKDS 223.1

    جب پولُس نے حقیقی خُدا کے وصف بیان کئے کہ اس نے ہر ایک چیز کو تخلیق کیا اور ہر چیز پر وہ واحد مُطلق حُکمران ہے تو ان کے دل پولُس کے لئے محبت سے بھر گئے جس نے انہیں بڑی خلوص نیتی اور شعلہ بیانی سے خالق خُداوند کے بارے تعلیم دی”۔ “جس خُدا نے دُنیا اور اُس کی سب چیزوں کو پیدا کیا وہ آسمان اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا۔ نہ کسی چیز کا محتاج ہر کر آدمی کے ہاتھوں سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خُود سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔ خود سوچیں کہ آسمانوں کے آسمان میں بھی خُدا وند سما نہیں سکتا تو پھر ہاتھ سے بنائے ہوئے مندر اُس کے لئے کتنے ہی محدود اور تنگ ہوں گے؟ ذات پات اور فرقوں میں بٹے ہوئے اُس زمانہ میں جب انسانوں کے حقوق کی نہ اتنی پہچان تھی نہ قدر، پولُس نے اُن کے سامنے یہ بیان کرتے ہوئے خُدا کی اس عظیم سچائی کو رکھا “اس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام روئے زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی اور ان کی معیادیں اور سکونت کی حدیں مقرر کیں”۔ خُداوند کی نظر میں سب برابر ہیں اور سب کا فرض ہے کہ اُس کے تابع فرمان رہیں ۔ پھر پولُس نے بتایا کہ وہ کس طرح سب کے ساتھ یکساں برتاو کرتا ہے۔ اس کا فضل اور رحم سب میں سونے کی ڈوری کی مانند گزرتا ہے “کیونکہ اس نے ایک دن ٹھہرایا جس میں وہ راستی سے دُنیا کی عدالت اُس آدمی کی معرفت کرے گا اُس نے مقرر کیا ہے “تاکہ خُدا کو ڈھونڈیں شاید کہ ٹٹول کر اُسے پائیں ہر چند وہ ہم میں سے کسی سے دُور نہیں”۔ IKDS 223.2

    انسان کے بارے اُس نے اُن کے ہی کسی شاعر کا خیال پیش کیا۔۔۔ اور جیسا تُمہارے شاعروں میں سے بعض نے کہا ہے کہ ہم تو اس کی نسل بھی ہیں کیونکہ اسی میں ہم چلتے پھرتے اور موجود ہیں “پس خُدا کی نسل ہو کر ہم کو یہ خیال کرنا مناسب نہیں کہ ذات الہٰی اُس سونے یا روپے یا پتھر کی مانند ہے جو آدمی کی ہنر اور ایجاد سے گھڑے گئے ہیں”۔ “پس خُدا جہالت کے وقتوں سے چشم پوشی کر کے اب سب آدمیوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے کہ توبہ کریں”۔ IKDS 224.1

    تاریکی کے زمانے کے بُت پرستوں کی بُت پرستی، جو مسیح کی آمد سے پہلے تھی اُن پر خُداوند نے چشم پوشی کی۔ لیکن اب اس نے اپنے بیٹے کے ذریعہ سچائی کے نور کو آدمیوں کے ذریعہ بھیجا اور وہ چاہتا ہے کہ تمام نجا ت حاصل کرنے کے لئے توبہ کریں۔ صرف غریب اور ان پڑھ طبقہ ہی نہیں بلکہ صاحبِ علم، صاحبِ دماغ، فلاسفرز اور زمین کے شہزادے، شہزادیاں توبہ کر کے نجات پائیں، کیونکہ “اس نے ایک دن ٹھہرایا ہے جس میں وہ راستی سے دُنیا کی عدالت اُس آدمی معرفت کرے گا جسے اُس نے مقرر کیا ہے اور اُسے مردوں میں سے جلا کر یہ بات سب پر ثابت کر دی ہے۔ اور جب پولُس نے قیامت کے بارے بیان کیا تو بعض ٹھٹھا مارنے لگے اور بعض نے کہا کہ یہ بات ہم تُجھ سے پھر کبھی سُنیں گے۔ IKDS 224.2

    یوں پولُس کی خدمت اتھینے میں اختتام پذیر ہوئی جو بُت پرستون کے ادیبوں کا مرکز تھا۔ بڑی ثابت قدمی سے اپنے بتوں سے چمٹے رہنے کے سبب بُت پرستوں نے سچے مذہب کے نور کو رد کر دیا۔ جب لوگ پوری طرح اپنی ہی استعداد اور اپنے ہی حصول پر تسلی پذیر ہو جاتے ہیں تو ان سے کوئی زیادہ توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ بے شک وہ مہذب، صاحبِ علم اور دیگر فنون لطیفہ میں ماہر تھے۔ اور اسی پر تکرار کرتے ہوئے بُت پرستی پر قانع ہو کر ہر روز بد سے بدتر ہوتے جاتے تھے۔ IKDS 225.1

    پھر بھی سامعین میں بعض ایسے تھے جنہوں نے اُس سچائی کو قبول کیا جو پولُس نے پیش کی، مگر وہ بھی خُدا اور اس کی نجات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ کوئی بھی تقریر یا مباحثہ گنہگاروں کوتبدیل نہیں کر سکتا،صرف خُدا کی قُوت ہی دلوں کو صداقت سے آشنا کر سکتی ہے۔ مگر وہ جو اس قوت سےمنہ موڑ لے گا اُس سے صداقت رُوٹھ جائے گی۔ یُونانی حکمت تلاش کرتے تھے لیکن صلیب کا پیغام ان کے نزدیک بیوقوفی تھا کیونکہ وہ اپنی دانش کو اس دانش کی نسبت زیادہ اہم خیال کرتے تھے جو آسمان سے صادر ہوتی ہے۔ IKDS 225.2

    ذہانت و فراست اور انسانی حکمت کے غرور کی وجہ سے اتھینے والوں کے درمیان انجیل کے پیغام کو بہت ہی کم کامیابی نصیب ہوئی۔ دُنیا کے دانا جو مسیح یسوع کے پاس کھوئے ہوئے گنہگار کی مانند آئیں گے وہ نجات پاکر دانا بن جائیں گے اور وہ جو اپنی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائیں گے وہ اس نور و علم سے محرُوم ہو جائیں جو صرف ذاتِ الہٰی مہیا کر سکتی ہے۔IKDS 225.3

    یوں پولُس اپنے زمانے کے مظاہر پر ستوں سے دو چار ہوا۔ اتھینے میں اُس کی ساری محنت رائیگاں نہ گئی۔ دیونسی یُس جو اتھینے کا ایک مشہو رو معروف شہری تھا اُس کے ساتھ بعض دوسرے لوگوں نے انجیل کے پیغام کو قبُول کیا اور پوری طرح ایمانداروں کی جماعت میں مل گئے۔ IKDS 225.4

    الہام نے ہمیں اتھینے والوں کی زندگی پر اُچکتی ہوئی نظر ڈالنے کی دعوت دی ہے جو اپنے تمام تر علم، تہذیب و تمدن اور ہنر رکھنے کے باوجود بدی میں غرق ہو چکے تھے۔ اور کس طرح خُداوند نے اپنے خادم کے ذریعہ بُت پرستی ، غرُور اور مطمئن بالذات کی ملامت کی۔ پولُس رسُول کا کلام اور غیر متزلزل ایمان سے اُس کی گواہی کی تفصیل آنے والی نسلوں تک پہنچائی جانی چاہئے۔ نیز تنہائی اور مصیبتوں میں اُس کا حوصلہ اور جو مسیحیت کے بارے اُس نے مظاہر پرستوں کے گڑھ میں کامیابی حاصل کی اُسے پشت در پشت یاد رکھا جانا چاہئے۔ IKDS 225.5

    پولپس کاکلام کلیسیا کے لئے علم کا خزانہ ہے۔ وہ جس جگہ اور جس حالت میں تھا وہاں سے وہ بہ آسانی اپنے سامعین کو ایس باتیں سُنا کر ناراض کر لیتا جو اُس کے لئے مشکل پیدا کر دیتیں۔ اگر وہ اپنی تقریر میں شہر کے بڑے آدمیوں، اُن کے بُتوں پر براہ راست حملہ کرتا تو ہو سکتا تھا کہ اُسے بھی سقراط کی طرح موت کو گلے لگانا پڑتا۔ مگر بڑے سلیقے سے جو آسمانی محبت سے پیدا ہوت ا ہے، اُس نے بڑی احتیاط سے اُن کے ذہنوں کو بُتوں سے ہٹایا اور حقیقی خُدا سے شناسائی کروائی جو ان کے لئے “نامعلوم خدا” تھا۔ IKDS 226.1

    آج بھی دُنیا کے بڑے بڑے لوگوں کے سامنے نجات کی سچائیاں رکھنے کی ضرُورت ہے تاکہ وہ ابلیس اور خُدا میں چناو کر سکیں۔ خُداوند کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ لیکن اگر وہ خُدا کی طرف پلٹیں تو وہ انہیں ان کی آزاد مرضی پر چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگیوں میں اپنی محنت کے ذریعہ پھل لائیں۔ IKDS 226.2

    “کیونکہ صلیب کا پیغام ہلاک ہونے والوں کے نزدیک تو بیوقوفی ہے مگر ہم نجات پانے والوں کے نزدیک خُدا کی قُدرت ہے۔ کیونکہ لکھا ہے کہ میں حکیموں کی حکمت کو نیست اور عقلمندوں کی عقل کو رد کروں گا۔ بلکہ خُدا نے دُنیا کے بیوقوفوں کو چُن لیا کہ حکیموں کو شرمندہ کرے۔ اور خُدا نے دُنیا کےکمینوں اور حقیروں کو بلکہ بے وجودوں کو چُن لیا کہ موجودوں کو نیست کریں” ۱-کرنتھیوں ۱۸:۱-۱۹ ، ۲۷:۱-۲۸۔ بُہت سے عالم فاضل اور جا گیردار، دُنیا کے شہرت یافتہ مرداخیر دنوں میں نور سے منہ موڑ لیں گے کیونکہ دُنیا اپنی حکمت سے خُدا کو نہیں دیکھ سکتی۔ مگر خُداوند کے خادم ان لوگوں تک سچائی کو پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے۔ ان میں سے بعض سکالر خُدا کے بارے اپنی لا علمی تسلیم کر یں گے، اور معلم اعظم کے قدموں میں بیٹھ کر اُس سے سیکھیں گے۔ IKDS 226.3

    اعلیٰ طبقے کے لوگوں تک رسائی کے لئے خُدا کے خادموں کا پختہ ایمان ہونا از بس ضروری ہے۔ ظاہر میں شاید مشکلیں اور رکاوٹیں دکھائی دیں، مگر تاریک ترین گھڑیوں میں اُن پر آسمانی نور چمکے گا۔ وہ جو خُدا وند کو پیار دکھاتے اور اس کی خدمت کرتے ہیں اُن کی قوت روز بروز تازہ ہوگی۔ کیونکہ اُن کی خدمت میں قادرِ مطلق خُدا کی سُوجھ بُوجھ رکھی گئی ہے تاکہ وہ اس کے مقصد کو آگے بڑھانے میں خطا نہ کریں۔ خُدا کے خادموں کو یہ جان کر کہ ظُلمت بھری دُنیا میں اس کے کلام کی سچائیوں کو نور کی مانند چمکتا ہے، خُدا وند مضبوطی سے تھام لیں۔ خُدا کی خدمت میں نااُمیدی ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ مخصوص شُدہ کارگزار کے ایمان کو ہر آزمائش میں پورا اُترنا ہو گا۔ خُداوند اس قابل ہے اور اُس کی تمنا بھی ہے کہ وہ اپنے خُدام کو وہ تمام قوتیں اور حکمت عطا کرے جن کی اُنہیں ضرُورت ہے۔ وہ اُن کی توقعات سے بڑھ کر اجر دے گا جو اُس میں بھروسہ رکھتے ہیں۔ IKDS 227.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents