Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۲ - بارہ شاگردوں کی تربیت

    جو خدمت مسیح یسوع نے اس دھرتی پر شروع کر رکھی تھی اُسے جاری و ساری رکھنے کے لئے مسیح خداوند نے یہودی علما کو چنا اور نہ ہی جن کی زبان بڑی شُستہ اور رواں تھی۔ اور نہ ہی اپس نے رومی حکومت کے با اختیار لوگوں میں سے اپنی خدمت کے لئے لوگوں کا انتخاب کیا۔ یہودی اساتذہ کو جو خود کو راستباز سمجھتے تھے اُنہیں نظر انداز کر کے ہمارے آقا نے حلیم، ان پڑھ لوگوں کا انتخاب کیا جنہوں نے صداقت کا پرچار کر کے دنیا کو تہ بالا کرنا تھا۔ اور جنہیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے اپنی کلسییا کے لئے رہبر بنانا تھا جنہیں دوسروں کو تعلیم دینا اور انجیل کی خوشخری سنانے کے لئے دنیا میں دور و نزدیک جانا تھا۔ اُن بھائیوں کو رُوح القدس کی قوت ملنے کو تھی جس کی بدولت اُنہیں اپنے کام میں خاصی کامیابی نصیب ہونے کو تھی۔ انسان حکمت اور نہ ہی انسانی قوت سے انجیل کی خوشخبری پھیلائی جا سکتی بلکہ انجیل صرف اور صرف خدائی قوت اور قدرت سے ہی دنیا کے کونے کونے تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ IKDS 9.1

    ساڑھے تین برس تک شاگرد دُنیا کے عظیم مُعلم کے زیر سایہ تربیت پاتے رہے۔ شخصی ناطے اور ذاتی رفاقت سے مسیح یسوع اُنہیں اپنی خدمت کے لئے تربیت دیتا رہا۔ ہر روز وہ اُس کے ساتھ چلتے پھرتے اور گفتگو کرتے رہے۔ اُنہوں نے اُسے مایوس اور پثر مردہ لوگوں سے خوچی و مسرت کا کلام کرتے سنا۔ مصیبت زدہ اور بیماروں کے حق میں اُس کی قدرت کا ظُہو دیکھا۔ کبھی کبھار اُس نے پہاڑی کے دامن میں اُن کے درمیان بیٹھ کر اُن کو تعلیم دی۔ بعض اوقات سمندر کے کنارے اور راہ چلتے ہوئے اُن کی تربیت کی۔ اُس نے اُن پر خُدا کی بادشاہی کا بھید کھولا۔ جہاں کہیں دل الٰہی پیغام سننے کے لئے تیار پائے گئے وہاں اُس نے نجات کی راہ کی سچائیاں عیاں کیں۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو یہ یا وہ کرنے کا حکم نہ دیا۔ بلکہ اُس نے کہا “میرے پیچھے چلے آو ” وہ جب شہروں یا دیہاتوں کا سفر کرتا تو اُنہیں اپنے ساتھ لے جاتا تا کہ وہ دیکھیں کہ وہ (یسوع) لوگوں کو کس طرح تعلیم دیتا ہے۔ IKDS 9.2

    اُنہوں نے اکٹھے کھانا کھایا۔ وہ بھی مسیح کی طرح کبھی کبھار بھُوکے تھکے ماندے اور نڈھال ہوتے تھے۔ کھچا کھچا بھرے بازاروں میں، جھیل کے کنارے اور لق و دق صحرا میں حتٰی کہ وہ ہر جگہ اُس کے ساتھ ہوتے تھے۔ اُنہوں نے اُس کی زندگی کے ہر پہلو کا بغور جائزہ لیا۔ IKDS 10.1

    بارہ شاگردوں کی مخصوصیت کے وقت کلیسیا کو منظم کرنے کا پہلا قدم اُٹھایا گیا جس نے مسیح کے آسمان پر صعود فرمانے کے بعد اُس کلام کو جاری و ساری رکھنا تھا جو اُسنے اس دھرتی پر شروع کیا تھا۔ اس مخصوصیت کے بارے میں ہم کلام مقدس میں یوں پڑھتے ہیں۔ “پھر وہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور جن کو وہ آپ چاہتا تھا اُن کو پاس بلایا اور وہ اُس کے پاس چلے آئے۔ اور اُس نے بارہ کو مقرر کیا تاکہ اُس کے ساتھ رہین اور وہ اُن کو بھیجے کہ منادی کریں”۔ (مرقس ۱۴:۳-۱۵)IKDS 10.2

    اس دلپذیر منظر پر غور کریں۔ دیکھئے آسمانی شہنشاہ اُن بارہ کے درمیان گھرا ہوا ہے جنہیں اُس نے چنا تھا۔ وہ ابھی اُنہیں خدمت کے لئے دُنیا میں بھیجنے کو ہے۔ وہ ان کمزور شاگردوں کے سہارے اپنی روح اور کلام کے ذریعہ نجات کو دُنیا میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ ہر بشر کی نجات تک رسائی ہو سکے۔ IKDS 10.3

    بڑی خوشی و مسرت اور شادمانی کے ساتھ خالق خدا اور اُس کے فرشتوں نے اس منظر کو دیکھا۔ باپ یہ جانتا تھا کہ آسمانی نور کی کرنیں ان مردوں کے ذریعے دُور و نزدیک پھیل جائیں گی۔ اور بیٹے کی گواہی کے بارے یہ مرد جو بھی کلام کریں گے اُس کی صدائے باز گشت پشت در پشت رہتی دنیا تک سنی جائے گی۔ IKDS 10.4

    شاگردوں کو مسیح کے گواہ بن کر دُنیا میں جانا تھا اور جو کچھ اُنہوں نے اُس کے بارے دیکھا اور سنا تھا اُس کی منادی کرنا تھی۔ اُن کی خدمت اور بلاہٹ عظیم تر تھی۔ انسانوں کو بچانے کے لئے اُنہیں خدا وند کے ساتھ مل کر کام کرنا تھا۔ عہد عتیق میں جیسے قدیم بارہ آبائی بزرگ بنی اسرائیل کی نمائندگی کرتے تھے اس طرح بارہ شاگرد مسیحی کلیسیا کی نمائندگی کرتے ہیں۔ IKDS 11.1

    اپنی زمینی خدمت کے دوران مسیح یسوع نے اُس دیوار کو توڑنا شروع کر دیا تھا جو یہودیوں اور غیر قوم والوں کے درمیان حائل تھی، اور نجات کی منادی سب قوموں میں پھیلانے شروع کر دی تھی۔ گو وہ خود یہودی تھا مگر وہ سامریوں کے ساتھ بھی گھُل مل جاتا۔ یہودیوں اور فریسیوں کے رسوم کی پرواہ کئے بغیر اُن لوگون کی خدمت کرتا جن کو یہودیوں نے رد کر دیا تھا۔ مسیح یسوع ان کی چھتوں کے نیچے سویا، اُن کی میز پر کھانا کھایا۔ اور اُن کے بازاروں میں اُن کو تعلیم دی۔ IKDS 11.2

    مسیح یسوع شاگردوں کو جُدائی کی دیوار کو توڑنے کی سچائی سے آگاہ کرنا چاہتا تھا جو بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے درمیان حائل تھی۔ وہ اس سچائی کو اُجاگر کرنا چاہتا تھا کہ مسیح یسوع میں غیر قومیں خوشخبری کے وسیلہ سے میراث میں شریک اور بدن میں شامل اور وعدہ میں داخل ہیں افسیوں ۶:۳ کیونکہ وہی ہماری صلح ہے جس نے دونوں کو ایک کر لیا اور جُدائی کی دیوار کو جو بیچ میں تھی ڈھادیا۔ افسیوں ۱۴:۲ اس صداقت کا جزوی حصہ اُس وقت آشکارا ہوا جب اُس نے کفر نحوم کے ایک سردار کے ایمان کی تعریف کی۔ اور اُس وقت بھی یہ صداقت ظاہر ہوئی جب اُس نے سو خار کے باشندوں میں انجیل کی منادی کی۔ مگر صداقت اس وقت زیادہ کھل کر سامنے آئی جب وہ صور اور صیدا کے علاقے کو گیا اور ایک کنعانی خاتون کی بیٹی کو شفا بخشی۔ ان تجربات سے شاگردوں کو یہ بات سمجھنے میں مدد ملی کہ غیر قوم میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جن کو نجات کے قابل خیال نہیں کیا جاتا۔ جب کہ ان میں ہی ایسی رُوحیں موجود ہیں جو صداقت کی روشنی کی بُھوکی اور پیاسی ہیں۔ IKDS 11.3

    یوں مسیح یسوع نے شاگردوں کو سکھانا چاہا کہ خدا کی بادشاہی میں کوئی حد بندی نہیں۔ نہ وہاں ذات پات کا سلسلہ ہے اور نہ ہی خدا کی بادشاہی میں کوئی چھوٹا بڑا ہے۔ اسکی بادشاہی میں نہ کوئی شاہ ہے نہ غلام ۔ بلکہ سب برابر ہیں۔ اُس نے انہیں درس دیا کہ وہ تمام قوموں کے پاس جائیں اور اُنہیں نجات دہندہ کی محبت کا پیغام پہنچائیں۔ تاہم وہ اُس وقت تو نہیں مگر بعد میں مسیح یسوع کے اس کلام کو سمجھے۔ اُس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام رُوی زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی اور اُنکی معیادیں اور حدیں مقرر کیں۔ تاکہ خدا وند کو ڈھونڈیں شاید کہ ٹٹول کہ اُسے پائیں ہر چند وہ ہم میں سے کسی سے دُور نہیں۔ اعمال ۲۶:۱۷-۲۷ IKDS 12.1

    پہلے شاگردوں میں سے بہت زیادہ تنوع (یکسانیت کی ضد) پایا جاتا تھا۔ اُنہیں تمام دُنیا کے لئے بطور معلم خدمت انجام دینا تھی۔ ان سب کا کردار اور چال چلن ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ اس کام کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لئے (جس کے لئے وہ بُلائے گئے تھے) یہ مرد جو مختلف عادات و اطوار کے مالک تھے لازم تھا کہ اُن کی سوچ، محسوسات اور اعمال میں یکسانیت ہو۔ اور وہ خود تمام کے تمام اتحاد اور یگانگت کے رنگ میں رنگ ہوں۔ اس اتحاد کو مسیح یسوع ان میں قائم کرنے کا خواہاں تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ اُنہیں اپنے ساتھ متحد کرنا چاہتا تھا۔ مسیح یسوع نے اپنے باپ کے سامنے دُعا کے ذریعہ اس بوجھ کو رکھا۔ وہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اے باپ! تو مجھ میں ہے اور میں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں اور دنیا ایمان لائے کہ تو ہی نے مجھے بھیجا یوحنا ۲۱:۱۷ “میں اُن میں اور تو مجھ میں تاکہ وہ کامل ہو کر ایک ہو جائیں اور دُنیا جانے کہ تو ہی نے مجھے بھیجا اور جس طرح کہ تو نے مجھ سے محبت رکھی اُن سے بھی محبت رکھی۔ “یوحنا ۲۳:۱۷ IKDS 12.2

    اُسکی ان کے لئے ہمیشہ یہی دُعا ہوتی تھی کہ انہیں سچائی کے وسیلہ پاک کر۔ اور وہ یہ دُعا بڑے یقین کے ساتھ کیا کرتا تھا یہ جانتے ہوئے کہ قادر مطلق خدا وند نے دنیا کے بنانے سے پیشتر ہی اُس کی بات مان لی تھی۔ وہ یہ جانتا تھا کہ انجیل کی خوشخبری تمام دنیا میں گوہی کے لئے سنائی جائے گی۔ اپسے معلوم تھا کہ سچائی روح القدس کی قدرت سے برومند ہو گی اور بدی پر غالب آئے گی۔ اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ خون آلودہ جھنڈا ایک روز فتح مندی کا نشان بن کر اُس کے ماننے والوں کے سروں پر لہرائے گا۔ IKDS 13.1

    مسیح یسوع کی زمینی خدمت اختتام پذیر ہونے کو تھی اور اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے شاگردوں کو آئندہ اُس کی نگرانی کے بغیر ہی اس خدمت کو جاری رکھنا ہو گا جو اُس نے شروع کی تھی۔ اُس نے چاہا کہ اُن کے حوصلوں کو بلند کرکے انہیں مستقبل کے لئے تیار کرے۔ چنانچہ اُس نے اُنہیں جھوٹی اُمیدوں سے فریب نہ دیا۔ وہ جانتا تھا اب اُسے اُن سے جلد جُدا ہونا اور انہیں گویا بھیڑکو بھیڑیوں کے درمیان چھوڑنا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ انہیں طرح طرح کی اذّیتیں دی جائیں گی، اُنہیں ہیکل سے خارج کیا جائے گا۔ وہ جانتا تھا کہ اُنہیں جیلوں میں بند کیا جائے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اُن میں سے بعض کو مسیح کی گواہی دینے کے سبب موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے گا۔ اس کے بارے اس نے بڑی صفائی سے شاگردوں کو بتا دیا تاکہ جب یہ مصیبتیں آئیں تو وہ اس کے کلام کو یاد کر کے جان سکیں کہ وہ سچا اور حقیقی نجات دہندہ تھا۔ IKDS 13.2

    اُس نے اُن سے اُمید اور حوصلہ بخش کلام بھی کیا۔ تمہارا دل نہ گھبرائے۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں اگر نہ ہوتے تو میں تُم IKDS 14.1

    سے کہہ دیتا کیونکہ میں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں۔ اور اگر میں جا کر تمہارے لئے جگہ تیار کروں تو پھر آ کر تمہیں اپنے ساتھ لے لوں گا تاکہ جہاں میں ہوں تُم بھی ہو” یوحنا ۱:۱۴-۴ تمہاری خاطر میں اس دنیا میں آیا تمہارے لئے کام کرتا رہا اور جب میں آسمان پر صعود فرما جاوں گا پھر بھی میں بڑی وفاداری سے تمہارے لئے کام کرتا رہوں گا۔ میں دنیا میں آیا تاکہ خود کو تم پر ظاہر کر سکوں تاکہ تم ایمان لاو۔ میں اپنے اور تمہارے باپ کے پاس جاتا ہوں تاکہ تمہارے واسطے اس کے ساتھ تعاون کروں۔ IKDS 14.2

    “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ ان سے بھی بڑے بڑے کام کرے گا کیونکہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں۔ ” یوحنا ۱۲:۱۴ اس سے خداوند یسوع مسیح کی مراد یہ نہ تھی کہ وہ اپنے آقا سے زیادہ مشقت یا جدو جہد کریں گے بلکہ یہ کہ اُن کے کام میں زیادہ وسعت ہو گی کیونکہ جو کچھ وہ کرنے کو تھے وہ سب کچھ روح القدس کی قدرت سے معرض وجود میں آنے کو تھا۔ “لیکن جب وہ مدد گار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی رُوح حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔ اور تم بھی گواہ ہو کیونکہ شروع سے میرے ساتھ ہو” یوحنا ۲۶:۱۵-۲۷ IKDS 14.3

    بڑے ہی حیرت انگیز انداز میں مسیح یسوع کے اس کلام کی تکمیل ہوئی۔ روح القدس کے نزول کے بعد شاگرد مسیح یسوع اور اُن روحوں کے لئے محبت سے بھر پور ہو گئے جن کے لئے مسیح یسوع نے اپنی جان دی۔ اُن کے کلام اور دُعا سے جو وہ کرتے تھے دل بھر آئے۔ وہ رُوح کی قدرت سے کلام کرتے تھے۔ اور رُوح القدس کی تاثیر سے ہزاروں مسیح یسوع کے چرنوں میں آ گئے۔ IKDS 14.4

    مسیح یسوع کے نمائیندگان ہوتے ہوئے شاگرد دُنیا پر فیصلہ کُن تاثیر چھوڑتے تھے۔ گو وہ حلیم اور ادنٰی لوگ تھے مگر یہ سب کچھ اُن کی راہ میں حائل نہ ہوا تھا۔ کیونکہ اُن کے سامعین کے ذہن و دماغ اس نجات دہندہ کی طرف چلے آتے تھے جو گو اب اُن کے ساتھ نہ تھا مگر ابھی تک اُن کے ساتھ ملکر کلام کر رہا تھا۔ رسولوں کی شاندار تعلیم ان کا ہمت افزا کلام جو وہ دوسروں کو سناتے تھے اس کو دیکھ کر سب کو یقین ہو جاتا تھا کہ یہ تمام کام وہ اپنی قوت اور قدرت سے ہرگز انجام نہیں دے سکتے تھے بلکہ یہ مسیح کی قدرت تھی جو اُن میں ہو کر کام کرتی تھی۔ بڑی فروتنی سے وہ منادی کرتے کہ جس کو یہودیوں نے مصلوب کر دیا تھا وہی زندگی کا شہزادہ زندہ خُدا کا بیٹا تھا۔ اور وہ اُسی کے نام میں وہ سب کام انجام دے رہے ہیں جو تم دیکھ رہے ہو۔ IKDS 14.5

    نجات دہندہ نے مصلوب ہونے سے ایک رات پہلے جو شاگردوں کو الوداعی خطبہ دیا تھا اُس میں اُس نے اپنے اُن دُکھوں کا کوئی ذکر نہ کیا جو اُس نے برداشت کئے اور نہ ہی اُس نے شاگردوں کو کہا کہ تمہیں بھی اس اس طرح کے دُکھ سہنے ہوں گے۔ اُس نے اُس تضحیک اور تمسخر کا بھی کوئی ذکر نہ کیا جو اُس کے سامنے تھا۔ بلکہ اُس نے اُن کے ساتھ اس طرح کا کلام کیا جس سےاُن کے ایمان کو تقویت ملے۔ اور اُن کی توجہ اُس شادمانی کی طرف دلائی جو ان کا انتظار کر رہی تھی۔ IKDS 15.1

    اُسے اس بات کی بھی خوشی تھی کہ جتنا اُس نے وعدہ کیا تھا اس سے بڑھ کر اس نے شاگردوں کی مدد فرمائی ہے۔ اسے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اُس سے محبت اور ہمدردی کے ہمدردی کے چشمے جاری ہوں گے جو روح کو پاک کریں گے اور لوگوں کی سیرت کو مسیح کی سیرت کی طرح مقدس اور پاک کر دیں گے۔ اور جو بنی نوع انسان کو روح کی قوت سے مسلح کریں گے اور فتح پر فتح پاتے جائیں گے۔ IKDS 15.2

    “میں نے تُم سے یہ باتیں اس لئے کہیں کہ تم مجھ میں اطمینان پاو۔ دُنیا میں مصیبت اُٹھاتے ہو لیکن خاطر جمع رکھو میں دُنیا پر غالب آیا ہوں ” یوحنا ۳۳:۱۶ خُدا وند یسوع مسیح نہ ناکام ہوا نہ ہی پست ہمت۔ شاگردوں کو بھی اسی طرح کی فطرت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ انہیں بھی اسی طرح کام کرنا تھا جس طرح اُس نے کیا تھا۔ اس ساری خدمت کے لئے انہیں اپنی قوت پر نہیں بلکہ مسیح کی قوت اور قدرت پر بھروسہ رکھنا تھا۔ گو اُن کی راہوں میں جا بجا مُشکلات اور رُکاوٹیں ہوں گی پھر بھی انہیں اس کے فضل سے آگے ہی بڑھتے جانا ہے۔ انہیں کسی بھی چیز سے مایوس نہیں ہونا بلکہ اپنے دلوں میں ہر طرح کی مُبارک اُمید رکھنا ہے۔ IKDS 15.3

    خدا وند مسیح نے وہ کام جو اس کے سپرد کیا گیا تھا انجام دے لیا۔ اُس نے ان کو متحد کر لیا جنہیں آدمیوں کے درمیان خدا کی خدمت جاری رکھنا تھی اور اس نے یوں فرمایا۔ “اور اُن سے میرا جلال ظاہر ہوُا میں آگے کو دنیا میں نہ ہوں گا مگر یہ دنیا میں ہیں اور میں تیرے پاس آتا ہوں ۔ اے قُدوس باپ اپنے اُس نا م کے وسیلہ سے جو تو نے مجھے بخشا ہے ان کی حفاظت کر۔ تاکہ وہ ہماری طرح ایک ہوں۔ میں صرف ان ہی کے لئے درخواست نہیں کرتا بلکہ اُن کے لئے بھی جو ان کے کلام کے وسیلہ سے مُجھ پر ایمان لائیں گے تاکہ وہ سب ایک ہوں ۔ یعنی جس طرح اے باپ! تو مجھ میں ہے اور میں تجھ میں ہوُں وہ بھی ہم میں ہوں اور دنیا ایمان لائے کہ تو ہی نے مجھے بھیجا۔ میں ان میں اور تو مجھ میں تاکہ وہ کامل ہر کر ایک ہو جائیں اور دنیا جانے کہ تو ہی نے مجھے بھیجا ہے اور جس طرح کہ تو نے مجھ سے محبت رکھ ان سے بھی محبت رکھ”۔ یوحنا ۱۰:۱۷-۱۱، ۲۰۱۷-۲۳IKDS 16.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents