Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۳۲ - فیاض دل کلیسیا

    پولُس نے جو پہلا خط کرنتھیوں کے نام لکھا تھا اُس میں اُس نے عام اُصولوں پر ہدایات دی تھیں کہ اس دھرتی پر خُداوند کے کام میں وہ کیسے ممد ثابت ہو سکتے ہیں۔ اور وہ رسولی خدمات جو اُس نے اُن کے لئے کی تھیں اُن کے بارے لکھتے ہوئے رسُول مطالبہ کرتا ہے۔ IKDS 314.1

    “کونسا سپاہی کبھی اپنی گرہ سے کھا کر جنگ کرتا ہے؟ کون تاکستان لگا کر اس کا پھل نہیں کھاتا؟ کون گلہ چرا کر اس گلے کا دُودھ نہیں پیتا؟ کیا میں یہ باتیں انسانی قیاس ہی کے موافق کہتا ہوں؟ کیا توریت بھی یہی نہیں کہتی؟ چنانچہ موسیٰ کی توریت میں لکھا ہے کہ دائیں میں چلتے ہوئے بیل کا منہ نہ باندھنا۔ کیا خُدا کو بیلوں کی فکر ہے؟ یا خاص ہمارے واسطے یہ فرمایا ہے؟ ہاں یہ ہمارے واسطے لکھا گیا کیوں کہ مناسب ہے کہ جوتنے والا اُمید پر جوتے اور دائیں چلانے والا حصہ پانے کی اُمید دائیں چلائے۔ پس جب ہم نے تُمہارے لئے رُوحانی چیزیں ہوئیں تو کیا یہ کوئی بڑی بات ہے کہ ہم تُمہاری جسمانی چیزوں کی فصل کاٹیں؟ جب اوروں کا تُم پر یہ اختیار ہے تو کیا ہمارا اس سے زیادہ نہ ہوگا؟ لیکن ہم نے اس اختیار سے کام نہیں لیا بلکہ ہر چیز کی برداشت کرتے ہیں تاکہ ہمارے باعث مسیح کی خُوشخبری میں حرج نہ ہو۔ کیا تُم نہیں جانتے کہ جو مقدس قربان گاہ کے ساتھ حصہ پاتے ہیں؟ اسی طرح خُدا وند نے بھی مقرر کیا ہے کہ خُوشخبری سُنانے والے خُوشخبری کے وسیلہ سے گزارہ کریں”۔ ۱۔ کرنتھیوں ۷:۹۔۱۴IKDS 314.2

    رسُول نے خُداوند کی اس تجویز کا حوالہ دیا جو ہیکل میں خدمت کرنے والے خادموں کےلئے ہُوا کرتی تھی۔ جو اس مقدس خدمت کے لئے وقف ہوتے تھے ان کی ضُرورتیں وہ بھائی پُور کرتے تھے جن کی وہ رُوحانی خدمت کرتے تھے۔ “اب لاوی کی اولاد میں سے جو کہانت کا عہد پاتے ہیں اُن کو حُکم ہے کہ اُمت یعنی اپنے بھائیوں سے اگرچہ وہ ابرہام ہی کے صُلب سے پیدا ہوئے شریعت کے مطابق دہ یکی لیں”۔ عبرانیوں ۵:۷۔۔۔ لاوی کا خاندان خُداوند کی مُقدس خدمت کے لئے چُنا گیا تھا جو ہیکل اور کہانت سے علاقہ رکھتی تھی۔ چنانچہ خُدا وند خُود خادم کے بارے یوں فرماتا ہے “کیونکہ خُدا وند تیرے خُدا نے اس کو تیرے سب قبیلوں میں سے چُن لیا تاکہ وہ اور اس کی اولاد ہمیشہ خُداوند کے نام سے خدمت کے لئے حاضر رہیں”۔ استشنا ۵:۱۸ دسواں حصہ خُداوند فرماتا ہے کہ میرا ہے اور دہ یکی کو روک رکھنا خُدوند کے قریب ٹھگنے کے برابر تھا۔ پولُس نے اسی خدمت کے منصوبہ کا ذکر کیا تھا۔ “کیونکہ کتاب مقدس یہ کہتی ہے کہ دائیں میں چلتے ہوئے بیل کا مُنہ باندھنا اور مزدور اپنی مزدوری کا حقدار ہے”۔ ۱۔تیمتھیس ۱۸:۵ IKDS 315.1

    وہ یکی کی ادائیگی اس کے اپنے کام کی مدد کے لئے تھی۔ اس کے علاوہ خُدا کی طرف سے کئی اور ہدیہ جات کی بھی نشاندہی کی گئی۔ یہودی نظام کے تحت یہ تعلیم دی جاتی تھی کہ فیاضی کی رُوح کو اپناتے ہوئے خُداوند کے کام کے لئے (دہ یکی اور ہدیہ جات) اور ضرُورت مندوں کو دیا کریں۔ اس کے علاوہ بعض خاص موقعں پر ایسے ہدئیے بھی قبول کئے جاتے جو لوگ اپنی خُوشی اور آزاد مرضی سے پیش کرتے۔ فصل کٹائی کی موقع پر یا انگوروں کو اکٹھا کرنے کے موقع پر پہلے پھل انگور، گندم یا تیل خُداوند کے ہدیہ کے طور پر وقف کر دئیے جاتے تھے۔ بالیں جو فصل کاٹتے وقت کھیت میں گر جاتی تھیں اور کھیت کے کونوں کی فصل غریبوں محتاجوں کے لئے چھوڑ دی جاتی تھی، بھیڑوں کی اون جو پہلی بار کاٹی جاتی اور پہلا اناج جب جھاڑا جاتا خُداوند کے لئے بطور ہدیہ ہوتا۔ اسی طرح جانوروں کے پہلوٹھے بھی خُدا وند کے ہوتے۔ آل آدم کے پہلوٹھے فرزند نرینہ کے لئے فدیہ دینا پڑتا۔ تمام پہلے پھل خُداوند کی ہیکل میں پیش کئے جاتے ازاں بعد وہ کاہنوں کی خدمت کے لئے وقف کر دئیے جاتے۔ IKDS 315.2

    خیر اندیشی اور فیض رسائی کے اس نظام کے تحت خُداوند بنی اسرائیل کو یہ سکھانا چاہتا تھا کہ خُدا کو ہر بات میں اولیت حاصل ہونا چاہئے۔ یوں انہیں یاد دلایا جاتا کہ خالق خُدا وند ہی اُن کے کھیتوں، گلوں اور ریوڑوں کا مالک ہے۔ وہی ہے جو اُن کے لئے بارش اور دھوپ بھیجتا ہے جو ان کی فضلوں کو بڑھنے اور پھل پھول لانے میں مدد کرتی ہے۔ جو کچھ بھی ان کی ملکیت میں تھا در حقیقت وہ خُدا وند ہی کا تھا۔ وہ صرف اس کے خزانے کے مختار تھے۔ IKDS 316.1

    یہ خُدا کا ارادہ نہیں کہ مسیح جن کے حقوق بنی اسرائیل سے کہیں زیادہ تجاوز کر گئے ہیں وہ اپنی آزاد مرضی سے بنی اسرائیل کی نسبت کم دیں۔ خُدا وند یسُوع نے فرمایا “جسے بہت دی گیا اس سے بہت طلب کیا جائے گا۔ لوقا ۴۸:۱۲۔۔۔۔ جوکچھ عبرانیوں سے طلب کیا گیا تھا اُس سے زیادہ تر اُن کی اپنی ہی قوم فیضیاب ہوتی تھی۔ آج تو خُدا کا کام تمام روی زمین پر پھیل چُکا ہے۔ اپنے پیروکاروں کی سر زمین میں خُدا وند یسُوع مسیح نے انجیل کی خُوشخبری کا خزانہ رکھ دیا تھا اور انہیں نجات کی خُوشخبری کے پیغام کو دُنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ یقیناًہماری ذمہ داری قدیم بنی اسرائیلیوں کی ذمہ داری سے کہیں زیادہ ہے۔ IKDS 316.2

    جیسے جیسے خُدا کا کام بڑھتا اور پھیلتا جائے گا مدد کی پُکار بار بار سُنائی دے گی۔ ان التجاوں کا جواب دیا جا سکتا ہے اگر مسیحی اس حُکم کی طرف متوجہ ہوں۔ “پوری دہ یکی ذخیرہ خانہ میں لاو تاکہ میرے گھر میں خوراک ہو۔”ملا کی ۱۰:۳ اگر مسیحی ایمانداری سے دہ یکیاں اور ہدیہ جات خُداوند کے گھر میں لائیں تو اس کا خزانہ بھر جائے گا اور پھر خادموں کی تنخواہوں کے لئے فنڈز جمع کرنے کے لئے میلوں ٹھیلوں، لاٹریوں اور پارٹیوں کا اہتمام نہ کرنا پڑے گا۔ IKDS 316.3

    بنی نوع انسان اپنی آمدنی کو ناز پروری، اپنی فرحت تسکین، سج دھج یا اپنے گھروں کی آرائش و زیبائش پر خرچ کرنے کی طرف لگے رہتے ہیں۔ ایسی باتوں پر کلیسیا کے بہت سے ممبران خرچ کرنے سے گریز نہیں کرتے بلکہ اچھی خاصی فضول خرچی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن جب انہیں خُداوند کے خزانہ کے لئے دینے کے لئے کہا جاتا ہے تاکہ اس کا کام دھرتی پر نشوونما پائے تو وہ پس وپیش کرتے ہیں۔ اور بہت ہی قلیل سی رقم خُدا کے خزانہ کے لئے دیتے ہیں۔ شاید وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر اس سے زیادہ دیا (جتنا خُدا وند نے مطالبہ کیا ہے) تو انہیں بڑا خسارہ پڑ جائے گا۔ وہ مسیح کی خدمت اور رُوحوں کی نجات کے لئے حقیقی محبت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ تو پھر اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ایسے لوگوں کی مسیحی زندگی پستہ قامت اور روگی ہے۔ IKDS 317.1

    وہ جس کا دل مسیح کی محبت سے منور ہے وہ خُدا کے اس حکم کو محض فرض ہی تصور نہ کرے گا بلکہ اس مقدس فریضہہ کو ترویج دے گا جو انسان کو دیا گیا ہے۔ تاکہ اپس کی دولت سے دُنیا کے سامنے خُداوند کی بھلائی، رحم اور صداقت کی تشہیر ہو۔ IKDS 317.2

    یہ لالچ کی رُوح ہے جو خُدا کے حصے کو روکے رکھتی ہے۔ خُدا وند کے نزدیک یہ آج بھی نفرت انگیز ہے جیسے قدیم میں جب اس نے اپنے بندہ کے ذریعہ اپنے لوگوں کو یہ کہہ کر جھڑکا تھا “کیا کوئی آدمی خُدا کو ٹھگے گا؟ پر تُم مُجھ کو ٹھگتے ہو اور کہتے ہو ہم نے کس بات میں تجھے ٹھگا؟ دہی یکی اور ہدیہ جات میں۔ پس تُم سخت ملعون ہوئے کیوں کہ تُم نے بلکہ تمام قوم نے مجھے ٹھگا۔” ملاکی ۸:۳۔۹ IKDS 317.3

    فیاضی کی رُوح آسمانی رُوح ہے جو خُدا سے صادر ہوتی ہے۔ اس رُوح کا عظیم مظہر یسُوع کی قُربانی کے ذریعہ صلیب پر ہوتا ہے۔ ہماری خاطر خُدا باپ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دے دیا اور خُدا وند یسُوع مسیح نے جو کچھ اس کا تھا اسے ترک کر دیا اور بالاتر انسان کو بچانے کے لئے خُود کو قربان کر دیا۔ کلوریکی صلیب کو نجات دہندہ کے ہر ایک پیروکار کو خیر اندیشی کی ترغیب دینا چاہئیے۔ اس میں یہ اصول کار فرما ہے “جو کوئی یہ کہتا ہے کہ میں اس میں قائم ہوں تو چاہئے کہ یہ بھی اسی طرح چلے جس طرح وہ چلتا تھا”۔ ۱۔یوحنا ۶:۲ IKDS 317.4

    دوسری جانب خُود غرضی اور نفس پروری کی رُوح ابلیس سے ہے۔ اس میں دُنیا پرستوں کے لئے چھینا جھپٹی کا اُصول کارفرما ہے۔ یوں وہ خُوشی و طرب اور آرام و آسائش کی اُمید کرتے ہیں مگر اُس کا پھل موت اور بد بختی اور خواری ہے جو کچھ اُنہوں نے بویا تھا۔ IKDS 318.1

    جب تک خُداوند خُدا اپنے بچوں کو دنیا تمام نہیں کر ے گا اس کے بچے بھی اس کا حصہ لوٹانے سے باز نہیں آئیں گے۔ نہ صرف وہ اس کا وہی حصہ اُسے دیں گے جس کا وہ مطالبہ کرتا ہے بلکہ وہ اسے اپنی شُکرگزاریاں، اور آزاد مرضی سے بھی اپنے ہدیہ جات پیش کرتے رہیں گے۔ دل کی خُوشی سے اُنہیں اپنی محنت کے پہلے پھلوں سے خُداوند کی تعظیم کرنا چاہئے۔ یوں وہ اس کی برکات سے مالا مال ہوں گے خُدا وند خُود اُن کی رُوحوں کو ان سوتوں سے بلائے گا جو ہمیشہ جاری و ساری رہتے ہیں۔ IKDS 318.2

    خُدا کے خادم جو اُس کی خدمت میں مصرُوف ہیں انہیں اپنے بھائیوں کی دلجوئی اور مالی مدد کے بغیر مسیحی جنگ میں جانے پر مجبُور نہیں کرنا چاہئے۔ کلیسیا کے ممبران کو ان بھائیوں کے ساتھ فیاض دلی سے پیش آنا چاہئے۔ جنہوں نے دوسری سرکاری یا غیر سرکاری ملازمتیں ترک کر رکھی ہیں تاکہ وہ پُوری طرح خُود کو خُدا وند کی خدمت کے لئے دے سکیں۔ جب خُدا کے خُدام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو کام نشوونما پاتا ہے۔ لیکن جب آدمیوں کی خود غرضی کے باعث خُدا کے خادموں کی جائز مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جاتا ہے تو ان کے ہاتھ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور عموماً ان کی افادیت زائل ہو جاتی ہے۔ IKDS 318.3

    خدا کا غضب ان کے خلاف بھڑکتا ہے جو خُدا کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر مخصوص شدہ پاسبانوں کو جو خُدا کی سرگرم خدمت میں مگن ہیں انکی بنیادی ضرُوریات زندگی کو پُورا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ایسے خُود غرض انسانوں سے خُدا نہ صرف اپنے پیسے (دہ یکی) کے ناجائز تصرف کا حساب لے گا بلکہ آزردگی اور دل آزاری کا بھی جو اُن کی وجہ سے اس کے وفادار خادموں کو برداشت کرنا پڑی۔ وہ تمام بھائی جن کو خُدا کی خدمت کے لئے بلاہٹ دی جاتی ہے انہیں خُدا کی خدمت کے لئے کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اُن کو اتنی تنخواہ دی جائے جو اُن کی اپنی اور اپنے خاندان کی ضرُوریات زندگی کے لئے کافی ہو۔ IKDS 319.1

    وہ لوگ جو غیر مذہبی اداروں میں وفاداری سے ذہنی یا جسمانی فرائض انجام دیتے ہیں انہیں اچھی خاصی تنخواہ ملتی ہے۔ کیا سچائی کی تشہیر اور رُوحوں کو مسیح کے پاس لانے کی خدمت اُن لادینی اداروں کی عارضی خدمت سے اہم نہیں ہے؟ اور کیا وہ جو بڑی وفاداری سے خُدا وند کی خدمت میں مصروف ہیں اچھے معاوضے کے حق دار نہیں؟ ہم اپنے اندازے کے مطابق جسمانی اور اخلاقی خدمت کی قدر زمینی کی نسبت آسمانی خدمت زیادہ کرتے ہیں۔ IKDS 319.2

    اس لئے خُدا کے خزانہ میں خُدا کی خدمت کے لئے کافی فنڈ ہونے چاہیئں۔ تاکہ مشنریوں کی بلاہٹ کے مطابق ان کی مدد کی جاسکے۔ چنانچہ یہ لازم ہے کہ خُدا کے لوگ خُوشی سے دل کھول کر دیں۔ خادموں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کلیسیا کے سامنے خُدا کے مقصد کو رکھیں اور اُنہیں فیاض دل ہونا سکھائیں۔ جب اس فرض سے غفلت بری جاتی ہے اور کلیسیا دوسروں کی ضروریات رفع کرنے میں ناکام رہ جاتی ہے تو اس سے نہ صرف خُدا کے کام کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ وہ برکات جو ایمانداروں کو ملنی چاہئیں وہ ان سے محرُوم ہو جاتے ہیں۔ IKDS 319.3

    غریب سے غریب شخص کو بھی خُدا وند کے گھر میں لانا چاہئے کیونکہ وہ مسیح کے فضل میں برابر کے شریک ہیں۔ اور خُود انکاری کر کے وہ ان کی ضرُورتوں کو رفع کرتے ہیں جن کی ضرُورتیں اُن کی ضرُورتوں پر مقدم ہیں۔ غریب شخص کا ہدیہ جو خود انکاری کا پھل ہے وہ خُدا وند کے سامنے بخور کی مانند ہے۔ اور خود انکاری کی قربانی فیض رساں کے دل کو تقویت پہنچاتی ہے اور اسے اس کے اور نزدیک لے آتی ہے جو دولتمند ہونے کے باوجود ہماری خاطر غریب بناتا کہ ہم اس کی غربت کے سبب امیر بن جائیں۔ IKDS 320.1

    بیوہ کا دو دمڑیوں ک ہدیہ ڈالنے کا عمل یعنی جو کچھ اس کے پاس تھا خزانے میں ڈال دیا۔ اس عمل کو کتاب مقدس میں اس لئے درج کیاگیا تاکہ جو غربت اور عُسرت کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں اور خُدا کے کام کے لئے خُدا کو دینا چاہتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ مسیح یسُوع نے اپنے شاگردوں کی توجہ اس عورت کی طرف مبذول کرائی جس نے جو کچھ اس کے پاس تھا خزانے میں ڈال دیا۔ مرقس ۴۴:۱۲ اُس نے اُس کے ہدئیے کو اُن سب کے ہدیوں سے زیادہ قرار دیا جن کے ہدیوں میں ایثار کا جذبہ کار فرمانہ تھا۔ کیونکہ اُنہوں نے اپنی دولت کی بُہتات کی مناسبت سے کم دیا۔ یہ ہدیہ دے کر خاتون نے خُود کو روز مرہ کی ضروریات سے یہ ایمان رکھ کر محرُوم کر لیا کہ وہ میرے آنے والے کل کی ضرُوریات خُود پُوری کرے گا۔ چنانچہ خُداوند یسُوع مسیح نے اس کے بارے فرمایا “اُس نے اپنے شاگردوں کو پاس بُلا کر ان سے زیادہ ڈالا” مرقس ۳:۱۲۔۴۔۔۔ یوں نجات دہندہ نے سبق دیا کہ ہدیہ کی قدر و منزلت اُس کی بہتات پر نہیں سرمایہ کی مناسبت اور دینے والے کی نیت پر مبنی ہے جس کے ترغیب دینے پر یہ ہدیہ گزرانا گیا۔ IKDS 320.2

    کلیسیاوں کے بیچ اپنی انتھک کوشش کے ذریعہ رسُول نے نئے ایمانداروں کے دلوں کو گرمایا کہ وہ خُدا کے کام کے لئے جس قدر زیادہ کر سکتے ہیں کریں۔ اکثر وہ انہیں فیض رسانی دوسرون کی بھلائی کرنے کی ترغیب دیا کرتا تھا۔ افسس کے بزرگوں سے گفتگو کرتے ہوئے جہاں اس نے ماضی میں خدمت کی تھی فرمایا۔ “میں نے تُم کو سب باتیں کر کے دکھادیں کہ اس طر ح محنت کر کے کمزوروں کو سنبھالنا اور خُداوند یسُوع کی باتیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے خُود کہا دینا لینے سے مبارک ہے”۔ “لیکن بات یہ ہے کہ جو تھوڑا بوتا ہے وہ تھوڑا کاٹے گا اور جو بُہت بوتا ہے وہ بہت کاٹے گا۔ جس قدر ہر ایک نے اپنے دل میں ٹھہرایا ہے اسی قدر دے نہ دریغ کر کے اور ہ لاچاری سے کیونکہ خُدا خُوشی سے دینے والوں کو عزیز رکھتا ہے”۔ اعمال ۳۴:۲۰، کرنتھیوں ۶:۹۔۷IKDS 320.3

    تقریباً مکدُونیہ کے ایماندار دنیوی مال و دولت کے لحاظ سے غریب تھے مگر اُن کے دل خُدا کی محبت اور اُس کی سچائی کے لئے بھر پُور تھے اور خُوشی سے انجیل کی خُوشخبری پھیلانے کے لئے دل کھول کر ہدیہ جات دیا کرتے تھے۔ جب غیر قوم مسیحی کلیسیاوں سے یہودی ایمانداروں کی مدد کے لئے عام چندے جمع کئے تو مکدونیہ کی کلیسیا نے اس قدر دل کھول کر دیا کہ وہ دوسری کلیسیاوں کے لئے نمونہ ٹھہری۔ کرنتھیوں کے ایمانداروں کو لکھتے ہوئے رسُول نے ان کی توجہ مکدونیہ کی کلیسیا کی طرف مبذول کرائی “اب اے بھائیوں! ہم تُم کو خُدا کے اُس فضل کی خبر دیتے ہیں جو مکدونیہ کی کلیسیاوں پر ہُوا ہے۔ کہ مصیبت کی بڑی آزمائش میں ان کی بڑی خُوشی اور سخت غریبی ان کی سخاوت کو حد سے زیادہ کر دیا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے مقدُور کے موافق بلکہ مقدُور سے بھی زیادہ اپنی خُوشی سے دیا اور اس خیرات اور مقدسوں کی خدمت کی شراکت کی بابت ہم سے بڑی منت کے ساتھ درخواست کی” ۔۲-کرنتھیوں ۱:۸۔۴ IKDS 321.1

    مکدُونیہ کی کلیسیاوں کی رضا کی قربانی اس لئے معرضِ وجود میں آئی کیوں کہ اُنہوں نے خُود کو کُلی طور پر خُدا وند کو دے دیا تھا۔ پھر خُداوند کی رُوح نے انہیں متحرک کیا تاکہ وہ اپنے ذرائع کو انجیل کی تشہیر کے لئے دے دیں۔ “ہماری اُمید کے موافق ہی نہیں دیا بلکہ اپنے آپ کو پہلے خُداوند کے اور پھر خُدا کی مرضی سے ہمارے سپُرد کیا”۔۲۔کرنتھیوں ۸:۵۔ چنانچہ ان کلیسیاوں کو ترغیب دینے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اُنہوں نے بڑی خُوشی سے اپنی ضرُروتوں کو روک کر ان کی مد د کرنا چاہی جو حاجت مند تھے اور جب رسُول نے انہیں روکنا چاہا ہو گا تو انہوں نے اس کی منت کی کہ وہ ان کے ہدیوں کو قبول فرمائے۔ اُن کی سادگی اور ایمانداری اور بھائیوں کے لئے محبت اور خود انکاری کے ذریعہ وہ بھلائی کے پھلوں سے بھر پور ہو گئے۔ IKDS 321.2

    جب پولُس نے طِطس کو کُر نتھس میں بھائیوں کو مضبوط کرنے کے لئے بھیجا تو اُس نے اُسے ہدایات کی کہ اُسے ایسی کلیسیا کے طور پر اُستوار کر جو دوسروں کی حاجتیں پُوری کرنے میں خُوشی محسُوس کرے۔ یعنی انہیں دینے کے فضل سے آشنا کر۔ اور بھائیوں کو جو اس نے خط لکھا اس میں بھی اس نے اپنی طرف سے التماس کیا”پس جیسے تُم ہر بات میں ایمان اور کلام اور علم اور پُوری سرگرمی اور اُس محبت میں جو ہم سے دیکھتے ہو سبقت لے گئے ہو ویسے ہی اس خیرات کے کام میں بھی سبقت لے جاو۔ پس اب اس کام کو پُورا بھی کرو تاکہ جیسے تُم ارادہ کرنے میں مستعد تھے ویسے ہی مقدُور کے موافق تکمیل بھی کرو۔ کیونکہ اگر نیت ہو تو خیرات اس کے موافق مقبُول ہو گی جو آدمی کے ہے نہ اُس کے موافق جو اُس کے پاس نہیں۔ “اور خُدا تُم پر ہر طرح کا فضل کثرت سے کر سکتا ہے تاکہ تُم کو ہمیشہ ہر چیز کافی طور پر ملا کرے اور ہر نیک کام کے لئے تُمہارے پاس بہت کچھ موجود رہا کرے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ اس نے بکھیرا ہے اُس نے کنگالوں کو دیا ہے۔ اس کی راستبازی ابد تک باقی رہے گی۔ پس جو بونے والے کے لئے بیج اور کھانے والے کے لئے روٹی بہم پہنچاتا ہے وہی تُمہارے لئے بیج بہم پہنچائے گا اور اُس میں ترقی دے گا اور تُمہاری راستبازی کے پھلوں کو بڑھائے گا۔ اور تُم ہر چیز کو افراط سے پاکر سب طرح کی سخاوت کرو گے جو ہمارے وسیلہ سے خُدا کی شکرگزاری کا باعث ہوتی ہے”۔۲۔کرنتھیوں ۷:۸، ۲-کرنتھیوں ۱۱:۸۔۱۲، ۷:۹۔۱۱ IKDS 322.1

    خود غرضی سے پاک سخاوت نے ابتدائی کلیسیاوں کو خُوشیوں کے جُھولے میں بٹھادیا کیونکہ ایماندار سمجھتے تھے کہ جو مددوہ بھیج رہے ہیں اس سے اُن کو انجیل سُنائی جائے گی جو تاریکی میں بیٹھے ہیں۔ اُن کی فیاضی اس بات کی غمازی کرتی تھی کہ خُدا کا فضل انہیں بیکار نہیں ملا۔ اس طرح کی سخاوت کو صرف رُوح کی تقدیس ہی پیدا کر سکتی ہے۔ ایماندارون اور بے ایمانوں دونوں کی نظر میں یہ فضل کا معجزہ تھا۔ IKDS 323.1

    روحانی اقبالمندی اور فلاح و بہبود مسیحی سخاوت کےلئے ہے۔ اپنی زندگیوں سے اپنے نجات دہندہ کی بھلائی کو ظاہر کرنے کے شرف پر مسیح کے شاگردوں کو شادمان ہونا چاہئے۔ جیسے وہ خُدا وند کو دیتے ہیں انہیں اس بات کا پکا یقین ہوتا ہے کہ اُن کا خزانہ اُن سے پہلے آسمانی بارگاہوں میں پہنچ جائے گا۔ کیا لوگ اپنے سرمایہ کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں؟ تو اس کے ہاتھ میں دے دیں جو مصلوبیت کے زخم رکھتا ہے۔ کیا وہ اپنے سرمایہ کا خط اُٹھانا چاہتے ہیں؟ تو چاہئے کہ وہ اپنا سرمایہ دکھیوں اور حاجت مندوں کو دیں ۔ کیا وہ اپنے سرمایہ کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں؟ تو اس کے ہاتھ میں دے دیں جو مصلوبیت کے زخم رکھتا ہے ۔ کیا لوگ اپنے سرمایہ کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں؟تو چاہئے کہ وہ اپنا سرمایہ دکھیوں اور حاجت مندوں کو دیں۔ کیا وہ اپنے سرمایہ میں اضافے کے متمنی ہیں؟ تو پھر وہ ذات الہٰی کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔ “اپنے مال سے اور اپنی پیداوار کے پہلے پھلوں سے خُدا وند کی تعظیم کر۔ یوں تیرے کھاتے خُوب بھرے رہیں گے اور تیرے حوض نئی مے سے لبریز ہوں گے”۔ (امثال ۹:۳۔۱۰۔ اگر وہ خود غرضی سے اپنے سرمایہ کو روک لیں گے تو یہ اُن کے لئے ابدی نقصان ٹھہرے گا۔ لیکن اگر وہ اپنا خزانہ خُدا وند کو دیں گے اُسی وقت سے اُس پر خُداوند کی مہر ثبت ہو جائے گی۔ یہ دوام کی مہر ہو گی جو تغیر پذیر نہ ہو سکےگی۔ IKDS 323.2

    خُدا وند فرماتا ہے کہ “تم خُوش نصیب ہو جو سب نہروں کے آس پاس بوتے ہو اور بیلوں اور گدھوں کو اُدھر لے جاتے ہو”۔ یسعیاہ ۲۰:۳۲۔ خُدا وند کی نعمتوں کو حاجت مندوں کو دینے سے غربت و عُسرت واقع نہیں ہوتی۔ “کوئی تو بتھراتا ہے پر تو بھی ترقی کرتا ہے۔ اور کوئی واجبی خرچ سے دریغ کرتا ہے پر تو بھی کنگال ہے”۔ امثال ۲۴:۱۱۔ بیج بونے والا اسی لئے زیادہ پاتا ہے کیونکہ وہ پہلے اُسے بکھیرتا ہے۔ یہ اُن کے حق میں بھی سچ ہے جو خُدا کی نعمتوں کو وفا داری سے بانٹتے چلے جاتے ہیں۔ دوسروں کو دینے سے ہی ان کی برکات میں اضافہ ہوتا ہے۔ “دیا کرو تمہیں بھی دیا جائے گا۔” اچھا پیمانہ داب داب کر واور ہلا ہلا کر اور لبریز کر کے تُمہارے پلے میں ڈالیں گے کیونکہ جس پیمانے سے تُم ناپتے ہو اُسی سے تُمہارے لئے ناپا جائے گا”۔ لوقا ۸۳:۶IKDS 324.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents