Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۵۵ - فضل سے تبدیلی

    یوحنا رسُول کی زندگی حقیقی تقدیس کی نظیر ہے۔ جب وہ مسیح یسُوع کی قُربت میں تھا تو نجات دہندہ نے اُسے اُسکی کمزوریوں پر اکثر جھڑکا تھا اور اُس نے مسیح کی تنبیہ کو بدل و جان قبول کیا۔ اور جیسا ہی مسیح کی سیرت اس پر نمودار ہوئی اسکی روشنی میں یوحنا نے ان کمزوریوں کو دیکھا جو اس کے چالچلن میں پائی جاتی تھی چنانچہ اس نے مسیح کی حلیمی اور فروتنی کو اختیار کر لیا۔ آئے روز وہ اپنی گُستاخ اور تشدد پسند رُوح کے برعکس نجات دہندہ کی نرم اور برداشت کرنے والی رُوح کو دیکھتا اور اس سے صبر اور فروتنی کے سبق سنتا۔ چنانچہ آئے روز اس کا دل نجات دہندہ کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ حتٰی کہ وہ مسیح کی محبت میں اپنے آپ سے بالکل بے نیاز ہو گیا۔ وہ قوت اور نرمی، وہ جلال اور فروتنی، وہ قوت اور صبر جو اُس نے خُدا کے بیٹے کی زندگی میں روزانہ ملاحظہ کیا اُس سے اُسکی رُوح شکر گزاری اور حمد سے بھر پور ہو گئی۔ چنانچہ بدلہ لینے کی رُوح جو اُس میں پائی جاتی تھی اور سرکش مزاج کو مسیح کی تبدیلی کر دینے والی قوت کے حوالے کر دیا۔ لہٰذا الہٰی محبت نے حیرت انگیز طور پر اس کے چالچلن میں تبدیلی واقع کر دی۔ IKDS 522.1

    تقدیس کا جو تجربہ یوحنا رسُول کی زندگی میں پایا گیا اس کے بالکل ہی متضاد تجربہ یہودہ اسکریوتی کا ہے جو یوحنا کی طرح مسیح کی شاگردی میں تھا اور جس نے خُدا پرستی کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔۔ وہ مسیح یسوع کی سیرت کی پاکیزگی اور خوبصورتی سے بھی نابلد نہ تھا، بلکہ اکثر جب وہ مسیح یسُوع کا کلام سُنتا تو وہ گناہوں کا اقرار کرتا۔ چنانچہ الہٰی تاثیر کی مزاحمت کرنے سے وہ اپنے آقا کی بے حُرمتی کرتا جس کی محبت کا ظاہری طور پر اقرار کرتا تھا۔ یوحنا نے اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کے خلاف بھرپور جنگ کی جبکہ یہودہ نے اپنے ضمیر کی بھی حُکم عدُولی کی اور خُود کو آزمائشوں کے سپُرد کر دیا اور بُری عادات کو اور بھی مضبوطی سے اپنے اُوپر طاری کر لیا۔ ان صداقتوں کی مشق جو یسُوع مسیح نے سکھائیں اسکی خواہشوں اور ارادوں کے متضاد تھیں اور وہ آسمانی حکمت حاصل کرنے کے لیے خُود کو اُن کے تابع کرنے سے قاصر تھا۔ چنانچہ روشنی میں چلنے کی نسبت اس نے اندھیرے میں چلنے کو ترجیح دی۔ بُری خواہشات ، لالچ، بدلہ لینے کی رُوح، گھناو نے خیالات اس کے اندر پرورش پاتے رہے حتٰی کہ ابلیس اس پر پوری طرح قابض ہو گیا۔ IKDS 522.2

    یوحنا اور یہودہ اسکریوتی دونوں ہی ان لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو مسیح کے حواری ہونے کے دعویدار ہیں۔ ان دونوں شاگردوں کے پاس الہٰی نمونہ اپنانے کے یکساں مواقع تھے۔ دونوں ہی مسیح کے حلقہ بگوش تھے اور مسیح کا کلام سننے کا دونوں کو ہی شرف حاصل تھا۔ دونوں کے چالچلن میں بڑی بڑی خامیاں موجود تھیں۔ دونوں کو الہٰی فضل پانے کا اختیار حاصل تھا جو کردار کو بدلنے کی قوت رکھتا ہے۔ ایک فروتنی سے مسیح یسوع کے دیئے ہوئے درس پر عمل پیرا تھا تو دوسرا اپنے کردار سے یہ ثابت کر رہا تھا کہ وہ صرف سُننے والا ہے عمل کرنے والا نہیں۔ ایک روزانہ خود انکاری کی موت مر کر گناہ پر غالب آتا تھا اور سچائی کی بدولت پاکیزگی حاصل کرتا تھا جبکہ دوسرا فضل کی تبدیلی کرنے والی قوت کی مزاحمت کرتا اور اپنی خود غرضانہ خواہشات کو پالت پوستا تھا اور یوں اس نے خود کو ابلیس کی غلامی میں دے دیا۔ IKDS 523.1

    کردار کی وہ تبدیلی جو یوحنا میں دیکھی گئی وہ صر مسیح کے ساتھ ناطہ رکھنے کے نتیجہ میں ہی معرض وجود میں آ سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کے کردار میں بہت ہی نمایاں نقائص موجود ہوں لیکن جب وہ مسیح کا سچا شاگرد بن جاتا ہے تو الہٰی فضل کی قوت اُس کے تمام نقائص سے پاک صاف کر دیتی ہے۔ ان میں خداوند کا جلال اس طرح منعکس ہوتا ہے جس طرح آئینہ میں تو اس خداوند کے وسیلہ سے جو رُوح ہے ہم اسی جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں۔ ۲۔کرنتھیوں ۱۸:۳ IKDS 523.2

    یوحنا پاکیزگی اور تقدیس کا معلم تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے خطوط میں مسیحی طور و اطوار اور اخلاقیات کے بارے مصدقہ اصول اور ضابطے قلمبند کئے ہیں۔ “اور جو کوئی اس سے یہ اُمید رکھتا ہے اپنے آپ کو ویسا ہی پاک کرتا ہے جیسا وہ پاک ہے”۔ جو کوئی یہ کہتا ہے کہ میں اس میں قائم ہوں تو چاہئے کہ یہ بھی اسی طرح چلے جس طرح وہ چلتا ہے”۱۔یوحنا ۳:۳، ۶:۲ ۔۔۔ یوحنا رسُول نے سکھایا کہ ایک مسیحی کے دل اور زندگی میں دونوں میں پاکیزگی ہونا چاہئے۔ صرف زبانی اقرار پر ہی اسے مطمئن نہ بیٹھے رہنا چاہئے۔ جس طرح خداوند پاک ہے اسی طرح گرے ہوئے انسان کو مسیح میں ایمان کے ذریعہ پاک ہونا چاہئے۔ IKDS 524.1

    بلکہ پولس رسُول نے لکھا کہ “چنانچہ خُدا کی مرضی یہ ہے کہ تُم پاک بنو”۔ ۱۔تھسلینکیوں ۳:۴۔ جو کچھ بھی خداوند اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر کرتا ہے یا اُن کے لیے کرتا ہے اس سے صرف اور صرف کلیسیا کی تقدیس مقصود ہے۔ اس نے انہیں پاک بننے کے لیے ابدیت سے چُن رکھا ہے۔ اس نے انہیں فدیہ کے طور پر اپنا بیٹا دے دیا تاکہ وہ سچائی کو تسلیم کر کے اس کے ذریعہ پاکیزگی حاصل کریں۔ ان سے وہ کُلی تابعداری کا مطالبہ کرتا ہے۔ خداوند صرف اسی کے ذریہ بزرگی پاتا ہے جو اس میں ایمان رکھنے ہیں، اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ اسکی شبیہ میں ڈھلتے جاتے اور اُسکی رُوح کے تابع رہتے ہیں۔ پھر نجات دہندہ کی گواہی دینے کے ذریعہ انہیں پتہ چل سکتا ہے کہ الہٰی فضل نے اُن کے لئے کیا کیا ہے۔ IKDS 524.2

    حقیقی پاکیزگی محبت کے اصُول پر کار بند رہنے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ خُدا محبت ہے اور جس میں محبت ہے اُس میں خُدا ہے۔ “خدا محبت ہے اور جو محبت میں قائم رہتا ہے وہ خُدا میں قائم رہتا ہے اور خُدا اس میں قائم رہتا ہے”۔ ۱۔یوحنا ۱۶:۴۔ جس کی زندگی میں مسیح کا ڈیرا ہے وہ عملی طور پر خُدا ترسی اور خُدا پرستی کا مظاہرہ کرے گا، اس کا کردار پاکیزہ اعلیٰ و بالا، ممتاز اور پُر شکوہ ہو گا۔ صاف شفاف تعلیم کے ساتھ راستبازی کے اعمال کا امتزاج اور آسمانی قانوں پاک کاموں کے ساتھ عمل میں آئیں گے۔ IKDS 524.3

    جو تقدیس اور پاکیزگی کے خواہاں ہیں انہیں پہلے خود انکاری اور جانثاری کے معنی سمجھنے کی ضرورت ہے جس پر “بھاری اور ابدی جلال” آویزاں ہے۔۔۔۔۔ یسُوع نے فرمایا کہ “اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے”۔ ۲۔کرنتھیوں ۱۷:۴، متی ۲۴:۱۶۔۔۔۔ یہ ہماری محبت کی خُوشبو ہے جو ہم اپنے بھائی بندوں کے لیے دکھاتے ہیں، اور اسی سے خُدا کے واسطے ہماری محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ خدمت کے دوران یہ صبر کا کام دیتی ہے جس سے رُوح کو تسکین نصیب ہوتی ہے۔ خداوند خُدا اسی کو سر بلند کرتا اور قوت بخشتا ہے جو رضا کارانہ مسیح کی راہ پر چلنے کا خواہاں ہے۔ IKDS 525.1

    پاکیزگی اور تقدیس کا کام لمحہ بھر، چند گھڑیوں یا چند دنوں کا کام نہیں بلکہ یہ عمر بھر کا عمل ہے۔ پاکیزگی بے خودی اور وجدانی کیفیت کےصلے میں بھی یہ نصیب نہیں ہوتی، بلکہ مسلسل گناہ کی طرف سے مرنا اور متواتر مسیح کے لیے زندگہ رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔ سیرت میں سے برائیوں کی اصلاح نہ تو معمولی سے کوشش سے ہو سکتی ہے اور نہ ہی کبھی کبھار ان کی اصلاح کرنے سے۔ بلکہ مسلسل مستقل مزاجی اور پیہم عمل اور ثابت قدمی سے جدوجہد جاری رکھنے سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ ہمیں بالکل یہ علم نہیں کہ آنے والے کل (فردا) کی کشمکش آج کی کشمکش کے مقابلہ میں کتنی سخت ہوگی۔ جب تک ابلیس کی حُکمرانی ہے ہمیں مسیح کے تابع رہ کر گناہ پر غلبہ پانا ہو گا، اور جب تک زندگی ہے ہمیں اس عمل کو جاری رکھنا ہو گا۔ کیونکہ اس زندگی میں کوئی ایسا مقام نہیں آئے گا جس پر پہنچ کر ہم کہہ سکیں کہ میں نے سب کچھ پا لیا۔ کیونکہ پاکیزگی و تقدیس عمر بھر کی تابعداری، ایمانداری اور وفاداری کا نتیجہ ہے۔ IKDS 525.2

    کسی رسُول یا نبی نے آج تک دعویٰ نہیں کیا کہ وہ گناہ سے مبرّا و منزہ ہے۔ وہ حضرات خداوند کی نزدیکی اور قربت مین رہے ہیں جو جان بوجھ کر گناہ کرنے کی نسبت جان دینے کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ لوگ جن کو خداوند نے الہٰی نور اور قوت عطا کی انہوں نے بھی اپنی گناہ آلودہ فطرت کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے بھی اپنے آپ پر بھروسہ نہیں کیا، نہ اپنی راستبازی کا دعویٰ کیا ہے بلکہ مسیح کی راستبازی پر ہی انحصار کیا ہے۔ IKDS 526.1

    یہ ان سب کے لئے بھی درُست ہے جو مسیح کو تھامے ہوئے ہیں۔ ہم مسیح کے جس قدر قریب آتے ہیں اسکی سیرت کی پاکیزگی کو مزید صاف طور پر دیکھتے ہیں۔ اسکی روشنی میں ہمیں اپنے گناہوں کی بہتات نظر آتی ہے پھر ہم اپنی بڑائی کرنے سے باز رہتے ہیں۔ ایک رُوح کو مسلسل خُدا کے پیچھے جانے اور اس سے مسلسل اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے اور انہیں ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے مسیحی تجربہ کے ہر قدم پر توبہ کا عمل پہلے سے زیادہ گہرا ہونا چاہئے۔ اور ہمیں یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ ہماری رُوحانی جسمانی اور اخلاضی تمام قابلیت کا انحصار صرف یسُوع میں ہے۔ اور پھر ہم رسُول کے ساتھ مل کر کہہ سکیں گے”کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ مجھ میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے لیکن نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے”۔ “لیکن خُدا نہ کرے کہ میں کسی چیز پر فخر کروں سوا اپنے خُدا وند یسُوع مسیح کی صلیب کے جس سے نیا میرے اعتبار سے مصلُوب ہوئی اور میں دنیا کے اعتبار سے”۔ رومیوں ۱۸:۷، گلتیوں ۱۴:۶ IKDS 526.2

    محرّر فرشتوں کو خُدا کے لوگوں کی مقدس جدوجہد اور کشمکش کے بارے تحریر کرنے دیں، انہیں ان کے آنسووں اور دُعاوں کا ریکارڈ رکھنے دیں، لیکن انسانوں کے لبوں سے درج ذیل کلام سُنا کر رب العزت کی بے حُرمتی نہ کریں۔ “میں گناہ سے مبرّا ہوں میں پاک ہوں” تقدیس شدہ لبوں سے اس طرح خُود پرستی کا کلام نہیں آئے گا۔ IKDS 526.3

    پولُس رسُول تیسرے آسمان پر اُٹھا لیا گیا اور اُس نے جو کچھ وہاں دیکھا وہ انسان بیان نہیں کر سکتا۔ پھر بھی وہ گھمنڈ کئے بغیر یوں فرماتا ہے “یہ غرض نہین کہ میں پا چکا یا کامل ہوں لیکن اس چیز کے پکڑنے کے لیے دوڑا ہوا جاتا ہوں تاکہ اس انعام کو حاصل کروں جس کے لیے خُدا نے مجھے مسیح یسُوع میں اُوپر بُلایا”۔ فلپیوں ۱۲:۳۔۔۔ پولُس رسُول کے ایمان کی اچھی کشتیوں کی فتح اور کامیابیوں کے بارے آسمانی فرشتے لکھیں۔ اور آسمان پر اس کے سفر کے بارے فرشتے خوشیاں منائیں، پولُس ان تمام چیزون کو نگاہ میں رکھتے ہوئے باقی ہر چیز کو کوڑا کرکٹ خیال کرتا ہے۔ فرشتے اسکی فتوحات پر خُوشیاں مناتے ہیں مگر رسُول اس پر کوئی فخر نہیں کرتا۔ ہر مسیحی کو بھی ایسا ہی مزاج اور رویہ رکھنا چاہئے جو رسُول کا تھا۔ اور انہیں بھی رسُول کی طرح تاج حاصل کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہتا چاہئے۔ IKDS 527.1

    آئیے وہ تمام بھائی جو اپنی معصومیت اور بے گناہی کا نقارہ پیٹتے ہیں خُدا کی شریعت کے آئینہ میں جھانکیں۔ اور جب وہ اس کے دُورّس مطالبات کو دیکھیں گے اور اس کے کام کو پہچانیں گے جو خیالون اور دلون کو جانچتا ہے تو وہ اپنی بے گناہی کا اعلان نہیں کریں گے۔ IKDS 527.2

    “اگر ہم کہیں کہ ہم بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں اور ہم میں سچائی نہیں۔ اگر کہیں کہ ہم نے گناہ نہیں کیا تو اُسے جُھوٹا ٹھہراتے ہیں اور اُس کا کلام ہم میں نہیں ہے”۔ “اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کو معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے”۔ ۱۔یوحنا ۸:۱، ۱۰، ۹ IKDS 527.3

    ایسے بھی لوگ پائے جاتے ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مقدس اور پاک ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ کُلی طور پر خداوند کے لیے وقف ہیں۔ وہ خُدا کے وعدوں پر حق جتاتے ہیں مگر خُدا وند کی شریعت کو ماننے سے انکاری ہیں۔ خُدا کی شریعت کو توڑنے والے یہ لوگ ہر چیز پر حق جتاتے ہیں جو خُدا نے اپنے بچوں کو دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یوحنا رسُول ہمیں بتاتا ہے کہ خُدا کے لیے سچی محبت اسکی شریعت کی فرمانبرداری کرنے سے ہی عیاں ہوتی ہے۔ سچائی کے نظریہ کو ماننا کافی نہیں، مسیح میں ایمان جتانا، یسُوع کو دغا باز نہ سمجھنا اور بائیل کا مذہب جھوٹی کہانیوں پر مبنی نہیں۔۔۔۔ یہ سب کچھ ضروری تو ہو سکتا ہے مگر یہ کافی نہیں کیونکہ رسُول کے مطابق۔۔۔۔ “جو کوئی یہ کہتا ہے کہ میں اُسے جان گیا ہوں اور اُس کے حُکموں پر عمل نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے اور اس میں سچائی نہیں۔ ہاں جو کوئی اس کے کلام پر عمل کرے اس میں یقیناً خُدا کی محبت کامل ہو گئی ہے۔ ہمیں اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس میں ہیں”۔ “اور جو اُس کے حُکموں پر عمل کرتا ہے وہ اس میں اور یہ اس میں قائم رہتا ہے اور اسی سے یعنی اس رُوح سے جو اس نے ہمیں دیا ہے ہم جانتے ہیں کہ ہم میں قائم رہتا ہے”۔۱۔یوحنا ۴:۲۔۵، ۲۴:۳ IKDS 528.1

    یوحنا رسُول یہ تو نہیں سکھا رہا کہ نجات فرمانبرداری کر کے کمائی جا سکتی ہے بلکہ یہ تابعداری ایمان اور محبت کا پھل ہے۔۔۔۔۔ “تُم جانتے ہو کہ وہ اس لئے ظاہر ہوا تھا کہ گناہوں کو اُٹھا لے جائے اور اسکی ذات میں گناہ نہیں۔ جو کوئی اس میں قائم رہتا ہے وہ گناہ نہیں کرتا۔ جو کوئی گناہ کرتا ہے نہ اس نے اسے دیکھا اور نہ جانا ہے”۔ ۱۔یوحنا ۵:۳۔۲۔۔۔۔ اگر ہم مسیح میں رہتے ہیں، اگر خُدا کی محبت ہمارے دلوں میں جا گزیں ہے تو پھر ہماری محسوسات، ہمارے خیالات، ہمارے اعمال خُدا کی مرضی کے مطابق ہوں گے۔ اور تقدیس شدہ دل خُدا کی شریعت کے آئین کے ہم آہنگ (مطابقت) ہو گا۔ IKDS 528.2

    بہتیرے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خُداوند کے احکام کی پابندی کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں مگر انہیں بہت ہی کم اطمینان یا خُوشی حاصل ہوتی ہے۔ یہ کمی جو ان کے تجربہ میں پائی جاتی ہے یہ ایمان کو عمل میں نہ لانے کا نتیجہ ہے۔۔۔۔وہ کمی جو ان کے تجربہ میں پائی جاتی ہے یہ ایمان کو عمل میں نہ لانے کا نتیجہ ہے۔۔۔۔۔ وہ ایسے ہیں جیسے کوئی کلر بنجر زمین اور جھُلسے ہوئے ویرانوں میں گھُومے پھرے۔ وہ تھوڑا مانگتے ہیں جبکہ انہیں بہت مانگنا چاہئے کیونکہ اس کے وعدے لامحدود ہیں۔ ایسے حضرات صحیح تقدیس کی نمائندگی نہیں کرتے۔ جو سچائی کی تابعداری کرنے کے نتیجہ میں نصیب ہوتی ہے۔ خداوند کی مرضی تو یہ ہے کہ اس کے تمام بچے اور بچیاں خوش و خرم اور شاد کام مطمئن اور وفادار ہوں۔ ایمان کو عمل میں لانے کے سبب ایمانداران تمام برکات کا مالک بن سکتا ہے۔ ایمان کے ذریعہ چالچلن میں پائی جانے والی ہر کمی پر بدی اور ہر خطا دُور ہو سکتی ہے۔ IKDS 529.1

    مسیحی کردار کی نشوونما اور گناہ کے ساتھ کشمکش میں کامیابی کے لیے دُعا آسمانی مخصوص شدہ وسیلہ ہے۔ ایمان سے مانگی ہوئی دُعا کے جواب میں جو الہٰی تاثیر میں آتی ہیں حاجتمند رُوح کے لیے وہ سب کچھ مہیا کریں گی جس کی اس نے درخواست کی۔ گناہ کی معافی، رُوح القدس، مسیح یسُوع کا سا مزاج، اسکی خدمت کرنے کے لیے حکمت یا کوئی نعمت جس کا اس نے وعدہ کر رکھا ہے اگر ہم مانگیں تو اس کا وعدہ ہے۔ “تمہیں دیا جائے گا”۔ IKDS 529.2

    پہاڑ پر جب موسیٰ خُدا کے ساتھ تھا تو اس نے اس حیرت انگیز خیمہ کا نقشہ پایا جس کے اندر خُدا کے جلال کو ٹھہرنا تھا۔ ہمیں بھی پہاڑ پر یعنی تنہائی میں خُدا کے ساتھ رابطہ رکھنے سے بنی نوع انسان کے لیے جلالی خیالات اور نظریات مل سکتے ہیں۔ ہر زمانہ میں آسمانی وسائل و روابط کی بدولت خداوند نے اپنے بچوں کے لیے اپنے مقاصد کا اظہار کیا ہے اور فضل کی تعلیم سے بتدریج ان کے ذہنوں کو روشن کیا ہے۔ سچائی عطا کرنے کے اسکے طریقہ ء کار کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ “آو ہم دریافت کریں اور خدا وند کے فرمان میں ترقی کریں۔ اس کا ظہور صبح کی مانند یقینی ہے اور وہ ہمارے پاس برسات کی مانند یعنی آخری برسات کی مانند جو زمین کو سیراب کر تی ہے آئے گا”۔ ہوسیع ۳:۶۔ وہ شخص جو خود کو ایسی جگہ رکھتا ہے جہاں خُدا اسے منور کرے تو روز روشن کی طرح ہر رکاوٹ کو خُدا کے فضل سے عبُور کرے گا۔ اور جیسے نور کا تڑکا دُھندلکوں کو پیچھے چھوڑ کر دوپہر کی ماند روشن ہوتا ہے اسی طرح وہ خُدا وند کے چہرہ کے نُور سے روشن ہوگا۔ IKDS 529.3

    سچی اور حقیقی تقدیس کا مطلب کامل محبت، کامل تابعداری اور خُدا کی مرضی کے ساتھ کامل ہم آہنگی ہے۔ سچائی کی تابعداری کرنے کے ذریعہ ہی ہم خُدا سے پاکیزگی حاصل کر سکتے ہیں ۔ ہمیں مرُدہ کاموں کو چھوڑ کر زندہ خُدا کی خدمت کرنا ہو گی۔ ابھی تو ہم کامل نہیں ہیں مگر ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم خود کو گناہ اور خودی سے لا تعلق کر لیں اور کامل کی طرف قدم بڑھائیں۔ عظیم ممکنات، اعلیٰ اور مقدس خوبیاں ہم سب کی رسائی میں رکھی گئی ہیں۔ IKDS 530.1

    اس موجودہ جہاں میں دینی اور مذہبی طور پر کیوں بہت سے اصحاب ترقی نہیں کرتے، اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خُدا کی مرضی کی تعبیر و تفسیر اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہیں۔ یعنی جو کچھ وہ خُود کرنا چاہتے ہیں خُدا کے کلام کو موڑ توڑ کر اسی کے مطابق تفسیر کر لیتے ہیں یوں وہ اپنی ہی خواہشوں کے مطابق چلتے اور عمل کرتے ہیں جب کہ دوسروں کے سامنے خُدا کی مرضی کے مطابق چلنے کی ڈھینگ مارتے ہیں۔ ایسوں کی خُود اپنے ساتھ کسی طرح کی کشمکش نہیں۔ (کیوں کہ وہ اپنے دل کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں نہ کہ خُدا کی مرضی کے مطابق)۔ IKDS 530.2

    اس کے علاوہ دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جنہیں کچھ دیر کے لیے اپنی خود غرضانہ خواہشات، تن آسانی اور رغبتوں پر کامیابی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ مخلص اور ایماندار ہوتے ہیں مگر وہ طویل جدوجہد، روزانہ مسیح کی خاطر مرنے اور ناتمام ہونے والے ہنگاموں سے عاجز آ جاتے ہیں۔ آرام طلبی کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے یوں وہ اپنی مخمور اور اُونگھتی آنکھوں کو بند کر لیتے ہیں اور پھر آزمائش کا مقابلہ کرنے کی نسبت اس کے قدموں میں گر پڑتے ہیں۔ IKDS 530.3

    خداوند کے پاک کلام میں جو ہدایات دی گئی ہیں ان کے پیش نظر بدی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی بالکل کوئی گنجائش نہیں۔ خُدا کا بیٹا اس لئے ظاہر ہوا تاکہ سب کو اپنے پاس کھنچ لے وہ دُنیا کو لوری دے کر سُلانے نہ آیا، بلکہ انہیں وہ تنگ راستہ دکھانے آیا جس پر چل کر سب کو خُدا کے شہر میں پُہنچنا ہے۔ اس کے بچوں کو اُسکی راہ پر چلنا ہے جس راہ پر اس نے ہماری رہنمائی کی ہے۔ اس کے لیے خواہ ہمیں تن آسانی خود غرضی یا کسی بھی رغبت کی کتنی ہی مہنگی قربانی کیوں نہ دینا پڑے دریغ نہیں کرنا ہے۔مگر اس کے لیے ہمیں اپنے آپ سے مسلسل جنگ لڑنا ہو گی۔ IKDS 531.1

    سب سے زیادہ بزرگی اور عزت اور جلال اگر کوئی انسان خُدا کو دے سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ خُدا کے لیے خود کو وقف کر دے جس کے ذریعہ وہ کام کر سکے۔ وقت بڑی تیزی سے ابدّیت کی جانب رواں دواں ہے۔ آئیے جو کچھ خداوند کا ہے اسے دینے سے دریغ نہ کریں۔ وہ پورے کا پورا لینا چاہتا ہے، یہ اسے دیجئے کیوں کہ یہ دو طرح سے اسی کا ہے۔ ایک تو اس نے اسے تخلیق کیا ہے اور پھر اسے مخلصی بخشی ہے۔ وہ آپ کے فہم و فراست کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ اسے دے دیجئے۔ کیوں کہ یہ اسی کی عنایت ہے۔ وہ آپ سے روپے پیسے دینے کے لیے کہتا ہے، اسے دے دیں کیونکہ دولت اسی کی ہے۔ تُم اپنے نہیں بلکہ خون سے خریدے گئے ہو۔۱۔کرنتھیوں ۱۹:۶۔۲۰ خُداوند مخصوص شُدہ رُوح سے خراجِ عقیدت کا خواہاں ہے۔ جس نے ایمان کے عمل سے جو محبت کی رُو سے کام کرتا ہے، خُدا کی خدمت کرنے کے لیے خود کو تیار کیا ہے۔ وہ ہمارے سامنے کاملیت کا بہت بڑا مثالی معیار رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جیسے مسیح یسُوع آسمان پر پوری طرح ہمارا ہے۔ ہم دھرتی پر کُلی طور پر اُس کے ہو جائیں۔ IKDS 531.2

    “ چنانچہ خُدا کی مرضی یہ ہے کہ تُم پاک بنو”۔۱۔تھسلینکوں ۳:۴۔۔۔۔ کیا آپ کی بھی یہی مرضی ہے؟ ہو سکتا ہے آپ کے سر پر گناہوں کا پہاڑ ہو لیکن اگر آپ فروتن ہو کر اپنے گناہوں کا اقرار کریں اور مسیح مصلُوب کی راستبازی میں جو مرُدوں میں سے زندہ ہوا ایمان رکھیں تو وہ آپ کو تمام ناراستی سے پاک صاف کرنے میں سچا اور عادل ہے۔ خُداوند چاہتا ہے کہ آپ اُسکی شریعت کے ساتھ پوری مطابقت رکھیں۔ یہ شریعت اُسکی آواز کی صدائے باز گشت ہے جو آپ سب سے مخاطب ہو کر کہہ رہی ہے “جو پاک ہے وہ پاک ہی ہوتا جائے” وہ مسیح کے فضل کی بھرپوری اور معموری کا خواہاں ہے۔ کاش آپ کا دل اسکی راستبازی کی چاہت سے معمور ہو جائے جس کی بدولت اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ IKDS 532.1

    اور جیسے ہی آپ کی رُوح خُداوند کی طالب ہو گی تو آپ اس کے فضل کی زیادہ سے زیادہ نایاب دولت کو پائیں گے۔ اور جب آپ اس مال و متاع پر غوروخوض کریں گے جس کے آپ مالک بن جائیں گے جو مسیح کے فدیہ کی صفات آشکارہ کرے گا تو اسکی راستبازی کی قدرت آپ کو خُدا کے سامنے بغیر داغ اور جُھری کے پیش کرے گی۔ “پس اے عزیزو! چونکہ تُم ان باتوں کے منتظر ہو اس لئے اس کے سامنے اطمینان کی حالت میں بیداغ اور بے عیب نکلنے کی کوشش کرو”۔ ۲۔پطرس ۱۴:۳IKDS 532.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents