Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۹ - سات نیک نام شخص

    اُن دنوں میں جب شاگرد بہت ہوتے جاتے تھے تو یونانی مائل یہودی عبرانیوں کی شکایت کرنے لگے۔ اس لئے روزانہ خبر گیری میں اُن کی بیواوں کے بارے غفلت ہوتی تھی” ۔ اعمال ۱:۶۔ ابتدائی کلیسیا کئی طبقات کے لوگوں پر مشتمل تھی۔ اور اُس میں کئی قومیت کے لوگ شامل تھے۔ پنتکِسُت کے وقت جب رُوح القدس کا نزول ہوا “ہر قوم میں سے جو آسمان کے تلے ہے خُدا ترس یہودی یروشلیم میں رہتے تھے”۔ اعمال ۵:۲۔ عبرانی ایمان رکھنے والوں کے درمیان جو یروشلیم میں رہتے تھے کچھ ایسے بھی لوگ تھے جنہیں یونانی کہتے تھے اُن میں اور فلسطین کے یہودیوں میں کافی دیر سے دُشمنی چلی آتی تھی۔ وہ ایک دُوسرے کا اعتبار نہیں کرتے تھے۔ IKDS 78.1

    رسولوں کی خدمت کی بدولت جو توبہ کرنے پر مائل ہو گئے اُن بھائیوں کے دل بھی نرم ملائم ہو گئے چنانچہ وہ مسیحی بندھن میں بندھ گئے۔ اور پہلی دُشمنی اور تعصب کے باوجود وہ سب ایک دُوسرے کے ساتھ متحد ہو گئے۔ ابلیس جانتا تھا کہ اگر یہ اتحاد جاری رہا تو وہ انجیل کی خوشخبری کو روکنے میں ناکام رہے گا۔ اُس نے سوچا کہ ان میں پہلی پرانی عادات کو بیدار کر کے فائدہ اُٹھایا جائے۔ ورنہ وہ کلیسیا میں نا اتفاقی کو متعارف نہیں کرا سکے گا۔ IKDS 78.2

    ہُوا یوں کہ شاگردوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ اور ابلیس بعض کے دل میں شک پیدا کرنے میں کامیا ب ہو گیا یعنی اُن لوگوں کے دلوںمیں جو پہلے ہی اپنے بھائیوں سے حسد کرتے تھے ۔ اُن کے دلوں جو رُوحانی رہنماوں میں غلطیاں پکڑنے کے عادی تھے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ “یونانی مائل یہودی، عبرانیوں کی شکایت کرنے لگے”۔ اعمال ۱۱:۶ اور شکایت کی وجہ یہ تھی کہ روزانہ خبر گیری میں ان کی بیواوں کے بارے میں غفلت ہو رہی ہے۔ غیر مساوات کسی طرح کی بھی کیوں نہ ہو ، کہیں بھی ہو، یہ انجیل کی رُوح کے منافی ہے۔ تاہم ابلیس شکوک پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ چنانچہ فوراً ہر طرح کی غیر یقینی اور غیر تسلی بخش حالت کا ازالہ کرنے کے بارے سوچا گیا، مبادہ ابلیس اپنے عزائم میں کامیاب ہو کر بھائیوں میں جُدائی پیدا کرے۔ IKDS 78.3

    یسوع مسیح کے شاگردوں کو بحران کا سامنا تو تھا مگر رسولوں کی دانا و بینا قیادت کے زیر سایہ، جنہوں نے رُوح القدس کی قیادت سے متحد ہو کر خدمت کی انجیل کا پیغام بڑی سُرعت سے پھیلنے لگا۔ کلیسیا مسلسل بڑھنے پھیلنے اور برومند ہونے لگی۔ اور ممبران میں یہ اضافہ، انتظامیہ کے لئے خاصہ بوجھ بن گیا۔ کوئی بھی اکیلا شخص یا تھوڑے سے لوگ اس بوجھ کو، کلیسیا کو نُقصان پہنچائے بغیر نہ اُٹھا سکتے تھے اور نہ ہی جاری رکھ سکتے تھے۔ اس لئے یہ لازم تھا کہ مزید لوگوں کو اُن ذمہ داریاں نبھانے کے لئے شامل کیا جائے جن کو تھوڑے سے لوگ شروع سے بڑی جانفشانی اور وفا داری سے انجام دیتے آئے تھے۔ اس لئے رسُولوں کے لئے لازم ہو گیا کہ وہ اب ایسا قدم لیں تاکہ وہ ذُمہ داریاں اور بوجھ جو وہ خُود شُروع سے نبھاتے آئے تھے دوسروں کے کندھوں پر رکھیں تاکہ انجیل کے پھیلانے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ IKDS 79.1

    چنانچہ رسُولوں نے ایمانداروں کی میٹنگ بُلائی اور اُنہوں نے رُوح القدس کی زیر قیادت کلیسیا کے تمام کارگزاروں کے لئے بہتر منصوبہ مرتب کیا۔ رسُولوں نے فرمایا کہ اب وقت آ گیا ہے جب رُوحانی رہنماوں کو غریبوں کی خدمت کرنے اور اس طرح کی دُوسری ذمہ داریوں سے معاف رکھا جائے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ انجیل کی منادی کر سکیں۔ “پس اے بھائیو! اپنے میں سے سات نیک نام شخصوں کو چُن لو جو رُوح اور دانائی سے بھرے ہوئے ہوں کہ ہم اُن کو اس کام پر مقرر کریں۔ لیکن ہم تو دُعا میں اور کلام کی خدمت میں مشغول رہیں گے”۔ اعمال ۳:۶-۱۴ اس مشورے پر عمل کیا گیا۔ چنانچہ سات اشخاص کا انتخاب ہوا۔ اور اُنہیں رسُولوں کے آگے کھڑا کیا جنہوں نے دُعا کر کے اُن پر ہاتھ رکھے۔ چنانچہ سات بھائیوں کو ڈیکنیز کی خدمت کے لئے چُن لیا گیا ۔ IKDS 79.2

    سات بھائیوں کی تعیناتی جو ایک خاص کام کے لئے کی گئی کلیسیا کے لئے باعث برکت ثابت ہوئی۔ اُن بھائیوں نے انفرادی ضرُورتوں پر توجہ مرکوز کی اور اُس کے ساتھ ساتھ وہ کلیسیا کی اقتصادی دلچسپیوں سے بھی بے بہرہ نہ تھے ۔ چنانچہ وہ اپنے مخلصانہ بندوبست اور خدا ترس نمونہ کی بدولت کلیسیا کے دوسرے افسروں کے لئے باعثِ رحمت تھے۔ اور یہ قدم جو بھائیوں نے اُٹھایا عین خدا کی مرضی کے مطابق تھا۔ کیوں کہ اُس کے فوراً بعد اچھے نتائج دیکھنے میں آئے۔ “اور خدا کا کلام پھیلتا رہا اور یروشلیم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا اور کاہنوں کی بڑی گروہ اس دین کے تحت میں ہو گئی”۔ اعمال ۷:۶ رُوحوں کی یہ فصل رسولوں کو انجیل پھیلانے کی پوری آزادی (کوئی دوسری ذمہ داری نہ رہی) اور سات نیک نام شخصوں کی محنت شاقہ کا نتیجہ تھی۔ یہ تو دُرست ہے کہ ان سات بھائیوں کو ایک خاص کام یعنی غریبوں کی مدد کے لئے مقرر کیا گیا تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے ایمان کی گواہی نہیں دے سکتے تھے۔ چونکہ وہ اس قابل تھے کہ دوسروں کو سچائی کی ہدایت دے سکیں لہٰذا اُنہوں نے یہ کام بڑی تندہی، ایمانداری اور کامیابی سے انجام دیا۔ IKDS 80.1

    ابتدائی کلیسیا کو مسلسل کام کو ترقی دینے کی ذمہ داری دی گئی۔ اُنہیں روشنی کے مراکز قائم کرنا تھے جہاں کہیں وفادار رُوحیں اپنے آپ کو مسیح کی خدمت کے لئے رضا کارانہ وقف کرتیں ان کو برکت دینا تھی۔ چونکہ انجیل کی منادی دُنیا بھر میں کرنا تھا لہٰذا صلیب کے علمبردار اپنے اس مشن کو مسیح میں متحد ہوئے بغیر انجام نہیں دے سکتے تھے۔ یوں وہ دُنیا کو بھی بتا سکتے تھے کہ وہ مسیح کے ساتھ خُدا میں ایک ہیں۔ کیا اُن کے رُوحانی ہادی نے باپ سے یوں دعا نہ کی تھی کہ “اپنے نام کے وسیلہ سے جو تو نے مجھے بخشا ہے ان کی حفاظت کرنا کہ وہ ہماری طرح ایک ہوں” اور کیا اُس نے اپنے شاگردوں کے بارے یہ نہیں فرمایا تھا کہ “جس طرح میں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں” اور کیا اُن کے لئے یسوع نے اپنے باپ سے یُوں درخواست نہ کی تھی “کہ وہ کامل ہو کر ایک ہو جائیں اور دُنیا جانے کہ تُو ہی نے مجھے بھیجا”۔ یوحنا ۱۱:۱۷-۱۴، ۲۳ اُن کی رُوحانی زندگی اور قوت کا انحصار اس کے ساتھ مربوط ہونے میں ہی تھا جس نے اُنہیں انجیل کی خُوشخبری سُنانے کا حُکم دیا تھا۔ IKDS 80.2

    مسیح یسُوع کے ساتھ ایک ہونے کے بعد ہی وہ آسمانی فرشتوں کا تعاون اور رُوح القدس کی قوت حاصل کرنے کی اُمید کر سکتے تھے۔ ان روحانی وسائل کی بدولت ہی وہ متحد محاذ قائم کر کے تاریکی کی قوتوں پر فتح پا سکتے تھے جو اُن سے ہر وقت جنگ آزما ہیں۔ جب وہ متحد ہو کر خدمت جاری رکھتے ہیں تو آسمانی پیامبر اُن کے آگے آگےچلتے ہیں اُن کے لئے راستہ تیار کرتے ہیں۔ یوں سچائی کو قبول کرنے کے لئے بہت سے دل تیار پائے جاتے ہیں اور بہتیرے مسیح یسوع کے لئے جیتے جاتے ہیں۔ چنانچہ جب تک مسیح کے کارگزار متحد ہیں آگے ہی آگے بڑھتے رہیں گے۔ “یہ کون ہے جس کا ظہور صبح کی مانند ہے۔ جو حُسن میں ماہتاب اور نُور میں آفتاب اور علمدار لشکر کی مانند مُہیب ہے؟ غزل الغزلات ۱۰:۶ کلیسیا کے آگے بڑھنے میں کوئی چیز باعث رکاوٹ نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ اپنے الہٰی مشن کی تکمیل میں کلیسیا دُنیا کے سامنے انجیل کی منادی کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتی اور فتح پر فتح پاتی جائے گی۔ IKDS 81.1

    یروشلیم میں کلیسیا کی تنظیم دُوسری جگہوں پر منظم ہونے والی کلیسیاوں کے لئے بطور نمونہ تھی جہاں سچائی کے پیامبر مسیح کے لئے رُوحیں جیت سکیں۔ وہ جنہیں کلیسیاں نظام چلانے کی ذُمہ داری سونپی گئی تھی اُنہیں خُدا کی میراث پر اپنی حُکمرانی نہیں جتانا تھا۔ بلکہ دانا چروا ہے کی طرح خُدا کے گلے کو چرانا تھا۔ “خُدا کے اس گلہ کی گلہ بانی کرو جو تم میں ہے۔ اور جو لوگ تمہارے سپرد ہیں اپں پر حکومت نہ جتاو بلکہ گلہ کے لئے نمونہ بنو”۔ ۱- پطرس ۲:۵-۳ اور ڈیکنیز کو “نیک اور رُوح اور دانائی سے معمور ہونا تھا۔ ان لوگوں نے سچائی کا ہی ساتھ دینا تھا اور سچائی کو بڑی مستقل مزاجی اور غیر متبدل فیصلوں سے سنبھالا دینا تھا۔ تاکہ پورے گلے پر اُن کی متحد رکھنے والی روحانی اور اخلاقی تاثیر ہو سکے۔ IKDS 81.2

    ابتدائی کلیسا کی بعد کی تاریخ میں جب دُنیا کے مختلف حصوں میں ایمانداروں کے گرُوپ کلیسیاوں کی صورت میں نمودار ہوئے، کلیسیا کی تنظیم کو مزید بہتر اور کامل بنایا گیا تاکہ بڑے پیمانے پر نظم و ضبط اور ہم آہنگ ایکشن قائم رکھے جاسکیں۔ اور ہر ممبر کو نصیحت کی گئی کہ وہ اپنا فرج اچھی طرح نبھائے اور جو جو توڑے خدا کی طرف سے ملے ہیں اُن کو بڑی عقلمندی سے استعمال میں لائے۔ بعض کو رُوح کی طرف سے خاص توڑے اور نعمتیں ملی تھیں۔ “پہلے رسول دُوسرے نبی تیسرے اُستاد۔ پحر مُعجزہ دکھانے والے، پحر شفا دینے والے، مدد گار، منتظم یا طرح طرح کی زبانیں بولنے اُستاد۔ پحر معجزہ دکھانے والے، پھر شفا دینے والے، مددگار، مُنتظم یا طرح طرح کی زبانیں بولنے والے”۔ ۱-کرنتھیوں ۲۸:۱۲ اس کے باوجود ان سب کو آپس میں مل کر کام کرنا تھا۔ IKDS 82.1

    “نعمتیں تو طرح طرح کی ہیں مگر رُوح ایک ہی ہے۔ اور خدمتیں بھی طرح طرح کی ہیں مگر خُدا وند ایک ہی ہے۔ اور تاثیریں بھی طرح طرح کی ہیں مگر خُدا ایک ہی ہے جو سب میں ہر طرح کا اثر پیدا کرتا ہے۔ لیکن ہر شخص میں رُوح کا ظہور فائدہ پہنچانے کے لئے ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایک کو رُوح کے وسیلہ سے حکمت کا کلام عنایت ہوتا ہے اور دوسرے کو اُسی روح کی مرضی کے موافق علمیتّ کا کلام۔ کسی کو اسی رُوح سے ایمان اور کسی کو اسی رُوح سے شفا دینے کی توفیق۔ کسی کو مُعجزوں کی قُدرتیں۔ کسی کو نبوت، کسی کو زبانوں کا ترجمہ۔ لیکن یہ سب تاثیریں وہی ایک رُوح کرتا ہے اور جس کو جو چاہتا ہے بانٹتا ہے۔ کیوں کہ جس طرح بدن ایک ہے اور اُس کے اعضا بہت سےہیں اور بدن کے سب اعضا گوبہت سے ہیں مگر باہم ملکر ایک ہی بدن ہیں اسی طرح مسیح بھی ہے”۔ ۱- کرنتھیوں ۴:۱۲-۱۲IKDS 82.2

    اس دھرتی پر خُدا کی کلیسیا کی قیادت کرنے کے لئے جنہیں بُلاہٹ دی جاتی ہے اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کی یہ ذمہ داریاں بڑی ہی سنجیدہ اور شاندار ہیں۔ دینی حُکومت (THEOCRACY)کے زمانہ میں جب موسیٰ اکیلا بیابان کی کلیسیا کا بوجھ اُٹھائے ہوئے تھا تو اُس کے خُسر یترو نے اُسے مشورہ دیا کہ اپنی ذمہ داریاں دُوسرے لوگوں میں بھی تقسیم کرو اور یہ بڑا ہی عقلمندانہ مشورہ تھا۔ “میں تجھے صلاح دیتا ہوں اور خدا تیرے ساتھ رہے۔ تُو ان لوگوں کے لئے خدا کے سامنے جایا کر اور اُن کے سب معاملے خُدا کے پاس پہنچا دیا کر۔ اور تُو رسوُم اور شریعت کی باتیں ان کو سکھایا کر اور جس راستہ ان کو چلنا اور جو کام اُن کو کرنا ہو وہ اُن کو بتایا کر”۔ یترونے اُسے مزید مشورہ دیا کہ کچھ لوگوں کو “ہزار ہزار اور سو سو اور پچاس پچاس اور دس دس آدمیوں پر حاکم بنادے۔ ” اُس نے موسیٰ کو کہا کہ ان لوگوں کو چننا جو خُدا ترس اور سچے اور رشوت کے دُشمن ہوں، کیونکہ ان لوگوں کو ہر وقت لوگوں کا انصاف کرنا ہے۔۔۔۔۔ یوں تیرا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ اور وہ بھی اس کے اُٹھانے میں تیرے شریک ہوں گے”۔ خروج ۱۹:۱۸-۲۱ IKDS 83.1

    وہ بہن بھائی جنکو خُدا کی کلیسیا کی قیادت بخشی گئی ہے اُن کا وقت اور قوت اُن چھوٹے چھوٹے کاموں میں صرف نہ ہونا چاہیے جن کو دوسرے بہن بھائی بھی آسانی سے کرنے کے اہل ہیں۔ “ایسا ہو کہ بڑے بڑے مقدمے تو وہ تیرے پاس لائیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا فیصلہ خود ہی کر دیا کریں یوں تیرا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ اور وہ بھی اس کے اُٹھانےمیں تیرے شریک ہوں گے ۔اگر تُو یہ کام کرے اور خُدا بھی تجھے ایسا ہی حُکم دے تو تُو سب کچھ جھیل سکے گا اور یہ لوگ بھی اپنی جگہ اطمینان سے جائیں گے”۔ خروج ۲۲:۱۸-۲۳ اس تجویز اور مشورہ کے تحت موسیٰ نے “سب اسرائیلیوں میں سے لائق اشخاص چُنے اور انکو ہزار ہزار اور سو سو اور پچاس پچاس اور دس دس آدمیوں کے اُوپر حاکم مقرر کیا۔ سو یہی ہر وقت لوگوں کا انصاف کرنے لگے۔ مشکل مقدمات تو وہ موسی کے پاس لے آتے تھے پر چھوٹی چھوٹی باتوں کا فیصلہ خود ہی کر دیتے تھے”۔ خروج ۲۵:۱۸-۲۷ IKDS 83.2

    بعد میں جب موسیٰ نے ستر ایلڈروں کو چُناتا کہ اس کے ساتھ لیڈر شپ کی ذمہ داریاں اُٹھائیں تو موسیٰ اُن کے انتخاب کرنے میں بڑا محتاط تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کے معاونین ایماندار، مُنصف اور تجربہ کار ہوں۔ اُن کی مخصوصیت کے وقت جو خوبیاں اُس نے اپنے خطبہ میں بیان کیں وہ ایک شخص کو کلیسیا کا اچھا لیڈر بننے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ “اور اُسی موقع پر میں نے تمہارے قاضیوں کو تاکیداً یہ کہا کہ تُم اپنے بھائیوں کے مقدموں کو سُننا پر خواہ بھائی بھائی کا معاملہ ہو یا پردیسی کا تم اُن کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کرنا۔ تمہارے فیصلہ میں کسی کی رُو رعایت نہ ہو۔ جیسے بڑے آدمی کی بات سُنو گے ویسے ہی چھوٹے کی سُننا اور کسی آدمی کا منہ دیکھ کر ڈر نہ جانا کیوں کہ یہ عدالت خدا کی ہے”۔ استثنا ۱۶:۱-۱۷IKDS 84.1

    داود بادشاہ نے حکومت چھوڑنے کے وقت اُن کے لئے بڑا ہی سنجیدہ خطاب کیا جو اُس کے زمانہ میں خُدا کے کام کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے۔ چنانچہ اُس نے اُن کو یروشلیم میں بُلوا کر فرمایا۔۔۔ “اور داود نے اسرائیل کے سب اُمرا کو جو قبیلوں کے سردار تھے اور اُن فریقوں کے سرداروں کو جو باری باری بادشاہ کی خدمت کرتے تھے اور ہزاروں کے سرداروں اور سیکڑوں کے سرداروں اور بادشاہ کے اور اُس کے بیٹوں کے سب مال اور مویشی کے سرداروں اور خواجہ سراوں اور بہادرُوں بلکہ سب زبردست سُورماوں کو یروشلیم میں اکٹھا کیا” اور اُن سے یوں خطاب کیا۔ IKDS 84.2

    “پس اب سارے اسرائیل یعنی خُداوند کی جماعت کے رُو برو اور ہمارے خدا کےحضور تم خدا وند اپنے خُداکے سب حکموں کو مانو اور اُن کے طالب رہو تاکہ تم اس اچھے ملک کے وارث ہو اور اُسے اپنے بعد اپنی اولاد کے واسطے ہمیشہ کے لئے میراث چھوڑ جاو” ۔ تواریخ ۱:۲۸-۸ IKDS 85.1

    سُلیمان بادشاہ کو جسے حادی بننے کی ذمہ داری سونپی گئے۔ اُسے داود بادشاہ نے یہ خاص نصیحت کی۔ “اور تُو اے میرے بیٹے سلیمان اپنے باپ کے خُدا کو پہچان اور پُورے دل اور رُوح کی مستعدی سے اُسکی عبادت کر کیو نکہ خُد اوند سب دلوں کو جانچتا ہے اور جو کچھ خیال میں آتا ہے اُسے پہچانتا ہے۔ اگر تُو اُسے ڈُھونڈ ے تو وہ تجھ کو مل جائے گا اور اگر تو اُسے چھوڑے تو وہ ہمیشہ کے لئے تجھے رد کردے گا۔ وہ ہوشیار ہو کیوں کہ خُدا وند نے تجھ کو مقدس کے لئے ایک گھر بنانے کو چُنا ہے۔ سو ہمت باندھ کر کام کر”۔ ۱-تواریخ ۹:۲۸-۱۰ IKDS 85.2

    بزرگ موسیٰ اور داود بادشاہ کے وقتون میں راستبازی، جانثاری اور انصاف پر مبنی جو اُصول خدا کے لوگوں کی رہنمائی کرنے کے سلسلہ میں تھے وہی اصول ان رہنماوں کے لئے تھے جو خُدا کی نئی کلیسیا کی رہبری فضل کے دور میں کرتے تھے۔ تمام کلیسیاں میں کام میں چیزوں کو ترتیب دینا اور مناست لوگوں کو مخصوص کرنا تاکہ وہ کلیسیا میں قیادت کی ذمہ داری سنبھالیں۔ اس سلسلہ میں رسول عہدِ عتیق میں دئیے گئے، لیڈر شپ کے معیار کو اپنے سامنے رکھتے۔ کلیسیا میں جو رہبری کرنے کی ذمہ داری کے لئے بُلائے جاتے ان کے لئے لازم تھا کہ وہ بے الزام اور ایک ایک بیوی کے شوہر ہوں۔ اور اُن کے بچے ایماندار اور بد چلنی اور سرکشی کے الزام سے پاک ہوں ۔ کیونکہ نگہبان کو خُدا کا مختار ہونے کی وجہ سے بے الزام ہون چاہیے۔ نہ خُودداری ہو، نہ غصہ ور، نہ نشے میں غل مچانے والا، نہ مار پیٹ کرنے والا اور نہ ناجائز نفع کا لالچی، بلکی مسافر پرور، خیر دوست، مُتّقی، منصف مزاج، پاک اور ضبط کرنے والا ہو۔ اور ایمان کے کلام پر جو اس تعلیم کے موافق ہے قائم ہوتا کہ صحیح تعلیم کے ساتھ نصیحت بھی کر سکے اور مکالفوں کو قائل بھی کر سکے”۔ ططس ۶:۱-۹ IKDS 85.3

    ابتدائی مسیحی کلیسیا نے جس معیار کو قائم رکھا اُسکی وجہ سے ہی اُن کے لئے یہ ممکن ہوا کہ وہ منظم آرمی کی طرح خدا کے ہتھیار باندھ کر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں۔ ایمانداروں کی منڈلیاں بیشک دُور دراز علاقے پر پھیلی ہوئی تھیں، تاہم وہ ایک ہی بدن کے اعضا تھے اور سب کے ساتھ متفق اور ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھتے تھے۔ جب کسی مقامی کلیسیا میں کسی مسلہ پر بھائی ایک دوسرے کے ساتھ متفق نہ ہوتے جیسے کہ بعد میں انطاکیہ کی کلیسیا میں ایسا ہُوا اور ایماندارون کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق کرنے میں مشکل پیش آئی تو ایسے مسائل کلیسیا کو منقسم نہ کر سکے۔ کیونکہ ایسے مسائل کو تُمام ایمانداروں کی جرنل کونسل میں پیش کئے جاتے جس میں دُوسری کئی مقامی کلیسیاوں سے نمائندہ موجود ہوتے تھے جن میں رسول اور ایلڈرز خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو مختلف کلیسیاوں کی قیادت کرتے تھے۔ یوں کلیسیا کو پھاڑنے کی ابلیسی کوشش ناکام بنا دی جاتی۔ IKDS 86.1

    “کیونکہ خُدا ابتری کا خُدا نہیں بلکہ امن کا بانی ہے۔ جیسا سب مقدسوں کی سب کلیسیاوں میں ہے”۔ ۱- کرنتھیوں ۳۳:۱۴ خداوند آج بھی کلیسیائی امور میں اسی معیار کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہمارا معیار قدیم کلیسیا کے معیار سے کسی طرح بھی کم نہیں ہونا چاہیے۔ اُس کی دلی خواہش ہے کہ اُس کا کام کامل اور پُوری محبت کے ساتھ آگے بڑھے تاکہ وہ اُس پر اپنی منظوری کی مہر ثبت کر سکے۔ مسیحیوں کو مسیحیوں کے ساتھ، کلیسیا کو کلیسیا کے ساتھ تمام انسانی کل پرزوں کو ذاتِ الہٰی کے ساتھ تعاون کرنا ہے اور ہر متحرک ذریعہ (ایجنسی) کو رُوح القدس کے تابع ہو کر اور اکٹھے مل کر دُنیا کو خُدا کے فضل کی خوشخبری دینا ہے۔ IKDS 86.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents