Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۸ - سنہیڈرن کے رُو برُو

    اعمال ۱۲:۵-۴۲

    یہ صلیب ہی تھی جو شرم اور عقوبت (جسمانی اذیت ، تشدد) آلہ ہونے کے باوجود دُنیا کے لئے اُمید اور نجات لے کر آئی۔ شاگرد تو حلیم، فروتن اور مفلوک الحال لوگ تھے۔ اُن کے پاس نہ دولت تھی نہ اسلحہ۔ اگر اُن کے پاس کچھ تھا تو وہ خدا کا کلام تھا۔ وہ مسیح یسوع کی قوت میں دنیا کو چرنی اور صلیب کی شاندار کہانی سُنانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اسی قوت کے ذریعہ اُنہوں نے ہر مخالفت کو مغلوب کر لیا۔ دُنیوی عزت و وقار اور اثر و رسوخ نہ ہونے کے باوجود وہ ایمان کے ہیروز تھے، اُن کے منہ سے الہٰی کلام ایسی وضاحت اور فصاحت کے ساتھ نکلا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ IKDS 68.1

    یروشلیم میں، جہاں تعصب کی جڑیں بڑی گہری تھیں، اور جہاں مسیح کے بارے مختلف قیاس آرائیاں تھین۔ اور جہاں اُسے مجرم کی طرح مصلوب کیا گیا تھا، وہیں شاگرد بڑی دلیری کے ساتھ زندگی کے کلام کی منادی کرتے رہے اور یہودیوں کے سامنے مسیح یسوع کے کام ، مشن، اُسکی مصلُوبیت، جی اُٹھنے اور آسمان پر صعود فرمانے کے بارے بلا جھجھک گواہی دیتے رہے۔ کاہنوں اور سرداروں نے پریشان ہو کر شاگردوں کی واضح گواہی سُنی جو وہ بڑی دلیری سے دیتے تھے۔ بے شک مسیح کے جی اُٹھنے کی قوت شاگردوں پر نازل ہوئی اور جو مُعجزات اور نشانات اُن کے کاموں میں ظاہر ہوتے تھے اُن کو دیکھ کر روزانہ ایمانداروں کی جماعت میں اضافہ ہوتا گیا۔ جن راہوں سے شاگرد گزرتے لوگ اُن راہوں کے کناروں پر اپنے بیمار رکھ دیتے “یہاں تک کہ لوگ بیماروں کو سڑکوں پر لا لا کر چارپائیوں اور کھٹولوں پر لٹا دیتے تھے تاکہ جب پطرس آئے تو اس کا سایہ ہی اُن میں سے کسی پر پڑ جائے”۔ اعمال ۱۵:۵ اُن کے پاس ایسے مریضوں کو بھی لایا گیا جن میں بد رُوحیں تھیں۔ بھیڑ اُن کے گرد جمع ہوجاتی اور ان میں جتنے شفا پا جاتے وہ چلا چلا کر خدا کی حمد کرتے اور نجات دہندہ کے نام کو جلال دیتے۔ IKDS 68.2

    کاہنوں اور سرداروں نے دیکھا کہ اُن کے مقابلہ میں لوگ مسیح کی تعریف کے پُل باندھ رہے ہیں۔ اور صدُوقی جو قیامت میں ایمان نہیں رکھتے اُنہوں نے شاگردوں کی زبانی سُنا کہ مسیح مردوں میں سے زندہ ہو گیا ہے جسکی وجہ سے وہ آگ بگولا ہو گئے۔ اُنہیں یہ احساس ہوا کہ اگر شاگردوں کو زندہ ہونے والے مسیح کے بارے منادی کرنے اور اُسکے نام پر معجزات کرنے سے نہ روکا گیا تو تمام لوگ اُن کا عقیدہ (کوئی قیامت نہیں) رد کر دیں گے اور صدوقی فرقہ ختم ہو جائے گا۔ اور فریسی اس لئے ناراض تھے کیونکہ اُن کے خیال میں شاگرد یہودیوں کی رسوم کے خلاف مُنادی کرتے اور یہ کہتے تھے کہ قربانیاں اب سے بے اثر ہیں۔ IKDS 69.1

    اس نئی تعلیم کو دبانے کے لئے جو جو کوششیں ہوئیں وہ رائیگاں گئیں۔ لیکن اب صدوقیوں اور فریسیوں دونوں نے شاگردوں کے کام کو ختم کرنے کا تہیہ کر لیا۔ (گو یہ دونوں فرقے ایک دُوسرے کے حریف تھے) کیونکہ شاگردوں کی منادی ثابت کرتی تھی کہ تم ہی مسیح کو مصلُوب کرنے کے ذمہ دار ہو۔ غضب سے بھر پور ہو کر کاہنوں نے پطرس اور یوحنا کو پکڑ کر عام حوالات میں رکھ دیا۔ IKDS 69.2

    یہودی لیڈر خدا کے مقصد کو جو وہ اپنے لوگوں کے لئے رکھتا تھا ملیا میٹ کرنے میں بُری طرح ناکام رہے۔ یہودی رہنما جن کو خُدا نے صداقت کے امین مقرر کیا تھا وفادار نہ نکلے۔ بدیں وجہ خُدا وند نے اُن کو چھوڑ کر دوسروں کو چُن لیا تاکہ اُسکی خدمت کریں۔ اپنی کم عقلی کے باعث ان لیڈروں نے اُن شاگردوں کے خلاف محاذ کھول لیا جو اُن کے مرغوب عقیدوں کو ردّ کرتے تھے۔ وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں تھے کہ اُنہیں کلام مقدس کی سمجھ نہیں یا اُنہوں نے صحیفوں کی تفسیر کو صحیح طرح سے نہیں سمجھا۔ وہ اُن لوگوں کی طرح حرکتیں کرنے لگے جن سے معقولیت جاتی رہی ہو۔ وہ کہنے لگے کہ ان معلمین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اُس تعلیم کے خلاف کوئی دوسری تعلیم دیں جو ہم نے لوگوں کو سکھا رکھی ہے۔ ان شاگردوں میں تو زیادہ تر ماہی گیر ہیں۔ شاگردوں کی منادی کو ختم کرنے کے لئے اُنہوں نے اُنہیں جیل میں ٹھونس دیا۔ IKDS 69.3

    اس سلوک سے نہ تو شاگرد گھبرائے اور نہ ہی پست ہمت ہوئے۔ روح القدس نے اُنہیں خداوند یسوع مسیح کا یہ کلام یاد دلایا۔ “نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔ اگر اُنہوں نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائیں گے۔ اگر اُنہوں نے میری بات پر عمل کیا تو تُمہاری بات پر بھی عمل کریں گے۔ لیکن یہ سب کچھ وہ میرے نام کے سبب تمہارے ساتھ کریں گے کیوں کہ وہ میرے بھیجنے والے کو نہیں جانتے”۔ یوحنا ۲۰:۱۵-۲۱ “لوگ تمکو عبادت خانوں سے خارج کر دیں گے۔ بلکہ وہ وقت آتا ہے کہ جو کوئی تم کو قتل کرے گا وہ گُمان کرے گا کہ میں خدا کی خدمت کرتا ہوں۔ لیکن میں نے یہ باتیں اس لئے تم سے کہیں کہ جب ان کا وقت آئے تو تم کو یاد آجائے کہ میں نے تم سے کہہ دیا تھا” یوحنا ۲:۱۶، ۴ IKDS 70.1

    آسمان کے خُداوند، کل کائنات کے شہنشاہ نے رسولوں کی قید کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ رات کے وقت خُدا کے فرشتہ نے قید خانہ کا دروازہ کھول دیا اور شاگردوں کو حُکم دیا “جاو ہیکل میں کھڑے ہو کر اس زندگی کی سب باتیں لوگوں کو سناو” ۲۰:۵۔۔۔۔ یہ حکم یہودی لیڈروں کے حُکم کے بالکل متضاد تھا۔ کیا شاگردوں نے فرشتہ کو یہ کہا کہ ہم اُس وقت تک ایسا نہیں کر سکتے جب تک ہم مسیح سے اجازت نہ لے لیں؟ نہیں۔ خُدا نے کہا تھا کہ “جاو” اور اُنہوں نے اُس کے حُکم کی تعمیل کی۔ “وہ یہ سُن کر صبح ہوتے ہی ہیکل میں گئے اور تعلیم دینے لگے”IKDS 70.2

    جب پطرس اور یوحنا ایماندارون میں پہنچے اور اُن کو بتا یا کہ کس طرح فرشتہ نے اُنہیں سپاہیوں اور پہرے داروں کی موجودگی میں قید خانہ کا دروازہ کھول کر آزاد کیا اور حُکم دی کہ اُس کام کو جاری رکھو جس کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ یہ سُن کر ایمانداروں کی جماعت خوشی اور تعجب سے بھر گئی۔ IKDS 71.1

    اُسی دوران سردار کاہن اور جو اُسکے ساتھ تھے نے آکر “صدرِ عدالت والوں اور بنی اسرائیل کے سب بزرگوں کو جمع کیا” کاہنوں اور سرداروں نے یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ شاگردوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرائیں۔ نیز اُنہیں حننیاہ اور سفیرہ کی موت کا ذمہ دار ٹھہرائیں اور اُن پر کوہنوں کو اختیار سے محرُوم کرنے کی سازس کا الزام بھی لگائیں۔ ان تمام جھوٹے الزامات کی وجہ سے وہ سوچتے تھے کہ بھیڑ کو اشتعال دلا سکیں گے اور معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر شاگردوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو یسوع کے ساتھ کیا تھا۔ اُنہیں اچھی طرح علم تھا کہ جنہوں نے مسیح یسوع کی تعلیم کو قبول نہیں کیا تھا وہ محض یہودی اختیار کے ہاتھوں مجبور تھے۔ مگر تبدیلی چاہتے تھے۔ چنانچہ کاہن ڈرتے تھے کہ اگر ان غیر تسلی پذیر لوگوں نے شاگردوں کی تعلیم قبول کر لی۔ اور اگر اُنہوں نے یسوع کو آنے والا نجات دہندہ بھی تسلیم کر لیا تو عوام کا غیض و غضب یہودی مذہبی قیادت کے خلاف بھڑک اُٹھے گا۔ اور اُنہیں یسوع کے قتل کا جواب دینا پڑے گا۔ لہٰذا اُنہوں نے اس تحریک کو کچلنے کے لئے بڑے پیمانہ پر کاروائی کرنے کا تہیہ کر لیا۔ IKDS 71.2

    جب سردار کاہنوں نے قید خانہ میں کہلوا بھیجا کہ قیدیوں کو لائیں تو یہ سُن کر اُن کی حیرانی اور پریشانی کی کوئی حد نہ رہی “ہم نے قید خانہ کو تو بڑی حفاظت سے بند کیا ہوا اور پہرے والوں کو دروازوں پر کھڑے پایا۔ مگر جب کھولا تو اندر کوئی نہ تھا”۔ جلد ہی اُنہیں یہ حیران کن خبر ملی کہ “جنہیں تم نے قید کیا تھا ہیکل میں کھڑے لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں”۔ ۲۵:۵ تب سردار پیادوں کے ساتھ جا کر اُنہیں لے آیا لیکن زبردستی نہیں کیونکہ لوگوں سے ڈرتے تھے کہ ہم کو سنگسار نہ کریں”۔ ۲۶:۵ IKDS 71.3

    بیشک شاگردوں کو قید خانہ سے مُعجزانہ رہائی تو ملی مگر وہ تفتیش اور سزا سے محفوظ نہ تھے۔ اس کے بارے مسیح نے خود اُنہیں پہلے سے جتا دیا تھا “لیکن تم خبردار رہو کیونکہ لوگ تم کو عدالتوں کے حوالہ کریں گے۔ اور بادشاہوں کے سامنے میری خاطر حاضر کئے جاو گے تاکہ ان کے لئے گواہی ہو”۔ مرقس ۹:۱۳ فرشتہ کو بھیج کر خدا وند خدا نے شاگردوں کو اپنی محبت اور موجودگی کا ثبوت فراہم کیا۔ اور اب یہ اُن کا حصہ تھا کہ اُسکی خاطر دُکھ برداشت کریں جسکی وہ انجیل سنا رہے تھے۔ IKDS 72.1

    نبیوں اور رسُولوں کی تاریخ میں وفاداری کی بے شمارہ مثالیں ملتی ہیں۔ مسیح کے گواہوں نے خُدا کی حُکم عدولی کرنے کی بجائے قید وبند جسمانی اذیتیں اور موت تک برداشت کی۔ پطرس اور یوحنا نے اپنے پیچھے جو ریکارڈ چھوڑا ہے وہ اتنا بہادرانہ ہے کہ اُس کا موازنہ انجیل کے زمانہ کے کسی بھی ہیرہ سے کیا جاسکتا ہے۔ وہ دوسری بار اُن آدمیوں کے سامنے کھڑے تھے جو اُنکی بربادی کے خواہاں تھے۔ بیشک موت اُن کے سامنے کھڑی تھی مگر اُن کے رویہ یا اُن کے کلام سے نہ خوف نمایاں ہوا اور نہ ہی وہ گواہی دینے سے ذرا بھر جھجکے۔ اور جب سردار کاہن نے کہا “کہ ہم نے تو تمہیں سخت تاکید کی تھی کہ یہ نام لے کر تعلیم نہ دینا۔ مگر دیکھو تم نے تمام یروشلیم میں اپنی تعلیم پھیلا دی اور اُس شخص کا خُون ہماری گردن پر رکھنا چاہتے ہو۔ پطرس اور رسولوں نے جواب میں کہا کہ آدمیوں کے حُکم کی نسبت خدا کا حُکم ماننا زیادہ فرض ہے”۔ ۲۸:۵-۲۹ یہ آسمانی فرشتہ تھا جس نے اُنہیں قید خانہ سے رہائی دلائی تھی اور یہ حُکم دیا تھا کہ ہیکل میں جا کر منادی کرو۔ اسکی ہدایات کی پیروی کرنے میں وہ الہٰی حُکم کو بجا لا رہے تھے اور یہ اُنہیں کرتے رہنا چاہیے تھا خواہ انہیں اس کے لئے کتنی ہی قیمت چُکانا کیوں نہ پڑتی۔ IKDS 72.2

    پھر روح شاگردوں پر نازل ہوئی۔ اور ملزم الزام لگانے والا بن گیا اور اس کونسل پر مسیح کو مصلوب کرنے کا فتویٰ دیا۔ “ہمارے باپ دادا کے خُدا نے یسوع کو جلایا جسے تم نے صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا تھا۔ اُسی کو خُدا نے مالک اور منجی ٹھہرا کر اپنے دہنے ہاتھ سے سر بلند کیا تاکہ اسرائیل کو توبہ کی توفیق اور گناہوں کی معافی بخشے۔ اور ہم ان باتوں کے گواہ ہیں اور رُوح القدس بھی جسے خُدا نے اُنہیں بخشا ہے جو اُس کا حُکم مانتے ہیں”۔ اعمال ۳۰:۵-۳۲ IKDS 73.1

    اس کلام سے یہودی غضب ناک ہو گئے اور فیصلہ کیا کہ مزید تفتیش کئے بغیر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر رومی افسروں سے اجازت لئے بغیر ان قیدیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ وہ پہلے بھی یہ مسیح کا خون بہانےکے مُجرم تھے۔ اب وہ شاگردوں کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگنا چاہتے تھے۔ IKDS 73.2

    لیکن اپس کونسل میں ایک شخص تھا جس نے شاگردون کے کلام میں خُداوند کی آواز کو پہچان لیا۔ یہ گملی ایل تھا جو شرع کا مُعلم اور سب لوگوں میں عزت دار تھا۔ اُسنے بھانپ لیا تھا کہ کاہنوں کا یہ ظُلم ہو لناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اُس نے حاضرین سے مخاطب ہونےسے پہلے کہا کہ “ان آدمیوں کو تھڑی دیر کے لئے باہر کر دو” کیونکہ اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اُسے کن سے اور کیا کیا بات کرنی ہے۔ اوروہ یہ بھی جانتا تھا کہ مسیح یسوع کے قاتل اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ IKDS 73.3

    پھر اُس نے بڑے تحمل اور سوچ و بچار اور غورو فکر کے بعد فرمایا۔ “اے اسرائیلیو! ان آدمیوں کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتے ہو ہوشیاری سے کرنا۔ کیونکہ ان دنوں سے پہلے تھیوداس نے اُٹھ کر دعویٰ کیا تھا کہ میں بھی کچھ ہوں اور تخمینا چار سو آدمی اس کے ساتھ ہو گئے مگر وہ مارا گیا۔ اور جتنے اُس کے ماننے والے تھے سب پراگندہ ہوئے اور مٹ گئے۔ اس شخص کے بعد یہودہ گلیلی اس نویسی کے دنوں میں اُٹھا اور اُس نے کچھ لوگ اپنی طرف کر لئے۔ وہ بھی ہلاک ہوا اور جتنے اُسکے ماننے والے تھے سب پراگندہ ہو گئے۔ پس اب میں تُم سے کہتا ہوں کہ ان آدمیوں سے کنارہ کرو اور ان سے کچھ کام نہ رکھو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خُدا سے بھی لڑنے والے ٹھہرو کیونکہ یہ تدبیر یا کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہو جائے گا۔ لیکن اگر خُدا کی طرف سے ہے تو تُم ان لوگوں کو مغلوب نہ کر سکو گے۔ IKDS 73.4

    کاہنوں نے گملی ایل کے نظریات میں دانائی دیکھی اور اُسکی بات مان لی۔ تاہم وہ اپنی نفرت اور تعصب پر قابو نہ پا سکے۔ لہٰذا اُنہیں پٹوا کر اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یسوع کا نام لے کر بات نہ کرنا۔ “پس وہ عدالت سے اس بات پر خوشی ہو کر چلے گئے کہ ہم اس نام کی خاطر بےعزت ہونے کے لائق ٹھہرے۔ اور وہ ہیکل میں اور گھروں میں ہر روز تعلیم دینے اور اُس بات کی خوشخبری سنانے سے کہ یسوع ہی مسیح ہے باز نہ آئے”۔ اعمال ۴۱:۵-۴۲ IKDS 74.1

    مصلُوب ہونے سے پہلے مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں کے لئے یہ وصیت چھوڑی۔ IKDS 74.2

    “میں تمہیں اطمینان دیئے جاتا ہوں۔ اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں ۔ جس طرح دُنیا دیتی ہے میں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔ تمہارا دل نہ گھبرائے اور ڈرے”۔ یوحنا ۲۷:۱۴ یہ اطمینان وہ اطمینان نہیں جو دُنیا کے میل جول یا مطابقت رکھنے سے ملتا ہے۔ مسیح یسوع نے بدی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے کبھی بھی اطمینان کا سودا نہ کیا۔ وہ اطمینان جو مسیح یسوع نے شاگردوں کے ساتھ چھوڑا وہ ظاہری نہیں بلکہ باطنی امن تھا جسے کشمکش اور تکلیف کے ایام میں بھی شاگردوں کے ساتھ رہنا تھا۔ IKDS 74.3

    خدا وند یسوع مسیح نے خود فرمایا۔ “یہ نہ سمجھو کہہ میں زمین پر صُلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں” متی ۳۴:۱۰ وہ امن شہزادہ تھا مگر پھر بھی وہ تفرقہ ڈالنے آیا۔ وہ جو انجیل کی منادی کرنے آیا اور آل آدم کے دل میں اُمید اور خُوشی بھرنے آیا، اُس نے کشمکش کو جاری کیا جس کی وجہ سے انسانی دل میں مخالفت کے جذبات بھڑک اُٹھے۔ اسی لئے وہ اپنے شاگردوں کو آگاہ کرتے ہوئے یوں فرماتا ہے۔ “میں نے تم سے یہ باتیں اس لئے کہیں کہ تم مجھ میں اطمینان پاو۔ دُنیا میں مصیبت اُٹھاتے ہو لیکن خاطر جمع رکھو میں دُنیا پر غالب آیا ہوں”۔ یوحنا ۳۳:۱۶ ” لیکن ان سب باتوں سے پہلے وہ میرے نام سے سبب سے تمہیں پکڑیں گے اور ستائیں گے اور عبادت خانوں کی عدالت کے حوالہ کریں گے اور قید خانہ میں ڈلوائیں گے اور بادشاہوں اور حاکموں کے سامنے حاضر کریں گے”۔ لوقا ۱۲:۲۱ “اور تمہیں ماں باپ اور بھائی اور رشتہ دار اور دوست بھی پکڑوائیں گے بلکہ وہ تم میں سے بعض کو مروا ڈالیں گے۔ لوقا ۱۶:۲۱IKDS 75.1

    یہ پیشنگوئی نمایاں طور پر پُوری ہو چکی ہے۔ ہر طرح کی لعنت ملامت، بد زبانی اور ظُلم جو ابلیس ایجاد کر سکتا تھا مسیح کے پیروکاروں پر آ چکا ہے۔ اور یہ سب کچھ ایک بار پھر پُورا ہو گا۔ کیونکہ جسمانی دل کی، شریعت کے ساتھ ابھی تک دشمنی ہے۔ جسمانی دل کبھی بھی خدا کے تابع نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہو گا۔ دنیا مسیح کے اصُولوں کے ساتھ، رسُولی کلیسیا کے زمانہ کی نسبت کچھ زیادہ ہم آہنگ نہیں۔ وہ نفرت جو چیخ چیخ کر کہتی تھی کہ اُسے صلیب دو، صلیب دو، وہی نفرت جس کے زیرِ اثر شاگردوں کو اذیتیں دی گئیں، وہ نفرت آج بھی نافرمان بچوں میں بستی ہے۔ وہی روح جو تاریک زمانہ میں مردوزن کو قید اور جلا وطن کرتی اور موت کے گھاٹ اُتارتی، جو سزا دینے کے لئے نئے طریقہ ایجاد کرتی۔ جس نے سینٹ میتھیو کے قتل کی تجویز بنائی اور جس نے سمتھ فیلڈ کی آگ کو بھڑکایا وہ آج بھی بھی بڑی خباثت کے ساتھ اُن دلوں میں کام کر رہی ہے جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے۔ ابتدا سے ہی نیکی اور بدی کی کشمکش صداقت کی تاریخ کا ریکارڈ رہی ہے۔ اور انجیل کی تشہیر اس دُنیا مین ہمیشہ مخالفت، خطرات، جانی تقصان اور مصیبتوں کے دوران آگے ہی آگے بڑھتی رہی ہے۔ IKDS 75.2

    ماضی میں جنہوں نے مسیح کی خاطر دُکھ سہے اُن کی قوت کا راز کیا تھا؟ خدا کے ساتھ اتحاد، مسیح یسوع کے ساتھ اتحاد، رُوح القدس کے ساتھ اتحاد ۔ ایذا رسانی اور لعنت ملامت کے باعث بعض لوگ اپنے زمینی دوستوں سے علیحدہ ہو گئے مگر وہ مسیح کی محبت سے کبھی بھی جُدا نہ ہوئے۔ مسیح یسوع اُس روح کو زیادہ محبت دکھاتا ہے جو سچائی کی خاطر دُکھ اٹھاتی ہے۔ “میں اُس سے محبت رکھوں گا اور اپنے آپ کو اُس پر ظاہر کروں گا”۔ یوحنا ۲۱:۱۶ جب سچائی کی کاطر ایک ایماندار کو عدالت کا سامنا ہوتا ہے تو خُدا وند یسوع مسیح اُس کے پہلو میں آ کھڑا ہوتا ہے۔ جب اُسے قید خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے وہاں یسوع اپنے آپ کو اُس پر ظاہر کرتا اور اپنی محبت سے اُسے شادمان کرتا ہے۔ اور جب اُسے مسیح کی خاطر اپنی جان دینی پڑتی ہے تو نجات دہندہ اُسے فرماتا ہے “وہ بدن کو تو ہلاک کرسکتے ہیں مگر روح کو نہیں”۔ “خاطر جمع رکھو میں دُنیا پر غالب آیا ہوں”۔ یوحنا ۳۳:۱۶ “تُو مت ڈر کیونکہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ ہراساں نہ ہو کیونکہ میں تیرا خُدا ہوں۔ میں تجھے زور بخشوں گا۔ میں یقیناً تیری مدد کروں گا اور میں اپنی صداقت کے دہنے ہاتھ سے تجھے سنبھالوں گا”۔ یسعیاہ ۱۰:۴۱ح۔ IKDS 76.1

    جو خُدا وند پر توکل کرتے ہیں وہ کوہ صیّون کی مانند ہیں جو اٹل بلکہ ہمیشہ قائم ہے۔ جیسے یروشیلم پہاڑوں سے گھرا ہے ویسے ہی اب سے ابد تک خدا وند اپنے لوگوں کو گھیرے رہے گا”۔ زبور ۱:۱۲۵-۲۔ وہ فدیہ دے کر اُن کی جان کو ظُلم اور جبر سے چُھڑائے گا اور اُن کا خون اپس کی نظر میں بیش قیمت ہو گا”۔ زبور ۱۴:۷۲ “اور رب الافواج اُن کی حمایت کرے گا۔ اور خداوند اُن کا خُدا اپس روز اُن کو اپنی بھیڑوں کی طرح بچالے گا کیوں کہ وہ تاج کے جواہر کی مانند ہوں گے جو اُس کے ملک میں سرفراز ہوں گے”۔ زکریاہ ۱۵:۹-۱۶ IKDS 76.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents