Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
چرچ کے لئے مشورے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    رویا جو بیان نہ کی جا سکتی تھی

    نومبر ۱۸۹۰ ء میں ساؔلامینکا کے قصبہ میں جو نیویا رک کی ریاست میں ہے ۔ مذہبی اجلاس ہو رہے تھے جن میں مسز ہوائٹؔ صاحبہ بڑے مجمعوں کے سامنے درس پیش کیا کرتی تھیں ۔ اس شہر کی جانب سفر کرتے ہوئے راستہ میں انھیں شدید زکام کی شکایت ہو گئی جس کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہو گئیں ۔ ایک عبادت کے بعد وہ نہایت مایوس اور بیمار ہر کر اپنے کمرہ میں گئیں ۔ اور چاہتی تھیں کی خدا کے سامنے اپنی روح کو انڈیل دیں اور اس سے رحم و تندرستی اور قوت کیلئے دعا کریں ۔ وہ اپنی کرسی کے قریب گھٹنے نشین ہو گئیں ۔ اور پھر جو کچھ پیش آیا وہ اسے اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتی ہیں :CChU 28.2

    ”میرے منہ سےابھی تک ایک لفظ بھی نہ نکلا تھا کہ تمام کمرہ روپہلی روشنی سے بھر گیا اور میری مایوسی اور خستہ دلی جاتی رہی۔ میں اطمینان اور امید یعنی مسیح خداوند کے اطمینان سے بھر گئی“۔ CChU 28.3

    پھر ان پر رویا نازل ہوئی ۔ رویا کو بعد وہ سونا نہیں چاہتی تھیں اور نہ ہی آرام کرنے کی ضرورت محسوس کرتی تھیں ۔ وہ اب تندرست اور تروتازہ تھیں ۔ CChU 28.4

    صبح کو انہیں فیصلہ کرنا تھا کہ کیا وہ ایسی جگہ جا سکتی ہیں جہاں جلسے ہونے والے ہیں یا کہ انہیں واپس بیٹل کریک اپنے گھر جانا چاہیئے۔ صبح ایلڈر اے ٹی رابسنؔ جو کام کے منتظم تھے ۔ مسز ہوائٹؔ صاحبہ کے صاحب زادے ایلڈر ولیم ہوائٹ کے ساتھ ان کے کمرے میں داخل ہوئے تا کہ ان سے فیصلہ سن سکیں ۔ انھوں نے مسز ہوائٹؔ صاحبہ کو تندرست اور تیار پایا۔ وہ جانے کو تیار تھیں ۔ انھوں نے اپنی شفا یابی کے بارے میں بتایا اور رویا کا بھی ذکر کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ”میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ مجھے گزری رات رویا میں کیا دکھایا گیا ہے ۔ رویا میں مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں بیٹل کریک میں ہوں اور پیغام لانے والے فرشتہ نے مجھے کہا کہ ”میرے پیچھے آؤ “ اور پھر وہ رک گئیں ۔ انھیں رویا بھول چکی تھی ۔ انھوں نے دو مرتبہ رویا بیان کرنے کی کوشش کی لیکن جو کچھ ان پر ظاہر کیا گیا تھا وہ اسے یاد نہ کرسکیں ۔ چند دن بعد انھوں نے اس رویا کے متعلق لکھا ۔ یہ رویا ان تجاویز کے متعلق تھی جن میں مذہبی آزادی کے ایک رسالے کے متعلق تجاویز کا ذکر تھاجو اس وقت ”دہ امریکن سینٹی نل “ کہلاتا تھا ۔ CChU 28.5

    ” رات کی رویا میں ، میں کئی مشاورتی اجلاس میں موجود تھی اور وہاں میں نے بااثر آدمیوں کی باتیں سنیں کہ اگر ہم اپنے رسالہ ” دی امریکن سینٹی نل “ میں سے سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ لفظ نکال دیں اور سبت کے بارے میں کوئی ذکر نہ کریں تو دنیا کے بڑے بڑے اور مدّبر لوگ اس کی حمایت کریں گے اور یہ بہت مشہور اور مقبول ہو جائے گا۔ یوں کام بہت زیادہ ترقی کر سکے گا اور یہ بات بہت اچھی معلوم ہوئی “۔ CChU 29.1

    ”میں نے دیکھا کہ سب لوگوں کے چہرے درخشاں ہو گئے اور وہ ایسے اصولات کو اپنانے کی جدوجہد کرنے لگے جن سے ”;سینٹی نل “ہر دل عزیز اور مقبول بن جائے، یہ تمام معاملہ ایسے لوگوں نے پیش کیا تھاجن جے دل و دماغ پر ابھی تک سچائی کے اثر کی ضرورت تھی “۔ CChU 29.2

    اس سے صاف ظاہر ہے کہ انھوں نے ایسے لوگوں کی جماعت دیکھی جو اس رسالہ کی ادارت کے اصولات پر گور و فکر کر رہے تھے ۔ جب مارچ ۱۸۹۱ ء میں جنرل کانفرنس کا اجلاس شروع ہوا تو مسز ہوائٹؔ صاحبہ سے درخواست کی گئی کہ وہ روزانہ صبح ساڑھے پانچ بجے کارگزاروں کی عبادت میں درس دیں اور سبت کی دوپہر کو چار ہزار سامعین کے سامنے کلام پیش کریں ۔ سبت کی دوپہر کی عبادت کیلئے انھوں نے یہ حوالہ منتخب کیا کہ ”تمھاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمھارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں “۔ انھوں نے سیونتھ ڈے ایڈ ونٹسٹ حاضرین کے سامنے یہ سارا مضمون ایک اپیل کے طور پر پیش کیا کہ وہ اپنی تعلیمات کے نمایاں اصولات کو بلند و بالا کریں ۔ اس عبادت کے دوران مسز ہوائٹؔ صاحبہ نے تین مرتبہ سالامینکا کی رویا کو بیا ن کرنے کی کوشش کی مگر وہ ہر بار رک گئیں ....اور رویا میں جو کچھ انھوں نے دیکھا تھا وہ ان کی یاداشت سے جاتا رہا ۔ پھر انھوں نے کہا کہ ”اس امر کی بابت میں پھر کسی وقت بیان کروں گی “۔ انھوں نے ایک گھنٹہ درس دینے کے بعد اپنے مضمون کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کیا ۔ عبادت ختم ہو گئی لیکن سب نے اس بات کو معلوم کر لیا کہ انھیں رویا یاد نہیں رہی ۔ CChU 29.3

    جنرل کانفرنس کے صاحب صدر نے ان سے صبح کی عبادت میں درس دینے کی درخواست کی ۔ انھوں نے جواب میں کہا ”نہیں، میں بہت تھک گئی ہوں اور اپنی گواہی دے چکی ہوں۔ آپ صبح کی عبادت کیلئے کوئی انتظام کریں “۔ اور صدر نے انتظام کر لیا ۔CChU 30.1

    مسز ہوائٹ صاحبہ نے گھر پہنچ کر اپنے خاندان کے افراد سےکہا کہ میں صبح کی عبادت میں نہیں جاؤں گی۔ میں بہت تھکی ہوئی ہوں اس لئے آرام کرنا چاہتی ہوں۔ چونکہ وہ اتوار کی صبح دیر تک آرام کرنا چاہتی تھیں لہٰذا ان کی خواہش کے مطابق ایسا ہی کیا گیا۔ CChU 30.2

    اُسی رات جنرل کانفرنس کے جلسہ کے بعد کچھ آدمی ”ریویو اینڈ ہیرلڈ“ کے ایک دفتر میں جمع ہوئے ۔ اس مشاورتی کمیٹی میں چھاپہ خانہ کے نمائندگان بھی تھے جو امریکن ”سینٹی نل “ رسالہ شائع کرتے تھے ۔ اُن کے علاوہ مذہبی آزادی کے شعبہ کے نمائندے بھی موجود تھے ۔ وہ ایک پیچیدہ مسئلہ یعنی ”امریکن سینٹی نل “ کی ادارتی پالیسی پر غور و خوض کرنے اور اس کا فیصلہ کرنے کیلئے جمع ہوئے تھے ۔ دروازہ مقفل کر دیا گیا اور تمام نے فیصلہ کیا کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو جائے اس وقت تک دروازہ نہ کھولا جائے۔ اتوار کی صبح تین بجے سے زرا پہلے یہ لوگ کسی فیصلہ تک پہنچے بغیر برخاست ہو گئے ۔ مذہبی آزادی کے نمائندگان کا مطالبہ تھا کہ جب تک پیسیفک پریس ان کے مشورہ کے مطابق سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ اور سبت کے الفاظ کو متذکرہ رسالہ میں سے حذف نہ کر دے وہ اس رسلہ کو مذہبی آزادی کے شعبہ کا رسالہ تصور نہ کریں گے ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ رسالہ بند ہونا چاہیے ۔ دروازہ کھول دیا گیا اور تمام لوگ اپنے اپنے کمروں میں سونے کیلئے چلے گئے ۔ لیکن خدا نے جو نہ کبھی سوتا اور نہ اُونگھتا ہے، تین بجے اپنے فرشتہ کو مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ کے کمرے میں بھیجا۔ انھیں نیند سے بیدار کیا اور ہدایت کی کہ انھیں ساڑھے پانچ بجے کار گزاروں کی عبادت میں شریک ہونا چاہیےاور ان کے سامنے اس رویا کا ذکر کریں جو انھیں سالامینکاؔ میں دکھائی گئی تھی مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ نے تیار ہو کے اپنی الماری میں سے وہ رجسٹر لیا جس میں سالا مینکاؔ کی رویا کا کچھ حال درج تھااور جب اُن کے دماغ میں یہ مناظر اور بھی صفائی سے ظاہر ہوئے تو انھوں نے اس بیان کو مفصل قلم بند کر لیا۔ CChU 30.3

    ابھی خادم الدین خیمہ میں دعا کر کے اٹھ ہی رہے تھے انھوں نے مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ کو دروازے سے اندر داخل ہوتے دیکھا۔ ان کی بغل میں کاغذات کا پلندہ تھا۔ جنرل کانفرس کے صدر درس دینے والے تھے اور انھوں نے مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ سے مخاطب ہو کر کہا ” سسٹر ہوایئٹ ! آپ کو دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے۔ کیا ہمارے لئے کوئی پیغام ہے“؟CChU 31.1

    انھوں نے جواب دیا ”بے شک“ اور ان کے ساتھ ممبر پر چلے گئیں ۔ انھوں نے اپنا مضمون وہیں سے شروع کیا ۔ جہاں ایک روز پہلے چھوڑا تھا۔ انھوں نے کہا آج مجھے صبح تین بجے نیند سے بیدار کیا گیا اور مجھے ہدایت کی گئی کہ مجھے ساڑھے پانچ بجے کی عبادت میں کارگزاروں کے سامنے سالامینکا کی رویا کے واقعات بیان کرنے چاہئیں ۔ CChU 31.2

    رویا میں میں نے دیکھا کہ بیٹل کریک میں ہوں مجھے ” ریویو انیڈ ہیرلڈ“ کے دفتر میں لے جایا گیا اور فرشتہ نے مجھے کہا” میرے پیچھے آؤ “ مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں کچھ آدمی بڑی سر گرمی سے ایک مسئلہ پر غور و خوض کررہے تھے ۔ گو وہ نہایت سر گرم تھے لیکن اُ ن میں فہم و ادراک کی کمی تھی ”۔ پھر انھوں نے بتایا کہ وہ کس طرح ”امریکن سینٹی نل “ کی ادارتی پالیسی پر غوروخوض کر رہے تھے ۔ اور میں نے دیکھا کہ ایک آدمی نے رسالہ کی ایک جلد اپنے ہاتھ میں لی اور اسے اپنے سر پر بلند کر کے کہا کہ ”جب تک سبت اور مسیح خداوند کی دوسری آمد کے مضامین اس رسالہ میں سے خارج نہ کئے جائیں ، ہم اس سے مذہبی آزادی کے شعبہ کے رسالہ کی صورت میں ہر گز استعمال نہیں کر سکتے “۔ CChU 31.3

    اس صبح مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ ایک گھنٹے تک درس دیتی رہیں ۔ اور انھوں نے اپنے مشاورتی کمیٹی کا مفصل بیان کیا جو انھوں نے کئی ماہ پیشتر رویا میں دیکھی تھی۔ اور اس رویا کے مطابق مشورات پیش کر کے بیٹھ گئیں ۔ CChU 31.4

    جنرل کانفرنس کا صدر حیران تھا اور نہیں جانتا تھا کہ کیا کہے ۔ اس نے کسی ایسی کمیٹی کے متعلق بالکل نہیں سنا تھا ۔ مگر تشریح کیلئے انھیں زیادہ دیر تک انتظار نہ کرنا پڑاکیونکہ کمرے کے پچھلے حصہ سے ایک آدمی اُٹھا اور کہنے لگا ”میں کل رات اس مشاورتی کمیٹی میں حاضر تھا“ ۔ CChU 31.5

    ”کل رات “؟مسز ہوائٹ صاحبہ نے حیران ہو کر پوچھا ۔ ”واقعی کل رات”؟ میں تو سوچ رہی تھی کہ ایسی مشاورت کئی ماہ پہلے ہوئی ہو گی کیونکہ کئی ماہ ہوئے میں نے یہ تمام واقعات رویا میں دیکھے تھے “۔ CChU 32.1

    اُس نے جواب دیا۔ ” کل رات میں اُس مشورہ میں شامل تھا۔ میں ہی وہ آدمی ہوں جس نے ان مضامین کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا اور اپنے سر سے رسالہ بلند کرتے ہوئے وہی الفاظ کہے تھے جن کا ذکر آپ نے سن لیا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں غلطی پر تھا لیکن اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اقرار کرتا ہوں کہ اب میں صحیح راستہ پر ہوں“۔ یہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ CChU 32.2

    اس کے بعد ایک اور شخص اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ مذہبی آزادی کے شعبہ کا صدر تھا ۔ اس کے الفاظ پر غور کریں ۔ ”میں اس مشورہ میں شامل تھا۔ کل شام کانفرنس کے جلسہ کے بعد ہم میں سے کچھ لوگ ”ریویو اینڈ ہیرلڈ“ کی عمارت میں میرے دفتر میں جمع ہوئے ۔ دروازہ مقفل کر دیا گیا۔ ہم نے ان امور کے متعلق جن کا ذکر آج صبح آپ کے سامنے کیا گیا ہے غوروخوض کیا۔ معاملہ اس قدر طول پکڑ گیا کہ ہم اسی کمرے میں صبح کے تین بجے تک مصروف گفتگو رہے ۔ جو کچھ وہا ں پیش آیا اگر میں اس کے متعلق اور حاضرین کی روش کے بارے میں بیان کرنے کی کوشش کروں تو میں اتنی صفائی سے بیان نہیں کر سکتا جتنی صفائی سے مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ نے بیان کیا ہے۔ اب مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ میں غلطی پر تھا اور میرے خیالات و نظریات غلط تھے۔ اس روشنی کو حاصل کر کے جو مسز ہوائٹ صاحبہ نے آج صبح دی ہے، میں اقرار کرتا ہو ں کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے“۔ CChU 32.3

    اس صبح دوسروں نے بھی گواہی دی ۔ ہر شخص نے جو اس رات مشورہ میں شامل تھا، کھڑے ہو کر گواہی دی کہ مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ نے حاضرین کے رویہ اور مشاورت کی صحیح اور مکمل تشریح کی ہے۔ اس روز اتوار کی صبح کو اس سے پہلے کہ یہ عبادت ختم ہو ، مذہبی آزدی کے شعبہ کے ارکان جمع ہوئے اور انھوں نے اس فیصلہ کو منسوخ کر دیا جو پانچ گھنٹہ پہلے کیا گیا تھا۔ اگر مسز ہوائٹ صاحبہ کو روکا نہ جاتا اور وہ اپنی رویا سبت کی دوپہر کو بیان کر دیتیں تو اس پیغام سے وہ فائدہ نہ ہوتا جو خدا چاہتا تھا کیونکہ ابھی تک وہCChU 32.4

    مشاورتی کمیٹی منعقد نہ ہوئی تھی ۔ CChU 33.1

    لوگوں نے کسی نہ کسی وجہ سے ان مشوروں پر جو مسز ہوائٹ صاحبہ نے سبت کی دوپہر کو دیئے تھے عمل نہ کیا۔ انھوں نے سوچا کہ ہم مسز ہوائٹ صاحبہ سے زیادہ عقلمند ہیں ۔ موجودہ زمانہ کے بعض لوگوں کی طرح انھوں نے بھی سوچا کہ شاید مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ اس معاملہ کو نہیں سمجھ سکتیں ۔ یا یہ کہ ہم اب یک مختلف زمانہ میں رہتے ہیں ۔ یا یہ کہ ان مشورات کا اطلاق گذشتہ زمانے میں ہوتا تھا ۔ لیکن اس زمانے میں فائدہ مند نہیں ۔ شیطان جو خیالات آج کل ہمارے دل میں پیدا کرتا ہے وہی وہ ان لوگوں کی آزمائش کیلئے پیش کرتا تھاجو ۱۸۹۱ ء میں رہتے تھے ۔ خدا نے وقت اور حالات کا خیال رکھتے ہوئے ظاہر کیا کہ یہ اس کا کام ہے وہ راہنمائی کرتاہے اور وہ اس کی نگرانی کرنا اور اسی کا ہاتھ حالات پرحکمران ہے۔ مسز ہوائٹ ؔ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ” خدا نے اکثر حالات کو اجازت دی کے وہ نازک مرحلہ تک پہنچ جائیں تا کہ اس کے مداخلت صاف اور نمایاں طور پر ظاہر ہو سکے۔ پھر اُس نے ظاہر کیا کہ بنی اسرائیل میں ایک خدا ہے“ ۔ CChU 33.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents