پہلا باب
راست بازوں کے اجر و انعام کی رویا
میری پہلی رویا
جب میں خاندانی مذبح پر دعا مانگ رہی تھی تو روح القدس مجھ پر نازل ہوا اور مجھے ایسا معلوم ہو ا کہ میں اس تاریک دنیا سے کہیں زیادہ اونچے مقام کی جانب اوپر کی طرف اٹھ رہی ہوں ۔ میں نے دنیا میں ایڈونٹسٹ لوگوں کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ مجھے نظر نہ آئے۔ پھر آواز آئی کہ ” پھر دیکھ اور اس دفعہ زرا اوپر نگاہ کر “۔ اس آواز کے سنتے ہی میں نے آنکھیں اٹھائیں اور ایک تنگ اور سیدھا راستہ دیکھا جو دنیا سے دور بلند ہو تا جاتا تھا۔ ایڈونٹسٹ لوگ اس راہ پر گامزن تھے اور اس شہر کی طرف جارہے جو اس راہ کے اختتام پر تھا۔ ان کے پیچھے راستہ کے شروع میں ایک چمکدار روشنی تھی ، جس کے متعلق فرشتہ نے مجھے بتایا کہ یہ ”آدھی رات کی دھوم ہے“۔ یہ روشنی تمام راستہ پر چھائی ہوئی تھی اور یہ ان کی راہ کو روشن کر رہی تھی تاکہ وہ ٹھوکر نہ کھائیں ۔ اگر وہ اپنی آنکھیں یسوع مسیح پر لگائے رکھتے جو عین ان کے سامنے شہر کی جانب راہنمائی کر رہا تھاتو وہ محفوظ رہتے ۔ بہت جلد کچھ لوگ تھک گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ ابھی شہر بہت دور ہے، کیونکہ وہ اس میں داخل ہونے کے امیدوار تھے ۔ مسیح خداوند اپنا داہنہ جلالی ہاتھ دراز کر کے انھیں تقویت دیتا تھا اور اس کے ہاتھ سے جلالی نور برستا تھا ، جو اس ایڈونٹسٹ گروہ پر لہراتا تھا اور وہ ہیلیلیو یاہ پکار اٹھتے ۔ بعض نے جلد بازی سے اس روشنی کا انکار کیا جو ان کے پیچھے تھی اور کہا کہ خدا نہ یہاں تک ہماری راہبری نہیں کی ہے۔ان لوگوں کے پیچھے چمکنے والی روشنی گل ہو گئی اور وہ گھپ اندھیرے میں رہ گئے۔ CChU 40.1
۱۴۴۰۰۰ تھی اس آواز کو پہچان اور سمجھ لیا جبکہ شریروں کے خیال میں یہ آواز بجلی کی کڑک اور بھونچال کی آواز تھی ۔ جب خدا نے وقت کا اعلان کیا تو ہم پر روح القدس نازل ہوا اور ہمارے چہرے خدا کے جلال سے موسیٰ نبی کی مانند اس طرح چمکنے لگے جب خدا سے ہمکلام ہو کر کوہِ سینا سے نیچے اترا تھا۔ CChU 41.1
ایک لاکھ چوالیس ہزار مقدّسین پر خدا کی مہر لگی ہوئی تھی اور وہ کامل طور پر متحد تھے ۔ اُن کے ماتھے پر خدااور نئے یروشلؔم کا نام لکھا ہواتھا اور ایک جلالی ستارہ چمک رہا تھاجس پر مسیح یسوؔع کا نام کندہ تھا۔ ہماری خوشحالی اور مقدّس حالت کو دیکھ کر شد ید غضب سے بھر گئےاور ہم پر ہاتھ ڈالنے اور ہمیں قید خانوں میں ڈالنے کیلئے دوڑے ۔ لیکن جب ہم نے خدا کا نام لے کر اپنے ہاتھ دراز کئے تو وہ بے جان ہو کر زمین پر گِر پڑے ۔ پھر شیطان کی خیمہ گاہ (اُن لوگوں کو جو اس کی پیروی کرنا پسند کرتے تھے ) کو معلوم ہو گیا کہ خدا نے ہم سے محبت کی ہے، جو ایک دوسرے کے پاؤں دھوتے اور اپنے بھائیوں کا بوسہ لے کر سلام کرتے ہیں ۔ پھر وہ ہمارے قدموں پر گر کر سجدہ کرنے لگے۔ CChU 41.2
تھوڑی دیر کو بعد ہماری آنکھیں مشرق کی طرف اٹھ گئیں اور ہم نے ایک چھوٹے سے کالے بادل کو جو آدمی کے آدھے ہاتھ کے برابر تھا دیکھا۔ ہم تمام سمجھ گئے کہ یہ ابن آدم کا نشان ہے۔ ہم تمام سنجیدگی اور خاموشی سے اس اس بادل کو تکتے رہے اور وہ جوں جوں نزدیک آتا گیا ، وہ زیادہ چمکدار اور زیادہ جلالی ہوتا چلا گیا حتیٰ اس نے سفید اور بڑے بادل کی شکل اختیار کر لی ۔ اس کے نیچے کا حصہ آگ کی مانند تھا اور اس کے اوپر دھنک تھی ۔ اس کے چاروں طرف ہزاروں ہزار فرشتے نہایت خوش الحان گیت گارہے تھے۔اُس پر ابنِ آدم جلوہ گر تھا۔ اس کے بال سفید گھنگریالے تھے اور شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ اُس کے سر پر بہت سے تاج تھے۔ اس کے پاؤں آگ کی مانند تھے ۔ اس کے داہنے ہاتھ میں تیز درانتی اور بائیں ہاتھ میں نقرئی نرسنگا تھا۔ اس کی آنکھیں آگ کے شعلوں کی مانند تھیں جو اس کے لوگوں کے دل اور گرُدوں کو جانچ رہی تھیں ۔ پھر سب کے چہرے زردی مائل ہو گئے اور جن کو خدا نے رد کیا تھاان کے چہرے سیاہ پڑ گئے۔ پھر ہم تمام چلا اٹھے کہ ” کون اس لائق ہے کہ کھڑا رہ سکے “؟ ”کیا میرا لباس بے داغ ہے “؟فرشتگان نے موسیقی بند کر دی اور کچھ دیر کیلئے بھیانک خاموشی طاری ہوگئی۔ تب یسوع مسیح کی آواز سنائی دی کہ ” وہی کھڑا رہ سکتا ہے جس کا دل پاک اور ہاتھ صاف ہیں ۔ میرا فضل تیرے لئے کافی ہے“۔ یہ سن کر ہمارے چہرے خوشی سے چمک اٹھے اور ہمارے دل باغ باغ ہو گئے ۔ فرشتے بلند آواز سے گانے لگے اور بادل زمیں کے زیادہ قریب آنے لگے ۔ CChU 41.3
تب یسوعؔ مسیح نے اپنا نقرئی نرسنگا بجایا اور مسیح خدا وند آگ کے شعلوں میں ملبوس بادل پر اترا۔ اس نے ان مقدّسوں کی قبروں پر نگاہ کی جو سو رہے تھے ۔ پھر اپنے آنکھیں اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بلند آواز سے کہا ”جاگو!جاگو!جاگو! تم جو خاک میں سوتے ہو اٹھو “۔ پھر ایک زبردست بھونچال آیا ۔ قبریں کھل گئیں اور مردے غیر فانی لبا س پہنے ہوئے قبروں سے نکل آئے...۱۴۴ نے اپنے ان عزیزوں کو پہچان کر جنہیں موت نے ان سے جدا کر دیا تھا چلا کر ”ہیلیلویاہ “ کہا اور ہم ایک پل میں بدل گئے ۔ اور ان کے ساتھ مل کر خداوند کے استقبال کیلئے ہوا میں اٹھائے گئے۔ CChU 42.1
ہم سب باہم مل کر بادل میں داخل ہو گئےاور سات دن تک شیشہ کے سمندر کی طرح پرواز کرتے رہے ۔ پھر خداوند یسوعؔ مسیح ہمارے لئے ایک ایک تاج لاےا اور اپنے داہنے ہاتھ سے ہمیں پہنا دیا۔ اس نے سونے کی بربطیں اور کھجور کی ڈالیاں جو فتح کا نشان ہے ہمیں دیں ۔ یہاں شیشہ کے سمندر پر ...۱۴۴ مربع شکل میں کھڑے ہوئے تو ان میں سے بعض ایک کے تاج بہت چمکدار تھے ۔ اور بعض کے کم۔ بعض کے تاج ستاروں کے سبب سے وزنی تھے اور بعضوں کے تاج میں کم ستارے تھے۔ تمام مقدّسین اپنے تاج پر مطمٔن تھے ۔ وہ کاندھوں سے پاؤں تک سفید جلالی لباس پہنے ہوئے تھے ۔ جب ہم شیشہ کے سمندر پر چلتے ہوئے شہر کے پھاٹک کی طرف جا رہے تھے تو فرشتے ہمارے چاروں طرف جمع تھے ۔ یسوعؔ مسیح نے اپنا قوی اور جلالی ہاتھ اٹھایا اور موتی کے بنے ہوئے دروازہ کو پکڑ کر کھول دیا۔ دروازہ اپنے آبدار قبضوں پر گھوم گیا اور مسیح خداوند نے ہم سے کہا”تم نے میرے خون میں اپنے جامے دھوئے ہیں اور تم سچائی کیلئے ثابت قدم رہے ہو اندر داخل ہو جاؤ“۔ ہم تمام یہ محسوس کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئےکہ اس کا ہمیں پورا پورا حق حاصل ہے۔ CChU 42.2
یہاں ہم نے زندگی کا درخت اور خدا کا تخت دیکھا ۔ خدا کے تخت سے صاف و شفاف پانی کا دریا بہہ رہا تھا اور دریا کے دونوں طرف زندگی کا درخت تھا۔ دریا کے آر پار زندگی کے درخت کے صاف اور شفاف سنہری تنے تھے ۔ پہلے مجھے شک گزرا کہ میں دو درختوں کو دیکھ رہی ہوں لیکن جب میں نے دوبارہ نگاہ کی تو ایک ہی درخت کو دیکھا جو اوپر سے ملحق تھا۔ چنانچہ زندگی کا درخت زندگی کے دریا کے دونوں طرف تھا ۔ اس کی ٹہنیا ں اس جگہ تک جھک کر آئی ہوئی تھیں جہاں ہم کھڑے تھے اور اس کا پھل جلالی تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پھل سونے اور چاندی کی آمیزش سے بنا ہوا ہے۔ ہم سب اس درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گئے تا کہ اس خوبصورت منظر سے لطف اندوذ ہو سکیں ۔ ہم نے بھائی فچ اور بھائی اسٹاک ؔمین کو آتے دیکھا جنھوں نے انجیل کی منادی کی تھی ۔ اور جنھیں خدا نے آخری دن پر بچانے کیلئے قبر میں سلا دیا تھا۔ وہ ہمارے پاس آکر ہم سے پوچھنے لگے کہ ان کے ”سونے “ کے بعد ہم کن کن تجربات میں سے گزرے ہیں ۔ ہم نے اپنی مصیبتوں اور تلخ تجربات کو یا د کرنے کی کوشش کی لیکن وہ تمام مصیبتیں اس بے انداز جلال کے مقابلہ میں ہیچ معلوم ہوئیں اور ہم اس جلال اور ابدیت کو دیکھ کر جس میں ہم محصور تھے ، ان کے متعلق کچھ نہ کہہ سکے ۔ اور ہم نے اپنی بربطیں بجائیں جس سے آسمانی گنبد گونج اٹھے ۔ CChU 42.3
یسوعؔ مسیح کی قیادت میں ہم سب شہر سے اس دنیا میں ایک بڑے اور اونچے پہاڑ پر اترے جو خدا وند کا بوجھ برداشت نہ کر سکا اور دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور ایک بڑا میدان بن گیا۔ پھر ہم نے اوپر نظر کی اور اس بڑے شہر کو اترتے دیکھا جس کی بارہ بنیادیں اور بارہ دروازے تھے ۔ ہر طرف تین تین دروازے تھے اور ہر دروازہ پر ایک محافظ فرشتہ کھڑا تھا۔ ہم نے پکار کر کہا ”دیکھو وہ شہر ، وہ بڑا شہر اتر رہا ہے۔ وہ آسمان پر سے خدا کے پاس سے آرہا ہے“۔ اور وہ شہر زمین پر اس جگہ اتر آیا جہاں ہم کھڑے تھے ۔ پھر ہم شہر کے باہر جلالی اور خوشنما چیزوں کو دیکھنے لگے ۔ میں نے بہت سے شاندار گھر دیکھے جو دور سے چاندی کی مانند دکھائی دیتے تھے ۔ وہ چار ستونوں پر کھڑے تھے جو قیمتی موتیوں سے جڑھے ہوئے تھے ۔ اور نہایت درخشاں تھے ۔ یہ گھر مقدسین کی رہائش کیلئے تھے ۔ ان میں سے ہر ایک میں سونے کا ایک طاق تھا ۔ میں نے بہت سے مقدّسوں کو ان اچھے گھروں میں داخل ہوتے دیکھا۔ انھوں نے اپنے جلالی تاج اتار کر طاق میں رکھ دیئے اور پھر اپنے اپنے گھروں کے پاس باغ میں باغبانی کیلئے چلے گئے۔ لیکن اس دنیا کی محنت و مشقت کی طرح نہیں ۔نہیں ہر گز نہیں ۔ ان کے سروں پو جلالی روشنی ہالہ کئے ہوئے تھی ۔ اور وہ خدا کی متواتر حمد و ستائش کرتے تھے ۔ CChU 43.1
میں نے ایک اور میدان کو ہر قسم کے پھولوں سے بھرا ہوا پایا اور جب میں نے انھیں توڑا تو میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا ” یہ کبھی نہیں مرجھائیں گے “۔ اس سے اگلہ میدان خوشنما اور ہری بھری لمبی لمبی گھاس سے پُر تھا اور اس پر سونے اور چاندی کے امتزاج کا عکس تھا۔ وہ یسوعؔ مسیح بادشاہ کی حمد و ثنا میں نہایت شان سے لہرا رہی تھی ۔ پھر ہم ایک ایسے میدان میں داخل ہوئے جہاں ہر قسم کے حیوان تھے ۔ شیر ببّر ، برّہ، تیندوا اور بھیڑیا۔ سب میل ملاپ سے رہتے تھے۔ ہم اُن کے درمیان میں سے گزرےاور وہ بڑے اطمینان کے ساتھ ہمارے پیچھے پیچھے چلنے لگے ۔ پھر ہم ایک بَن میں داخل ہوئے۔ یہ اِس دنیا کے تاریک جنگلوں کی طرح نہیں تھا۔ ہر گز نہیں بلکہ ہر طرف نور ہی نور تھا۔ ٹہنیاں لہرا رہی تھیں۔ اور ہم سب خوشی سے پکار اٹھے ، “ہم بیابان میں سلامتی سے رہیں گےاور جنگلوں میں سوئیں گے”۔ ہم ان جنگلوں میں سے گزرتے ہوئےکوہِ زیتون کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے ۔ CChU 43.2
جب ہم کوہِ زیتون کی طرف جارہے تھے تو ہم نے ایک دوسرے گروہ کو دیکھاجو ہماری طرح اس جگہ کی خوبصورتی کو دیکھتا پھرتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اُن کے لباس کا دامن سرخ تھا ۔ ان کے تاج نہایت چمکدار تھے اور ان کے جامے بالکل برّاق تھے ۔ اُن کو سلام کرنے کے بعد میں خداوند یسوعؔ مسیح سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ یہ وہ شہید ہیں جو میری خاطر قربان کئے گئے تھے۔ اُن کے ساتھ بچوں کا ایک بے شمار گروہ تھااور ان کے لباس کا دامن بھی سرخ رنگ کا تھا۔ کوہِ زیتون عین ہمارے سامنے تھااور پہاڑ پر ایک جلالی تقدّس تھا۔ اُس کے اِرد گِرد سات اور پہاڑ تھے جن پر گلاب اور سوسن کے خوش رنگ پھول اُگے ہوئے تھے ۔ میں نے بچوں کو ان پہاڑوں پر چڑھتے دیکھا، جو اگر چاہتے تو اپنے پروں سے اُڑ کر بھی پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا سکتے تھے ۔ وہ نہ مرُجھانے والے پھولوں کو توڑ رہے تھے ۔ مقدّس کے چاروں طرف ہر قسم کے درخت تھے جو اس جگہ کی خوبصورتی کو دو بالا کر رہے تھے ۔ میں نے وہاں چیڑھ ، سرُو، صنوبر ، آس ، انار ، اور انجیر کے درخت دیکھے ۔ انجیر کا درخت موسم کے پکے ہوئے پھلوں سے لدا ہوا تھا۔ اَن سب کی وجہ سے منظر نہایت دلکش تھا۔ جب ہم مقدّس میں داخل ہونے کو تھے تو یسوعؔ مسیح نے اپنی پیاری آواز میں کہا ”اِس مقدّس مقام میں صرف ایک لاکھ چوالیس ہزار ۱۴۴،۰۰۰ ہی داخل ہو سکتے ہیں “۔ اور ہم نے بلند آواز میں کہا ”ہیلیلویاہ“۔CChU 44.1
اِس خوبصورت مقدّس کے سات ستون تھے اور ہر ستون آبدار سونے کا تھا۔ جس میں قیمتی موتی جڑھے ہوئے تھے ۔ جو بے نظیر چیزیں میں نے وہاں دیکھیں اُن کا بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ۔ کاش میں آسمانی کنعان کی زبان بول سکتی تو پھر میں اُس جلالی زمین کی خوبصورتی کچھ نہ کچھ بیان کرسکتی ۔ میں نے خالص پتھر کی لوحیں دیکھیں جن پر ایک لاکھ چوالیس ہزار ۱۴۴،۰۰۰ کے نام سونے کے حروف میں کندہ تھے۔ مقدّس کی شان و شوکت کو دیکھنے کو بعد ہم باہر نکل آئے اور خداوند یسوعؔ مسیح ہم سے جدا ہو کر شہر میں چلے گئے۔ پھر ہم نے ان کی شیریں آواز سنی کہ ” اے میرے لوگوآؤ ۔ تم بڑی مصیبت میں سے نکل کر آئے ہو۔ اور تم نے میری مرضی پوری کی ہے۔ میری خاطر دکھ سہا ہے۔ میرے ساتھ کھانا کھاؤ میں اپنی کمر باندھ کر تمہاری میزبانی کروں گا۔ ہم نے چلا کر کہا ”ہیلیلویاہ!تمجید ہو!“ اور شہر میں داخل ہو گئے میں نے خالص چاندی کی ایک بہت بڑی میز دیکھی جو میلوں تک لمبی تھی ۔ تو بھی ہماری نظر اس میز کے آخر تک پہنچ سکتی تھی۔ میں نے زندگی کے درخت کا پھل ،جا من ، بادام ، انجیر ، انار، انگور اور بہت سی قسموں کے پھل دیکھے اور میں نے یسوعؔ مسیح سے پھل کھانے کی اجازت چاہی ۔ انھوں نے کہا ”ابھی نہیں ۔ جو اس جگہ کا پھل کھاتے ہیں پھر دنیا میں واپس نہیں جاتے ۔ لیکن اگر تم وفادار رہوتو تھوڑی دیر کے بعد نہ صرف زندگی کے درخت کا پھل کھاؤ گی بلکہ زندگی کے چشمہ سے پانی بھی پیٔو گی “۔اور فرمایا ”تمہیں دنیا میں واپس جانا ہے۔ اور جو کچھ میں نے تمہیں دکھایا ہے اُسے دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کرنا ہے “۔ پھر ایک فرشتہ مجھے آہستہ آہستہ نیچے کی طرف اس تاریک دنیا میں لے آیا۔ بعض دفعہ میں سوچتی ہوں کہ میں اس دنیا میں زیادہ دیر رہ نہیں سکتی ۔ دنیا کی تمام چیزیں مجھے بے کیف معلوم ہوتی ہیں۔ میں یہاں بہت زیادہ تنہائی محسوس کرتی ہوں ۔ کیونکہ میں نے ایک بہتر دنیا کو دیکھا ہے۔ کاش کبوتر کی طرح میرے پَر ہوتے اور میں اُڑ جاتی اور آرام پاتی۔ ارلی رائٹنگز صفحات ۱۴۔۲۰ CChU 44.2