پچیسواں باب - لباس
کتاب مقدس حیاداری کے لباس کا درس دیتی ہے۔SKC 198.1
“اسی طرح عورتیں حیا اور لباس سے شرم اور پرہیزگاری کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں”1تیمتھیس9:2۔SKC 198.2
یہ کلام لباس کی نمائش، چمکیلے بھڑکیلے رنگ اور زیوروں کی ممانعت کے بارے میں ہے۔ خُدا کے کلام کے مطابق جو چیز بھی پہننے والا اس طرح کی بنوا کر پہنے کہ وہ دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن جائے تو وہ لباس کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا لباس سادہ اور کم قیمتی ہونا چاہیے۔ یعنی سونے چاندی یا ہیرے جواہرات سے بے نیاز۔SKC 198.3
“اسی طرح عورتیں حیادار لباس سے شرم اور پرہیزگاری کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں نہ کہ بال گوندھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی پوشاک سے”1تیمتھیس9:2۔SKC 198.4
روپیہ پیسہ خُدا کی طرف سے ہمارے پاس بطورامانت ہے۔ یہ ہمیں اپنی ظاہری نمائش، غرور گھمٓنڈ اور اپنی بےجا خواہشات پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ خُدا کے بچوں کے ہاتھ میں یہ دولت بھوکوں کے لیے کھانا، ننگوں کے لیے کپڑا، کچلے ہوؤں کے لیے سہارہ، بیماروں کے لیے صحت کا وسیلہ اور غریبوں کو خوشخبری سنانے کا بڑا زریعہ ہے۔ وہ روپیہ پیسہ جو صرف دکھاوے کے لیے استعمال ہو رہا ہے آپ اسے عقلمندی سے استعمال کر کے بہتوں کے دل میں خوشی ومسرت لا سکتے ہیں۔ خُداوند یسوع مسیح کی زندگی پر غور کریں۔ اس کی سیرت کا مطالعہ کریں اور خودانکاری کے زریعہ وہی اوصاف اپنا لیں۔SKC 198.5
مسیحی دُنیا میں بہت زیادہ روپپیہ پیسہ قیمتی موتیوں اور غیر ضروری اشیاء پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ وہ اتنی رقم ہے کہ بھوکوں کو کھانا اور برہنہ کو کپڑا پہنچایا جا سکتا ہے۔ فیشن اورنمائش پر اتنا خرچ اُٹھ رہا ہے جو باآسانی غریبوں اور دکھیوں کو آرام پہنچا سکتا ہے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے۔ وہ مسیح نجات دہندہ کی محبت کی خوشخبری کو دُنیا سے چھین رہے ہیں۔ مقصد فوت ہو رہا ہے۔ مسیح یسوع کی تعلیم کی کمی سے ہزاروں مر رہے ہیں۔ ہمارے آس پاس اور غیر ممالک میں بہت بت پرست قومیں یسوع مسیح کی تعلیم اور نجات پاۓ بغیر مر رہی ہیں۔SKC 198.6
خُداوند خُدا نے اس زمین کو بہت سی برکات سے معمور کر دیا ہے اور زندگی کی ہر آساٰئش دے رکھی ہے۔ اور ہمیں نجات بحشنے والی صداقت۔ ہم اُس وقت کا کیا حیلہ بہانہ تراشیں گے جب بیواؤں، یتیموں، بیماروں، دکھیوں اور نہ بچائے جانے والوں کا آہ و نالہ آسمان کی طرف بلند ہو گا؟ خُداوند کے دن جب وہ اُس کے روبرو ہوں گے جس نے ان حاجت مند لوگوں کے لیے جان دی، تو وہ کیا جواب دیں گے جنہوں نے روپیہ پیسہ اور وقت اپنی ان خواہشات کی نظرکر دیا جس کی خُداوند نے ممانعت کر رکھی تھی؟ کیا ایسوں کو خُداوند یہ نہ کہے گا۔SKC 199.1
“میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہ پلایا۔ پردیسی تھا تم نے مجھے گھر نہ اُتارا۔ ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا۔ بیمار اور قید میں تھا تم نے میری خبر نہ لی” متی42:25-43۔ SKC 199.2
ہمارے کپڑے حیادار اور سادے ہوں۔ مگر وہ اچھے رنگ، آرام دہ اور عمدہ ہونے چاہئیں۔ ہمارے کپڑے دیرپا رہنے والے ہوں نہ کہ نمائشی ہوں جو جلد خراب ہو جائیں۔ یہ بدن کو پوری پوری حفاظت کرنے کے قابل ہوں۔ اور سرما میں بدن کو گرم رکھ سکیں۔ عقلمند عورت کا ذکر امثال کی کتاب میں آیا ہے۔SKC 199.3
“وہ اپنے گھرانے کے لیے برف سے نہیں ڈرتی کیونکہ اس کے خاندان میں ہر ایک سرخ پوش ہے” امثال21:32۔SKC 199.4
ہمارا لباس صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ گندہ لباس غیر صحت مند ہے۔ لٰہذا وہ بدن اور روح دونوں کو نجس کرتا ہے۔ “تم خُدا کا مقدس ہو اور خُدا کا روح تم میں بسا ہوا ہے۔ اگر کوئی خُدا کے مقدس کو برباد کرے گا تو خُدا اس کو برباد کرے گا کیونکہ خُدا کا مقدس پاک ہے اور وہ تم ہو”1 کرنتھیوں16:3-17۔SKC 199.5
ہرلخاظ سے لبا س صحت افزا ہونا چاہیے۔ خُداوند کی یہ خواہش ہے کہ ہم تندرست رہیں۔ ہمیں خُدا کے ساتھ مل کر اپنے بدن اور اپنی صحت کو توانا رکھنا ہے۔ اُن دونوں کا انحصار صحت افزا لباس پر ہے۔ لباس حیادار، دلکش اور سادا ہو۔ مسیح خُداوند نے ہمیں زندگی کے غرور اور گھمنڈ کے خلاف آگاہ کیا ہے۔ مگر فطرتی خوبصورتی اور دلکشی سے نہیں۔ اس نے کھیت کے پھولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا “سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کی مانند ملبس نہ تھا”متی29:6۔SKC 199.6
یوں خُداوند یسوع مسیح نے فطرت کی چیزوں کی مثال دے کر بتایا کہ اعتدال کے ساتھ دلکشی،حیاداری، خوبصورتی، سادگی اور پاکیزگی خُداوند کو پسند آتی ہے۔ اور اگر ہم بھی اس کی ہدایات پر عمل کریں گے تو خُداوند کی نظر میں پسندیدہ ٹھہریں گے۔SKC 200.1
خُداوند ہمیں روح کو زیادہ سے زیادہ خوبصوررت لباس سے ملبس کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ظاہری سنگھار اور خوبصورتی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔SKC 200.2
“تمہاری باطنی اور پوشیدہ انسانیت حلم اور مزاج کی غربت کی غیر فانی آرائش سے آراستہ رہے کیونکہ خداوند کے نزدیک اس کی بڑی قدر ہے”1پطرس 4:3۔SKC 200.3
وہ جو نجات دہندہ کے کلام کو اپنا رہنما بناتے ہیں ان کے لیے خُداوند کے کتنے ہی قیمتی وعدے ہیں۔SKC 200.4
“وہ پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کانتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کی مانند ملبس نہ تھا۔ پس جب خُداوند میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جاۓ گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہناۓ گا؟ اس لیے فکر مند ہو کہ یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھایئں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی” متی-33-28:6 SKC 200.5
“جس کا دل قائم ہے تو اسے سلامت رکھے گا کیونکہ اس کا تو کل تجھ پر ہے” یسعیاہ3:26-SKC 200.6
ایمان رکھنے والے اور ان لوگوں میں کتنا تضاد ہے جو بے آرام، پریشان، بیمار اور فیشن کی وجہ سے خستہ حال ہیں۔ جو کلام مقدس میں لباس کے بارے میں ہدایت دی گئی ہیں ان کے برعکس آج فیشن کیا کر رہا ہے؟ چند صدیاں یا دہائیاں پیچھے مڑ کر دیکھیں وہ لباس آج گنواروں کا لباس گنا جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ فیشن میں نہیں۔ یہی حال چند دہائیوں کے بعد موجودہ فیشن کا ہو گا۔ خُدا ترس بہنیں اور بھائی کدھر جائیں گے۔ ان کا لباس غیر حیادار خیال کیا جاۓ گا۔ کیونکہ وہ فیشن کی مطابقت نہیں کرتا۔ اور یہ تو ہر زمانے میں ہوتا آیا ہے اور رہے گا۔SKC 200.7
محض فیشن کی خاطر کپڑوں کی تراش خراش کی اجازت کلام مقدس نہیں دیتا۔ کپڑوں کی وضع قطع کو تبدیل کروانا، زیوروں کو نئے ڈیزائنوں میں بنوانا روپے پیسے اور وقت کا بھی بڑا حرج ہے۔ اس سے روح اور دماغ کی قوت بھی ضائع ہوتی ہے۔ جب امیر لوگ چوچلے کرتے ہیں تو اس سے غریب اور درمیانہ طبقہ کے اوپر بھی بوجھ پڑتا ہے۔ وہ جو بمشکل اپنی روزی کماتے ہیں اور مشکل سے گزارہ کرتے ہیں۔اور جو بمشکل اپنے لیے سادہ لباس مہیا کر سکتے ہیں وہ بھی فیشن کی خاطر درزیوں کے چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں تا کہ وہ بھی فیشن میں آ سکیں۔ غریب لڑکے لڑکیاں امیروں کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی بدیانتی اور بے حیائی کے ذریعے اختیار کر کے پیسہ بٹورتے ہیں تا کہ فیشن ایبل نظر آئیں اس میں بعض کی عزت و ناموس بھی لٹ جاتی ہے۔ بعض جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بہتیروں کے گھر کا چین چھن جاتا ہے۔ بعض خاندانوں کی ترقی ہو جاتی ہے کیونکہ ان کے اوپر ان کے بچوں اور بیوی کی طرف سے دباؤ تھا کہ ہم سب کو فیشن ایبل کپڑے بنوا کر یا خرید کر دو۔ لٰہذا ان کی آرزوؤں کو پروان چڑھاتے چڑھاتے خاندان کنگال ہو گیا۔SKC 201.1
بہت سی خواتین کو اپنے لئے یا اپنے بچوں کے لیے فیشن کے مطابق پاجامے یا پتلونیں لینی پڑتی ہیں اور اس کے لیے انہیں انتہائی سخت غلامانا مشقت کرنا پڑتی ہے جو ختم ہونے کو نہیں آتی۔ بہت سی مائیں دن رات لرزتی انگلیوں اور ہیجان خیز دل کے ساتھ دیر تک محنت مشقت کرتی رہتی ہیں تاکہ اپنے بچوں کے کپڑوں میں فیشن کے مطابق سنگھار کر سکیں۔ (موتی وغیرہ جڑ سکیں) جو صحت کی نشوونما، آرام اور خوبصورتی میں کوئی اضافہ نہیں کرتا۔ لیکن صرف فیشن کی خاطر وہ ماں اپنی صحت اور پُرسکون روح کی قربانی دیتی ہے جو بچوں کی صحیح رہنمائی کے لیے استعمال میں آ سکتی تھی۔SKC 201.2
ماں کے پاس کوئی وقت ہی نہیں کہ وہ جسمانی بڑھوتری کی نشوونما کے اصولوں کے بارے میں مطالعہ کرے تاکہ وہ جان سکے کہ اسے بچوں کی صحت کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ اس کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ان کی ذہنی یا روحانی ضروریات کو پورا کرے۔ اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ جب وہ آزمائشوں میں گرتے یا مایسیوں کا شکار ہوتے ہیں تو وہ ان کیساتھ ہمدردی کر سکے۔ یا ان کی دلچسپیوں اور مقاصد میں حصہ لے۔SKC 201.3
جونہی بچے دُنیا میں آتے ہیں غالبا اُسی وقت سے فیشن کے زیر سایہ ہوتے ہیں۔ نجات دہندہ سے زیادہ وہ فیشن کے بارے میں سنتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی ماں بائبل سے زیادہ فیشن کے بارے ہیں مخلصانہ مشورہ لیتی ہے۔ سیرت کی نشوونما سے کہیں زیادہ فیشن کے شو کی اہمیت ہوتی ہے۔ یوں والدین اور بچے دونوں ہی اس چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو زندگی کے لیے حقیقی اور شیریں ہوتی ہے۔ فیشن کی خاطر وہ دھوکا کھا جاتی ہیں اور آنے والی زندگی کے لیے کوئی تیاری نہیں کرتے۔ نہ دشمن تھا جس نے ہر وقت فیشن کے بدلنے کی ضرورت ایبجاد کرنے کی ترغیب دی۔ اُس کی یہی خواہش ہے کہ انسانوں کی تباہی کے سبب خُداوند تعالٰی کو دکھی اور بے عزت کرے۔ تمام حربوں میں اس کا ایک موثر حربہ فیشن ہے جس کے ذریعے وہ انسان کے بدن کو کمزور، ذہن کو ضعیف اور روح کی تحقیر کرتا ہے۔ خواتین ہی ہیں جو زیادہ تر بیماریوں کے دباؤ میں رہتی ہیں اور ان کی بیماریوں کی زیادہ تر وجہ ان کا فیشن ایبل لباس ہوتا ہے۔ بجاۓ اس کہ وہ اپنی صحت محفوظ رکھیں اور آنے والے ہنگامی حالات سے نبرد آزما ہو سکیں ، وہ اپنی بُری عادات کے ہاتھوں اکثر نہ صرف اپنی صحت بلکہ زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور اپنے بچوں کو دکھوں کے حوالے کر جاتی ہیں، جہاں وہ بُری عادات سیکھتے اور زندگی کے جھوٹے نظریات پر پرورش پاتے ہیں۔SKC 202.1
تنگ کڑتی کے صحت پر مضر اثرات سے کون واقف نہیں، پھر بھی فیشن اتنا طاقتور ہے کہ رواج جاری ہے۔ ایسا کرنے سے خواتین اور جوان لڑکیاں اپنے آپ کو بے انتہا نقصان پہنچا رہی ہیں۔ صحت کی لیے ضروری ہے کہ چھاتی کے پھیلنے کے لیے کافی جگہ ہو تاکہ پھیپھڑے پوری طرح پھیل کر سانس کا عمل جاری رکھ سکیں۔ جب پھیپھڑے سکڑ جاتے ہیں تو وہ آکسیجن کی مقدار بھی کم لیتے ہیں۔ خون کو اچھی اور زندگی بخش غذا نہیں ملتی ، وہ کثافتیں اور زہریلے مادے جنہیں پھیپھڑوں کے ذریعے باہر نکلنا چاہیے تھا اندر ہی رہ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دوران خون میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ نیز باطنی عضو اتنے تنگ اور ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ پچک جاتے ہیں کہ وہ اپنا اپنا کام مناسب اور آسانی سے نہیں کر پاتے۔SKC 202.2
فیتے یا آزار بند کو کس کر باندھنے سے بدن سڈول اور خوبصورت نہیں بنتا۔ جسمانی خبصورتی میں سب سے بڑا عنصر تناسب ہے۔ یعنی خوش اندامی اور موزونیت ہے۔ جسمانی نشوونما کے صحیح نمونہ فرانس کے نمائشی نمونوں میں نہیں پایا جاتا جو عورتوں کے جدید فیشن تیار کرنے والوں نے رکھ چھوڑے ہیں بلکہ انسانی بدن میں جو فطرت کے قوانین کے مطابق بنے ہیں۔ خُداوند ہر طرح کی خوبصورتی کا منبع ہے جب ہم اس کے نمونے کے مطابق عمل کریں گے تو اس کے خوبصورتی کے معیار تک رسائی کر سکیں گے۔SKC 202.3
دوسرا بُرا دستور جو اپنایا گیا ہے وہ یہ کہ جسم کے بعض حصوں پر کم اور بعض پر زیادہ لباس ہے۔ یعنی بدن کے بعض حصوں پر جتنا کپڑا چاہیے اس سے زیادہ ہے جب کہ دوسرے جسم کے حصے پر اس کی ضرورت سے بھی کم ہے۔ پاؤں اور دوسرے اعضا جو زندگی بخش عضو سے دور ہیں ان کا خصوصی دھیان رکھا جانا چاہیے تاکہ وہ دوسری سے محفوظ رہ سکیں۔ صحت کا قائم رہنا اُس وقت تک نا ممکن ہو جاتا ہے جب جسم کا ایک حصہ سخت سردی کا شکار ہو۔ اگر ان باتوں کا دھیان نہ رکھیں گے تو نتیجتا جسم کے بعض حصوں میں کم اور بعض حصوں میں بہت زیادہ خون ہو گا۔ کامل صحت کامل دورانِ خون کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور یہ کیونکر ہو سکتا ہے جب جسم کے بعض حصوں کی نسبت ایک حصہ پر تین چار گنا زیادہ کپڑے پہن رکھے ہوں۔ اور بعض کے اوپر کچھ بھی نہ ہو جیسے پاؤں وغیرہ۔۔۔۔SKC 203.1
بہت سی خواتین تھکی ماندی اور پریشان حال محض اس لیے رہتی ہیں کیونکہ وہ اُس تازہ ہوا سے محروم رہتی ہیں جو خون کی صلح اور جزبات میں روانی پیدا کرتی ہے۔ اور نسوں کے ذریعے خون بھیج کر صحت، زندگی اور توانائی عطا کرتی ہے بہت سی خواتین تو یقینی طور پر معذور ہو چکی ہیں جب کہ وہ ابھی صحت اور تندرستی کا حظ اُٹھا سکتی تھیں۔ اور بعض تو مختلف بیماریوں کے سبب مر چکی ہیں جب کہ وہ اگر کھلی ہوا میں ورزش کرتیں اور صحت کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرتیں تو پوری عمر پاتیں۔SKC 203.2
سب سے موزوں لباس حاصل کرنے کے لئے اس کا دھیان رکھا جاۓ کہ بدن کے ہرعضو کی ضرورت پوری ہو۔ آب و ہوا کی خصوصیت، ماحول، صحت کی کیفیت، عمر اور پیشہ ان سب کا خیال رکھ کر لباس کا انتخاب کیا جاۓ۔ لباس اس قدر کشادہ ہو کہ اس کے پہننے میں دشواری پیش نہ آۓ۔ دوران خون کو بالکل نہ روکے، سانس فطری اور آزادی کے ساتھ آۓ جاۓ۔ قصہ مختصر لباس اس قدر آرام دہ اور کشادہ ہو کہ جب بازؤں کو اوپر نیچے یا آگے پیچھے کیا جاۓ تو دشواری پیش نہ آۓ نہ لباس پھٹے۔SKC 203.3
وہ خواتین جن کی صحت تسلی بخش نہیں وہ اپنے آپ کے لیے ورزش اور مناسب لباس تیار کر کے بہت کچھ کر سکتی ہیں۔ مناسب لباس پہن کر کھلی ہوا میں ورزش کا حظ اُٹھائیں۔ ابتدا میں بہت زیادہ ورزش نہ کریں۔ لیکن جب برداشت کر سکیں تو بتدریج ورزش میں اضافہ کرتی چلی جائیں۔ ایسا کرنے سے یقینا بیمار خواتین شفا پا لیں گی اور زندہ سالامت رہ کر اس خدمت کو جو ان کے سپرد ہے بخوبی نبھا سکیں گے۔SKC 203.4