Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    غم خواری

    دماغی بیماری کے لیے تدابیر بڑی حکمت اور دانش کا مطالبہ کرتی ہے ۔ ایک زخمی بیمار دل اور پست ہمت دماغ کے لیے نہایت ہی نرم ملائم علاج درکار ہے۔ بعض اوقات گھریلو مسائل منہ کے ناسور کی طرح (منہ میں آبلے یا چھالے) روح کو کھاتے رہتے ہیں جس سے زنگی کی قوت کمزور ہو جاتی ہے۔ اور بعض اوقات انسان کو اپنے کیے ہوئے گناہوں اور خطاؤں پر اس قدر پچھتاوا ہوتا ہے کہ وہ اس کے ذہنی توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔ اس طرح کے مریضوں کا اعتماد بحال کیا جائے پھر ان کی توجہ عظیم شفا بخشنے والے کی طرف مبذول کرائی جائے۔ اگر ان کا ایمان کسی نہ کسی طرح اس خُداوند میں مستحکم ہو جائے جو شفا دینے پر قادر ہے تو پھر جان لیں کہ خُداوند نے ان کے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اس سے ان کو ذہنی سکون نصیب ہو گا اور بدن کو صحت اور تازگی۔SKC 168.3

    ہمدردی اکثر بیمار کو اس دوا سے زیادہ فائدہ پہنچائے گی جو ایک ماہر ڈاکٹر مریض کو بے پرواہی اور لا تعلقی سے دے گا۔ (ایسا علاج خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو بے سود ہے) جب طبیب بیمار کے کمرے میں بے پرواہی کے انداز میں داخل ہوتا ہے اور بیمار پر اس طرح نظر کرتا ہے جیسے اس سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ پھر اپنی گفتار اور عمل سے یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ بیماری اتنی توجہ کی حامل نہیں اور پھر مریض کو اس کی اپنی سوچ بچار میں گم سم چھوڑ جاتا ہے۔ تو اُس نے مریض کو کچھ فائدہ نہیں پہنچایا۔ ہاں البتہ اسے نقصان ضرور پہنچایا ہے۔ اس کی بتائی ہوئی دوا یا نسخے کا کوئی اثر نہ ہوگا، خواہ کتنا ہی بہترین نسخہ کیوں نہ ہو۔ SKC 169.1

    اگر وہ طبیب خود کو اس مریض کی جگہ رکھے جس کی روح بیماری کے سبب بڑی عاجز اور قوت ارادی کمزور ہو چکی ہے۔ جو ہمدردی اور غم خواری کا بڑا خواہاں ہے تو پھر وہ یقیناً مرض کے احساس کی قدر کریں گے۔ جب وہ ہمدردی جو مسیح نے بیماروں کے لیے دکھائی طبیبوں کے علم کا حصہ بن جائے تو اُن کی موجودگی یقیناً برکت و رحمت کا سبب ہوگی۔ SKC 169.2

    صاف گوئی مریض میں اعتماد کو بحال کرتی ہے اور صحت کی بحالی کے لیے مدد فراہم کرتی ہے۔ بعض حکیم سوچتے ہیں کہ بڑی عقلمندی کی بات ہے کہ مریض سے اس کی بیماری کی وجہ اور بیماری کی قسم اور نوعیت کو پوشیدہ رکھا جائے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر مریض کو درست یعنی سچی بات بتا دی تو مریض بے دل اور پست ہمت ہو جائے گا۔ لہٰذا وہ اسے غلط امید دلاتے رہتے ہیں اور مریض کو خطرے سے آگاہ کیے بغیر ہی مرنے دیتے ہیں۔ یہ بلکل عقلمندی نہیں کہ مریض کو پوری طرح ان خطرات سے آگاہ نہ کیا جائے جو اسے درپیش ہیں۔ یوں شائد مریض کے شفا پانے کی راہ میں کچھ دیر لگ جائے۔ یا مریض بالکل ہی شفا نہ پا سکے۔ ویسے وہ مریض جن کی بیماری کے سبب زیادہ تر تصوراتی ہے انہیں پوری سچائی سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ ان میں زیادہ تر لوگ معقول نہیں ہوتے اور نہ ہی خود پر ضبط کرنے کے عادی ہیں۔ ان کے عجیب و غریب وہم و گمان ہوتے ہیں۔ وہ ان چیزوں کو حقیقی سمجھتے ہیں جو دوسروں کے نزدیک غلط ہوتی ہیں۔ لہٰذا جو ان کی تیمارداری پر معمور ہیں انہیں چاہیے کہ بڑی ہوشمندی، بردباری اور نرم بزاجی سے ان کے ساتھ پیش آئیں۔ اگر انہیں ان کے بارے میں سچائی سے آگاہ کر دیا گیا تو ان میں سے بعض کو دھچکا لگے گا اور وہ پست ہمت ہوجائیں گے۔ SKC 169.3

    خُداوند یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے فرمایا “مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے” یوحنا 12:16۔ SKC 170.1

    گو موقع کی نزاکت کے مطابق بعض کو پوری کی پوری سچائی بتائی نہیں جاتی مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ دھوکا دیا جائے۔ کسی بھی نرس یا ڈاکٹر کو ہیر پھیر یا ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہیے۔ جو ایسا کرتا ہے وہ اپنے آپ کو ایسی جگہ لے آتا ہے جہاں خُدا اس کے ساتھ تعاون نہیں کر سکتا۔ لہٰذا وہ ایک مریض کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے ایک ایسی انسانی مدد کو دور پھینک رہا ہے جو مریضوں کی شفا کا نہایت موثر ذریعہ ہے۔ SKC 170.2

    قوت ارادی کی ایسی قدر نہیں کی جاتی جیسی کہ کی جانی چاہیے۔ قوت ارادی کو بیدار رکھ کر صحیح سمت کی طرف رہنمائی کی جائے تو پھر یہ تمام بدن کو قوت مہیا کرے گی اور یہ صحت کی بحالی میں بڑی ممد ثابت ہو گی۔ یہی وہ قوت ہے جو بیماری کے ساتھ اچھی طرح نپٹ لیتی ہے۔ صحیح قسم کی ورزش بہت مفید ہے۔ یہ خیالات تصورات کو اچھی طرح قابو میں رکھے گی۔ یہ ذہنی اور جسمانی دونوں بیماریوں کا مقابلہ کرنے اور ان پر فتح پانے کے لیے بڑی قدرت رکھتی ہے۔ اگر مریض قوت ارادی کی مشق کر کے اپنے آپ زندگی کے صحیح انداز میں ڈھال لیں تو وہ طبیب کی کوششوں سے تعاون کر کے اپنی صحت کی بحالی کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ہزاروں ایسے ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو وہ تندرست ہو سکتے ہیں۔ خُداوند تو نہیں چاہتا کہ وہ بیمار رہیں۔ اس کی تو خواہش ہے کہ وہ تندرست، سلامت اور خوش رہیں۔ مگر انہیں صحت مند ہونے کے لیے اپنا ارادہ ضرور بنانا ہو گا۔ یہ ممکن ہے کہ بیماری کی حکمرانی کو رد کر کے اور بے کاری کی حالت سے باہر آ کر بیماری کا مقابلہ کیا جائے۔ مریض اپنے درد اور تکلیفوں کو نظر انداز کر کے کسی مفید کام میں جو اُن کی طاقت سے مواقفقت رکھتا ہو مشغول ہو جائیں۔ ایسے کام کاج سے انہیں روشنی، دھوپ اور تازہ ہوا مل سکے گی۔ ہو سکتا ہے یوں بہت سے معذور حضرات صحت اور توانائی پا لیں۔ SKC 170.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents