Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    گناہ کا اعتراف

    وہ سب جو یہ چاہتے ہیں کہ دعا کے ذریعے ان کو صحت بحال ہو ان پر یہ واضح کر دینا چاہیے کہ خُدا کے احکام خواہ وہ فطری ہوں یا روحانی ان کو توڑنا گناہ ہے۔ اور خُدا کی برکات حاصل کرنے کے لیے گناہ کا اعتراف کرنا اور ان کو ترک کرنا نہایت ضروری ہے۔ کلام فرماتا ہے “آپس میں ایک دوسرے سے اپنے اپنے گناہوں کا اقرار کرو اور ایک دوسرے کے لیے دُعا کرو تاکہ شفا پاؤ” یعقوب 16:5۔ SKC 155.5

    جو بھائی اپنے لیے دعا کے لیے کہے اس کے سامنے اس طرح کا کلام پیش کریں “نہ تو ہم کسی کا دل پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کی زندگی کی پوشیدہ باتوں کو جان سکتے ہیں۔ ان کا علم صرف آپ کو یا خُداوند کو ہے۔ اگر تم اپنے گناہوں سے توبہ کرو۔ تو یہ آپ کا فرض ہے کہ اپنے گناہوں کا اقرار بھی کرو۔ شخصی اور نجی زندگی کے گناہوں کا اقرار صرف یسوع مسیح سے کیا جاتا ہے جو انسان اور خُدا کا درمیانی ہے۔ کیونکہ لکھا ہے “اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار موجود ہے یعنی یسوع مسیح راستباز” 1 یوحنا 1:2۔ SKC 156.1

    ہر ایک گناہ خُدا کے خلاف ہوتا ہے اس لیے یسوع مسیح کے ذریعے اس کا اقرار بھی خُدا کے سامنے کیا جانا چاہیے۔ ہر ظاہرہ گناہ کا اعتراف بھی ظاہرہ ہونا چاہیے۔ اور اگر قصور کسی خاص شخص کا کیا ہے تو اسی شخص کے ساتھ معاملہ درست کیا جائے۔ اگر کوئی ایسا ہے جو تندرستی کا خواہاں ہے تو اگر اس نے بُرائی کا کام کیا ہے، گھروں اور پڑوسیوں میں نفاق ڈالا ہے یا کلیسیا میں پھوٹ اور بھائیوں میں بے اتفاقی ڈال کر دور دور کر دیا ہے یا بعضوں کو گناہ کی دلدل میں دھکیل دیا ہے تو ان سے گناہوں کا اعتراف خُداوند اور ان سب کے سامنے کیا جائے جن کے خلاف گناہ کیا ہے۔ SKC 156.2

    “اگر ہم اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے خلاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے مین سچا اور عادل ہے” 1 یوحنا 9:1۔ جب غلطی کی درستی ہو گی پھر ہم بیمار کی ضرورت خُدا کے سامنے ایمان کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں جیسے بھی اس کی روح ہمیں ہدایت کرے۔ چونکہ خُداوند کی محبت بڑی عظیم ہے اس لیے مریض کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ خُدا پر اعتماد رکھے اور خوشی منائے۔ جو اپنے بارے میں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں ان کو بیماری اور کمزوری دبا لیتی ہے۔ اگر وہ مایوسی اور اداسی کو خاطر میں نہ لائیں تو ان کی شفایابی کے بہتر مواقع ہیں۔ SKC 156.3

    “خُدا کی نگاہ ان پر ہے جو اس ڈرتے ہیں اور جو اس کی شفقت کے اُمیدوار ہیں” زبور 18:33۔ بیمار کے لیے دُعا کرتے ہوئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے۔ “جس طور سے ہمیں دعا کرنا چاہیے ہم نہیں جانتے” رومیوں 26:8۔ ہم نہیں جانتے کہ جو برکات ہم مانگ رہے ہیں وہ بہترین ہوں گی یا نہیں۔ اس لیے دعا میں یہ خیال کر لیا جائے۔ خُداوند خُدا تو ہر روح کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ یسوع مسیح جو ان کا درمیانی ہے اس نے ان کے لیے اپنی جان دی ہے۔ اس کی محبت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس لیے اے خُداوند اگر یہ تیرے جلال اور بزرگی کا سبب ہے تو یہ بیمار یسوع مسیح کے نام میں شفا پا لیں۔ اور اگر یہ تیری مرضی نہیں کہ یہ شفا پائیں تو ہماری منت ہے کہ تیرا فضل انہیں اطمینان دے اور تیری حضوری اُن کے شامل حال رہے۔ SKC 156.4

    خُداوند خُدا ابتدا سے انتہا تک جانتا ہے۔ وہ سب انسانوں کے دلوں سے واقف ہے۔ وہ آدمی کے دل کی پوشیدہ باتوں کو بھی پڑھ سکتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جن کے لیے دعا کی جا رہی ہے اگر وہ زندہ رہیں تو ان مصیبتوں کو جو ان پر آنے والی ہیں ان کو برداشت بھی کر سکیں گے یا نہیں۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ان کی زندگیاں خود ان کے اور دُنیا کے لیے برکات کا باعث ہوں گی یا لعنت کا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی التجا خُداوند کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہمیں یہ کہنا چاہیے “میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو” لوقا 42:22۔ یسوع مسیح نے باغ گتسمنی میں خود کو خُدا کی مرضی اور حکمت کے تابع کر کے یہی درخواست کی تھی “باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالا مجھ سے ٹل جائے۔ تو بھی نا جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہی ہو” متی 39:26۔ SKC 157.1

    اگر خُدا کے بیٹے کے لیے یہ کہنا مناسب تھا تو ہمارے لبوں سے جو خطاکار ہیں یہ التجا کرنا کتنی زیادہ مناسب نہ ہو گی؟ اس لیے بدستور ہمیں اپنی تمام خواہشات اپنے خُدا کی مرضی کے تابع کرنی چاہئیں جو حکمت سے معمور ہے۔ اور پھر پورے ایمان سے اُس میں اعتماد رکھیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جب ہم خُدا کی مرضی کے مطابق مانگتے ہیں تو وہ ضرور ہماری سنتا ہے۔ لیکن اپنی روح کو اس کے تابع کیے بغیر اپنی درخواست کا منظور ہونے پر زور دیتے جانا درست نہیں۔ ہماری دُعا شفاعت کا روپ دھارے نہ کہ خُدا کو حکم دینے کا۔SKC 157.2

    بعض دفعہ خُداوند خُدا الٰہی قدرت سے مریض کو قطعی شفا دے دیتا ہے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ تمام تک تمام مریض شفا نہیں پاتے۔ بعض یسوع مسیح میں سو جاتے ہیں۔ یوحنا عارف کو پرمس کے جزیرہ پر یہ حکم ہوا کہ لکھ “مبارک ہیں وہ مردے جو ایسے خُداوند میں مرتے ہیں۔ روح رماتا ہے بے شک! کیونکہ وہ اپنی محنتوں سے آرام پائیں گے اور ان کے اعمال ان کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں” مکاشفہ 12:13۔ اس سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی مریض صحت یاب نہ ہو تو یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس میں ایمان کی کمی تھی۔ SKC 157.3

    ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہماری دعاؤں کا جوب فوراً اور براہ راست مل جائے۔ جب جواب میں دیر ہو جائے یا جیسا ہم چاہتے تھے ویسا نہ ہو تو ہم سب ہی پست ہمت ہو جاتے ہیں۔ مگر خُداوند جو حکمت اور نیکی سے معمور ہے وہ ہماری دُعاؤں کا جواب ہماری بہتری کی صورت میں دیتا ہے نہ کہ ہماری خواہشات کے مطابق۔ ہماری خواہشوں کی تکمیل کی بجائے وہ ہمیں جو کچھ ہم نے مانگا ہے اس سے زیادہ اور بہتر عطا کرتا ہے اور چونکہ ہم اس کی حکمت اور محبت کا یقین کرتے ہیں تو ہمیں یہ نہ کہنا چاہیے کہ ہماری مرضی کے مطابق جواب دے۔ ہماری خواہشات اور دلچسپیاں اس کی مرضی کے مطابق ہونی چاہئیں۔ وہ تجرات جو ہمارے ایمان کی جانچ ہیں ہمارے ہی فائدے کے لیے ہیں۔ ان تجربات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آیا ہمارا ایمان سچا اور مخلص ہے جس کی بنیاد صرف خُدا کے کلام پر ہے یا حالات پر جو غیر یقینی اور بدلتے رہتے ہیں۔ مشق کرنے سے ہی ایمان کی مضبوطی ہوتی ہے۔ یہ یاد رکھتے ہوئے ہمیں صبر کو پورا کام کرنے دینا چاہیے جو خُداوند کا انتظار کرتے ہیں ان کے لیے کلام مقدس میں بڑے قیمتی وعدے ہیں۔ SKC 158.1

    سب تو ان اصولوں کو نہین سمجھتے۔ بہتیرے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ ہماری دعاؤں کا جواب ہمیں فوراً اور براہ راست ملنا چاہیے بصورت دیگر وہ سوچتے ہیں کہ ان کے ایمان میں کوئی خاص خامی ہے۔ اس وجہ سے جو بیماری سے کمزور پڑ گئے ہیں انہیں بڑی حکمت سے مشورہ دیا جائے کہ وہ بڑی ہوشیاری اور دوراندیشی سے عمل کریں اور اپنی صحت کی بحالی کے لیے فطرتی علاج معالجہ کو نظر انداز نہ کریں۔ SKC 158.2

    وہ سب دُعا کے زریعے شفا چاہتے ہیں انہیں اس علاج معالجہ سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے جو اُن کی پہنچ میں ہے ایسا علاج کرنے سے ہم ایمان سے انکاری نہیں ہو رہے کیونکہ خُداوند نے ہی درد کو دور کرنے اور فطرت کی مدد کرنے کے لیے یہ فطری علاج معالجے رکھے ہیں۔ خُدا کے ساتھ تعاون کرنا ایمان سے منحرف ہونا نہیں۔ جب ہم فطرت کے علاج معالجوں کو استعمال میں لاتے ہیں تو صحت کی بحالی بہت قریب ہوتی ہے۔ خُداوند نے یہ ہمارے ہاتھ میں کر دیا ہے کہ ہم زندگی کے قوانین کا علم حاصل کریں اور یہی علم خُدا نے ہماری رسائی میں کر دیا ہے تاکہ ہم اسے استعمال میں لائیں۔ فطری قوانین کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے تندرستی کے لیے جو کچھ میسر آئے گا ہمیں استعمال میں لانا چاہیے۔ اور اس سے ہر مکمن فائدہ اُٹھانا چاہیے، جب ہم نے مریض کی صحت کی بحالی کے لیے دُعا کر لی ہے تو پھر ہم دوسری قوتوں کو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ پہلے خُدا کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے ساتھ تعاون کرنے کا حق عطا فرمایا ہے اور صحت کی بحالی کے لیے جو کچھ اس نے مہیا کر دیا ہے اس کے لیے خُدا سے برکت چاہیں۔SKC 158.3

    ہمیں خُدا کے کلام کی طرف سے اجازت ہے کہ علاج معالجہ کے لیے جو کچھ میسر ہے اسے استعمال میں لائیں۔ بنی اسرائیل کا بادشاہ حزقیاہ جب بیمار پڑا اور خُدا کا نبی اس کے پاس یہ پیغام لے کر آیا کہ وہ اس بیماری کے سبب اس دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔ حزقیاہ بادشاہ خُدا کے حضور چلایا۔ اور خُدا نے اس کا رونا چلانا سنا اور اسے پیغام بھیجا کہ میں نے تیری زندگی میں پندرہ سال اور بڑھا دئیے ہیں۔ خُداوند کا تو صرف ایک لفظ بھی حزقیاہ کو شفا بخش سکتا تھا مگر خُدا نے اسے یہ خاص ہدایت جاری کی۔ “انجیر کی ٹکیہ لے کر پھوڑے پر باندھیں تو وہ شفا پائے گا” یسعیاہ 21:38۔ SKC 159.1

    ایک موقع پر یسوع مسیح نے نابینا شخص کی آنکھوں کو مٹی سے مسح کیا اور فرمایا “جاشیلوخ حوض میں دھو لے پس اس نے جا کر دھویا اور بینا ہو کر واپیس آیا” یوحنا 7:9۔ شفا صرف یسوع مسیح کی قدرت سے ہی مل سکتی ہے جو شفا کا منبع ہے۔ پھر بھی یسوع مسیح نے فطرت کی سادہ سی چیز کو استعمال کر کے نابینا شخص کو بینائی عطا فرمائی۔ اس نے کسی بڑے ڈرگ کی نہیں بلکہ فطرت کے سادہ سے علاج کی سفارش کی۔ SKC 159.2

    جب ہم مریض کے لیے دُعا کر چکے ہیں تو بے شک نتیجہ کچھ بھی کیوں نہ ہو آپ کا ایمان خُدا پر سے جاتا نہ رہے۔ اور اگر آپ کو کسی عزیز کی موت پر بُلایا جائے تو آئیے اس بات کو یاد رکھتے ہوئے کہ اس زہریلے پیالے کو قبول کریں کہ خُدا کے ہاتھ اس پیالے کو تھامے ہوئے ہیں جو ہمارے لبوں کو لگا ہے۔ لیکن اگر مریض صحت یاب ہو جاتا ہے تو شفا پانے والے کو یہ کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ وہ اب اپنے خالق کی تجدید شدہ ذمہ داری کے زیر بار ہے۔ جب دس کوڑھیوں نے شفا پائی صرف ان میں سے ایک یسوع مسیح کے پاس آیا اور شکر گزاری پیش کی۔ ہم میں سے کوئی بھی باقی نو کی طرح کے نہ ہو جنہوں نے شکر گزار کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ انہوں نے خُدا کی رحمت کی بے قدری کی۔ SKC 159.3

    “ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام اوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے اور نہ ہی گردش کے سبب اس پر سایہ پڑتا ہے۔” یعقوب 17:1۔ SKC 159.4

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents