Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    الہی بھیدوں کا کھوج لگانا

    “غیب کا مالک تو خداوند ہمارا خدا ہی ہے- پر جو باتیں ظاہر کی گئی ہیں وہ ہمیشہ تک ہمارے اور ہماری اولاد کے لئے ہیں- تاکہ اس شریعت کی سب باتوں پر عمل کریں” استثنا-29:29 SKC 308.3

    وہ مکاشفہ جو خداوند خدا نے اپنے متعلق کلام مقدس میں فرمایا ہے وہی ہمارے مطالعہ کے لئے ہے- اسی کو ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے- مگر اس سے زیادہ ہمیں سمجھنے کی ہرگز ضرورت نہیں کیونکہ اس میں خطرہ یہ ہے کہ اگر کوئی نہایت ہی زیرک، ذہین وفطین شخص خدا کی فطرت کے بارے اپنے دماغ میں اتنا کچھ بھر لے کہ بلاخر وہ بیزار ہو کر خدا کے بارے اٹکل پچو لگانا شروع کر دے تو کیا فائدہ- یہ مسلہ انسان کے حل کرنے کا نہیں ہے- کوئی انسانی دماغ خدا کے بارے نہیں سمجھ سکتا- اور خدا کی فطرت کے بارے کسی کو بھی قیاس آرائیوں سے کام نہیں لینا چاہیے- اس بارے خاموشی اختیار کرنا ہی عقلمندی ہے- وہ جو عالم الغیب ہے وہ ہماری دلیلوں سے کہیں برتر ہے- اس کے بارے بحث وتمحیض ہو ہی نہیں سکتی-SKC 308.4

    حتی کہ جب نجات کی تجویز بنی تو فرشتوں کو بھی اجازت نہ تھی کہ باپ اور بیٹے سکو مشورہ دیں- اس طرح کسی بشر کو حق حاصل نہیں کہ خداوند کے بھیدوں میں جھانک بھی سکے- جس طرح چھوٹے بچے خدا کے بارے کچھ نہیں جانتے اسی طرح ہم بھی لاعلم ہیں- مگر ہمیں چھوٹے بچوں کی طرح خداوند سے محبت کرنی چاہیے اور اس کا فرمان بجا لانا چاہیے- بجائے اس کے کہ ہم اسکی فطرت اور استحقاق کے بارے قیاس آرائیاں کریں، آئیے ہم اس کے کلام کی پیروی کریں جس طرح اس نے فرمایا ہے-SKC 308.5

    “کیا تو تلاش سے خدا کو پا سکتا ہے؟ کیا تو قادر مطلق کا بھید کمال کے ساتھ دریافت کر سکتا ہے؟ وہ آسمان کی طرح اونچا ہے- تو کیا کر سکتا ہے؟ وہ پاتال سے گہرا ہے- تو کیا جان سکتا ہے؟ اس کی ناپ زمین سے لمبی اور سمندر سے چوڑی ہے”ایوب -9-17:11 SKC 309.1

    “لیکن حکمت کہاں سے ملے گی؟ اور خرد کی جگہ کہاں ہے؟ نہ انسان اس کی قدر جانتا ہے- نہ وہ زندوں کی سرزمین میں ملتی ہے- گہراؤ کتنا ہے وہ مجھ میں نہیں ہے- سمندر کہتا ہے وہ میرے پاس نہیں- نہ ہو سونے کے بدلے مل سکتی ہے- نہ چاندی اس کی قیمت کے لئے تلے گی- نہ اوفیر کا سونا اسکا مول دہ سکتا ہے- اور نہ قیمتی سلیمانی پتھر یا نیلم، نہ سونا اور کانچ اسکی برابری کر سکتے ہیں- نہ چوکھے سونے کے زیور اس کا بدل ٹھہریں گے- مونگے اور بلور کا نام بھی نہ لیا جائے گا- بلکہ حکمت کی قیمت مرجان سے بڑھ کر ہے- نہ کوش کا پکھراج اس کے برابر ٹھہرے گا- نہ چوکھا سونا اس کا مول ہو گا- پھر حکمت کہاں سے آتی ہے؟ اور خرد کی جگہ کہاں ہے؟ جس حال کہ وہ سب زندوں کی آنکھوں سے چھپی ہے اور ہوا کے پرندوں سے پوشیدہ رکھی گئی ہے- ہلاکت اور موت کہتی ہے ہم نے اپنے کانوں سے اس کی افواہ تو سنی ہے- خدا اس کی راہ کو جانتا ہے- اور اس کی جگہ سے واقف ہے- کیونکہ وہ زمین کی انتہا تک نظر کرتا ہے- اور سارے آسمان کے نیچے دیکھتا ہے- تاکہ وہ ہوا کا وزن ٹھہرائے- بلکہ وہ پانی کو پیمانے سے ناپتا ہے- جب اس نے بارش کے لئے قانون اور رعد کی برق کے لئے راستہ ٹھہرایا- تب ہی اس نے اسے دیکھا اور اس کا بیان کیا- اس نے اسے قائم کیا بلکہ اسے ڈھونڈ نکالا- اور اس نے انسان سے کہا دیکھ خداوند کا خوف ہی حکمت ہے- اور بدی سے دور رہنا خرد ہے”ایوب -28-12:28 SKC 309.2

    نہ زمین کے کسی گوشے میں تلاش کرنے، اور نہ ہی خدا کی ہستی کا کھوج لگانے سے حکمت مل سکتی ہے- یہ سب کوششیں باطل ہیں- جو مکاشفہ خدا نے اپنی پاک مرضی سے دے رکھا ہے اسے بڑی عاجزی سے قبول کرنے اور ماننے سے خرد مل سکتی ہے-SKC 309.3

    بڑے سے بڑا دانشور بھی خدا کے ان بھیدوں کو جو فطرت میں پائے جاتے ہیں نہیں جان سکتا- خداوند کا پاک کلام کئی سوالات پوچھتا ہے جو دنیا کا کوئی بھی عالم فاضل جواب دینے سے قاصر ہے- اور یہ سوالات اس لئے نہیں پوچھے گئے کہ ہم ان کا جواب دیں، بلکہ ہماری توجہ خدا کے گہرے بھیدوں کی طرف مبذول کرائی گئی ہے- اور ہمیں یہ سکھانے کے لئے سوالات کئے گئے ہیں تاکہ انسان جانے کہ اسکی عقل، ادراک محددو ہے- کیونکہ بہت سی چیزیں اس کے اپنے اردگرد پائی جاتی ہیں جن کا اسے علم نہیں-SKC 309.4

    بے ایمان اس لئے خدا پر ایمان لانے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ اس بڑی قدرت کو جس کے ذریعے وہ خود سکو آشکارہ کرتا ہے سمجھنے سے قاصر ہیں- خداوند خدا کو ان چیزوں کے سبب سے بھی اسی طرح تسلیم کرنا چاہیے جن کے ذریعے اس نے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کیا- بلکل اسی طرح جیسے اس نے ہماری محدود سمجھ کے مطابق بعض چیزوں کے ذریعے خود سکو آشکارہ کیا- خواہ ہم کتنی ہی تحقیق وتفتیش کیوں نہ کریں- خواہ ہم کتنا ہی علم حاصل نہ کر لیں پھر بھی ہم انھیں سمجھنے سے قاصر رہیں گے-SKC 310.1

    “کس نے سمندر کو چلو سے ناپا اور آسمان کی پیمائش بالشت سے کی اور زمین کی گرد سکو پیمانہ میں بھرا- اور پہاڑوں کو پلڑوں میں وزن کیا- اور ٹیلوں سکو ترازو میں تولا؟ کس نے خداوند کی روح کی ہدایت کی یا اسکا مشیر ہو کر اسے سکھایا؟ اس نے کس سے مشورت کی ہے جو اسے تعلیم دے اور اسے عدالت کی راہ سمجھائے اور اسے معرفت کی بات بتائے اور اسے حکمت کیراہ سے آگاہ کرے؟ دیکھ قومیں ڈول کی ایک بوند کی مانند ہیں اور ترازو کی باریک گرد کی مانند گنی جاتی ہیں- دیکھ وہ جزیروں سکو ایک زرہ کی مانند اٹھ الیتا ہے- لبنان ایندھن کے لئے کافی نہیں اور اس کے جانور سوختنی قربانی کے لئے بس نہیں- سب قومیں اس کی نظر میں ہیچ ہیں بلکہ وہ اس کے نزدیک بطالت اور ناچیز سے بھی کمتر گنی جاتی ہیں- پس تم خدا سکو کس سے تشبیہ دو گے- اور کونسی چیز اس کے مشابہ ٹھہراؤ گے؟ تراشی ہوئی مورت! کاریگر نے اسے ڈھالا اور سنار اس پر سونا چڑھاتا ہے اور اس کے لئے چاندی کی زنجریں بناتا ہے- اور جو ایسا تہی ڈیایسٹی ہے کہ اس کے پاس نذر گزارنے کو کچھ نہیں وہ ایسی لکڑی چن لیتا ہے جو سڑنے والی نہ ہو- وہ ہوشیار کاریگر کی تلاش کرتا ہے تاکہ ایسی موت بنائے جو قائم رہ سکے- کیا تم نہیں جانتے؟ کیا تم نے نہیں سنا؟ کیا یہ بات ابتدا ہی سے تم کو بتائی نہیں گئی؟ کیا تم بنامی عالم سے نہیں سمجھے؟ وہ محیط زمین پر بیٹھا ہے اور اس کے باشندے ٹڈوں کی مانند ہیں- وہ آسمان کو پردہ کی مانند تانتا ہے اور اس کو سکونت کے لئے خیمہ کی مانند پھیلاتا ہے- جو شاہزادوں کو ناچیز کر ڈالتا ہے اور دنیا کے حکموں کو ہیچ ٹھہراتا ہے- وہ ہنوز لگائے نہ گئے وہ ہنوز بوۓ نہ گئے ان کا تنا ہنوز زمین میں جڑ نہ پکڑ چکا کہ وہ فقط ان پر پھونک مارتا ہے اور وہ خشک ہو جاتے ہیں اور گردبار انکو بھوسے کی مانند اڑا لے جاتا ہے- وہ قدوس فرماتا ہے تم مجھے کس سے تشبیہ دو گے؟ اور میں کس چیز سے مشابہ ہوں گا- اپنی آنکھیں اوپر اٹھاؤ اور دیکھو کہ ان سب کا خالق کون ہے- وہی جو ان کے لشکر کو شمار کر کے نکالتا ہے- اور ان سب سکو نام بنام بلاتا ہے- اسکی قدرت کی عظمت اور اس کے بازو کی توانائی کے سبب سے ایک بھی غیر حاضر نہیں رہتا”یسعیاہ-28-12:40 SKC 310.2

    آیئے خداوندتعالیٰ کی بڑائی کے بارے نبیوں کی زبانی سنیں اور سیکھیں جن کو روح القدس نے نمائندگی بخشی- یسعیاہ نبی لکھتا ہے----SKC 311.1

    “جس سال عزیاہ بادشاہ نے وفات پائی میں نے خداوند کو ایک بڑی بلندی پر اونچے تخت پر بیٹھے دیکھا اور اس کے لباس کے دامن سے ہیکل معمور ہو گئی. اور اس کے آس پاس سرافیم کھڑے تھے جن میں سے ہر ایک کے چھ بازو تھے اور ہر ایک دو سے اپنا منہ ڈھانپے تھا اور دو سے پاؤں اور دو سے اڑتا تھا- اور ایک نے دوسرے کو پکارا اور کہا قدوس، قدوس، قدوس رب الافوج ہے- ساری زمین اس کے جلال سے معمور ہے- اور پکارنے والے کی آواز کے زور سے آستانوں کی بنیادیں ہل گئیں اور مکان دھوئیں سے بھر گیا- تب میں بول اٹھا مجھ پر افسوس! میں تو برباد ہو! کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں- اور نجس لب لوگوں میں بستہ ہوں کیونکہ میری آنکھوں نے بادشاہ رب الافوج کو دیکھا- اس وقت سرافیم میں سے ایک سلگا ہوا کوئلہ جو اس نے دست پناہ سے مذبح پر سے اٹھا لیا اپنے ہاتھ میں لے کر اڑتا ہوا میرے پاس آیا- اور اس سے میرے منہ سکو چھوا اور کہا دیکھ اس نے تیرے لبوں کو چھوا- پس تیری بدکرداری دور ہوئی اور تیرے گناہ کا کفارہ ہو گیا” یسیعیاہ -7-1:6 SKC 311.2

    “اے خداوند! تو نے مجھے جانچ لیا اور پہچان لیا- تو میرا اٹھنا بیٹھنا جانتا ہے- تو میرے خیال کو دور سے سمجھ لیتا ہے تو مرے راستہ کی اور میری خواب گاہ کی چھان بین کرتا ہے- اور میری سب روشوں سے واقف ہے- دیکھ! میری زبان پر کوئی ایسی بات نہیں جسے تو اے خداوند! پورے طور پر نہ جانتا ہو- تو نے مجھے آگے پیچھے سے گھیر رکھا ہے- اور تیرا ہاتھ مجھ پر ہے- یہ عرفان مرے لئے نہایت عجیب ہے- یہ بلند ہے- میں اس تک نہیں پہنچ سکتا”زبور -6-1:139 SKC 311.3

    “ہمارا خداوند بزرگ اور قدرت میں عظیم ہے- اس کے فہم کی انتہا نہیں” زبور -5:147SKC 311.4

    “کیونکہ انسان کی آنکھیں خداوند کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور وہی اس کے سب راستوں کو ہموار بناتا ہے” امثال -21:5 SKC 311.5

    “وہ گہری اور پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ اندھیرے میں ہے اسے جانتا ہے اور نور اسی کے ساتھ ہے” دانی ایل -22:2SKC 311.6

    “یہ وہی خداوند فرماتا ہے جو دنیا کے شروع سے ان باتوں کی خبر دیتے آیا ہے” امثال -18:15SKC 312.1

    خداوند کی عقل سکو کس نے جانا؟ یا کون اسکا اصلاح کار ہوا؟ یا کس نے پہلے اسے کچھ دیا ہے جس کا بدلہ اسے دیا جائے؟ کیونکہ اس کی طرف سے اور اسی کے وسیلے سے اور اسی کے لئے سب چیزیں ہیں- اسکی تمجید ابھی ابد تک ہوتی رہے- آمین” رومیوں -36-34:11SKC 312.2

    “اب ازلی بادشاہ یعنی غیر قانونی نادیدہ واحد خدا کی عزت اور تمجید ابد الاباد ہوتی رہے- آمین”1 تیمتھیس -16:6 SKC 312.3

    “کیا اس کا جلال تمہیں ڈرا نہ دے گا- اور اسکا رعب تم پر چھا نہ جائے گا”؟ ایوب -11:13 SKC 312.4

    “کیا اسکی فوجوں کی کوئی تعداد ہے- اور کون ہے جس پر اس کی روشنی نہیں پڑتی؟”ایوب -3:25 SKC 312.5

    “وہ بڑے بڑے عجیب کام کرتا ہے جنکو ہم سمجھ نہیں سکتے- کیونکہ وہ برف کو فرماتا ہے کہ تو زمین پر گر- اسی طرح وہ بارش سے اور موسلادھار مینہ سے کہتا ہے- وہ ہر آدمی کے ہاتھ پر مہر کر دیتا ہے تاکہ سب لوگ جن کو اس نے بنایا ہے اس بات کو جان لیں- تب درندے غاروں میں گھس جاتے اور اپنی اپنی مانند میں پڑے رہتے ہیں- آندھی جنوب کی کوٹھڑی سے اور سردی شمال سے آتی ہے- خدا کے دم سے برف جم جاتی ہے- اور پانی کا پھیلاؤ تنگ ہو جاتا ہے- بلکہ وہ گھتا پر نمی کو لاتا ہے- اور اپنے بجلی والے بادلوں کو دور پھیلاتا ہے- اسی کی ہدایت سے وہ ادھر ادھر پھرائے جاتے ہیں- تاکہ جو کچھ وہ انکو فرمائے اسکو وہ دنیا کے آباد حصہ پر انجام دیں- خواہ تنبیہ کے لئے یا اپنے ملک کے لئے یا رحمت کے لئے وہ اسے بھیجے- اے ایوب اس کو سن لے- چپ چاپ کھڑا رہ اور اور خداوند کے حیرت انگیز کاموں پر غور کر- کیا تجھے معلوم ہے کہ خدا کیونکر انھیں تاکید کرتا ہے- اور اپنے بادلوں کی بجلی کو چمکاتا ہے؟ کیا تو بادلوں کے موازنہ سے واقف ہے؟ یہ اسی کے حیرت انگیز کام ہیں جو علم میں کامل ہے- جب زمین پر جنوبی ہوا کی وجہ سے سناٹا ہوتا ہے تو تیرے کپڑے کیوں گرم ہو جاتے ہیں؟ کیا تو اس کے ساتھ فلک سکو پھیلا سکتا ہے جو ڈھلے ہوۓ آئینہ کی طرح مضبوط ہے؟ ہم کو سکھا کہ ہم اس سے کیا کہیں کیونکہ اندھیرے کے سبب سے ہم اپنی تقریر کو درست نہیں کر سکتے- کیا اس سکو بتایا جائے کہ میں بولنا چاہتا ہوں؟ یا کیا کوئی آدمی یہ خواہش کرے کہ وہ نگل لیا جائے؟ ابھی تو آدمی اس نور کو نہیں دیکھتے جو افلاک پر روشن ہے- لیکن ہوا چلتی ہے اور انھیں صاف کر دیتی ہے- شمال سے سنہری روشنی آتی ہے- خدا مہیب شوکت سے ملبس ہے- ہم قادر مطلق کو نہیں پا سکتے- وہ قدرت اور عدل میں شاندار ہے- اور انصاف کی فراوانی میں ظلم نہ کرے گا- اس لئے لوگ اس سے ڈرتے ہیں- وہ دانا دلوں کی پرواہ نہیں کرتا” ایوب -24-5:37 SKC 312.6

    “خداوند ہمارے خدا کی مانند کون ہے- جو عالم بالا پر تخت نشیں ہے- جو فروتنی سے آسمان وزمین پر نظر کرتا ہے” ؟زبور -6-5:113 SKC 313.1

    “خداوند قہر کرنے میں دھیما اور قدرت میں بڑھ کر ہے اور مجرم سکو ہرگز بری نہ کرے گا- خداوند کی راہ گردباد اور آندھی میں ہے اور بدل اس کے پاؤں کی گرد ہیں” ناحوم-3:1 SKC 313.2

    “خداوند بزرگ اور بیحد ستائش کے لائق ہے- اسکی بزرگی ادرک سے باہر ہے- ایک پشت دوسری پشت سے تیرے کاموں کی تعریف اور تیری قدرت کے کاموں کا بیان کرے گی- میں تیری عظمت کی جلالی شان پر اور تیرے عجائب پر غور کروں گا- اور لوگ تیری قدرت کے ہولنات کاموں کا ذکر کریں گے- اور میں تیری بزرگی بیان کروں گا- وہ تیرے بڑے احسان کی یادگار کا بیان کریں گے- اور تیری صداقت کا گیت گائیں گے- خداوند رحم وکریم ہے- وہ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے- خداوند سب پر مہربان ہے- اور اس کی رحمت اس کی ساری مخلوق پر ہے- اے خداوند! تیری ساری مخلوق تیرا شکر کرے گی- اور تیرے مقدس تجھے مبارک کہیں گے- وہ تیری سلطنت کے جلال کا بیان اور تیری شفقت کا چرچا کریں گے- تاکہ بنی آدم پر اس کی قدرت کے کاموں اور اس کی سلطنت کے جلال کی شان سکو ظاہر کریں- تیری سلطنت ابدی سلطنت ہے- اور تیری حکومت پشت در پشت- خداوند گرتے ہوۓ کو سنبھالتا اور جھکے ہوۓ کو اٹھا کھڑا کرتا ہے- سب کی آنکھیں تجھ پر لگی ہیں- تو ان سکو وقت پر ان کی خوراک دیتا ہے- تو اپنی مٹھی کھولتا ہے اور ہر جاندار کی خواہش پوری کرتا ہے- خداوند اپنی سب راہوں میں صادق اور اپنے سب کاموں میں رحیم ہے- خداوند ان سب کے قریب ہے جو اس سے دعا کرتے ہیں- جو اس سے ڈرتے ہیں وہ ان کی مراد پوری کرے گا- اور ان کی فریاد سنے گا-خداوند اپنے سب محبت رکھنے والوں کی حفاظت کرے گا- لیکن سب شریروں کو ہلاک کر ڈالے گا- میرے منہ سے خداوند کی ستائش ہو گی- او ہر بشر اس کے پاک نام کو ابد الاباد مبارک کہے”زبور -21-3:145 SKC 313.3

    جیسے ہم خداوند بارے زیادہ سے زیادہ سیکھتے ہیں اور یہ بھی کہ اس کی نظر میں ہماری کیا قدر ومنزلت ہے تو ہمیں اس کے سامنے خوف کھانا اور تھرتھرانا چاہیے- ہمیں ان قدیم زمانہ کے لوگوں سے سبق سیکھنا چاہیے جنہوں نے خدا کی مقدس ٹھہرائی ہوئی چیزوں کی پرواہ نہ کرتے ہوۓ من مانی کی- آپ کو یاد ہو گا کہ جب فلسطیوں کی سر زمین سے عہد کا صندوق لایا جا رہا تھا تو اسرائیلیوں نے اس کے اندر جھانکا- اس بیحرمتی کی انھیں بڑی سخت سزا دی گئی-SKC 314.1

    اور پھر عزیاہ کی غلطی کی سزا موت ٹھہری جو اس نے فورا پائی- ہوا یہ کہ جب داؤد کے دوران حکومت عہد کا صندوق یروشلیم لایا جا رہا تھا تو بیلوں نے ٹھوکر کھائی اور صندوق سکو گرنے سے بچانے کے لئے عزیاہ نے سہارہ دیا- عہد کے صندوق کو چھونا منع تھا مگر اس نے اس بات کی پرواہ نہ کی- اس کے اس بے باک گناہ کے سبب خداوند نے اسے وہیں ڈھیر کر دیا-SKC 314.2

    جلتی جھاڑی سکو دیکھ کر موسیٰ اس کا نظارہ کرنے کو گیا مگر یہ محسوس نہ کیا کہ اس میں خدا کی حضوری ہے- لہذا خداوند نے اسے حکم دیا-SKC 314.3

    “ادھر مت آ- اپنے پاؤں سے جوتا اتار کیونکہ جس جگہ تو کھڑا ہے وہ مقدس زمین ہے- موسیٰ نے اپنا منہ چھپایا کیونکہ وہ خدا پر نظر کرنے سے ڈرتا تھا”خروج -6-5:3 SKC 314.4

    “اور یعقوب بیر سبع سے نکل کر حاران کی طرف چلا- اور ایک جگہ پہنچ کر ساری رات وہیں رہا کیونکہ سورج ڈوب گیا تھا اور اس نے اس جگا کے پتھروں میں سے ایک اٹھا کر اپنے سرہانے دھر لیا اور اس جگہ سونے کو لیٹ گیا- اور خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ ایک سیڑھی زمین پر کھڑی ہے اور اسکا سر آسمان تک پہنچا ہوا ہے اور خدا کے فرشتے اس سے چڑھتے اترتے ہیں- اور خداوند اس کے اوپر کھڑا کہہ رہا ہے کہ میں خداوند تیرے باپ ابرہام کا خدا اور اضحاک کا خدا ہوں- میں یہ زمین جس پر تو لیٹا ہے تجھے اور تیری نسل کو دوں گا- اور تیری نسل زمین کی گرد کے ذروں کی مانند ہو گی اور تو مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیل جائے گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے اور تیری نسل کے وسیلہ سے برکت پائیں گے- اور دیکھ میں تیرے ساتھ ہوں اور ہر جگہ جہاں کہیں تو جائے تیری حفاظت کروں گا اور تجھ کو اس ملک میں پھر لاؤں گا- اور جو میں نے تجھ سے کہا ہے جب تک اسے پورا نہ کر لوں تجھے نہ چھوڑوں گا- تب یعقوب جاگ اٹھا اور کہنے لگا یقینا خداوند اس جگہ ہے اور مجھے معلوم نہ تھا- اور اس نے ڈر کر کہا یہ کیسی بھیانک جگہ ہے! سو یہ خدا کے گھر اور آسمان کے آستانہ کے سوا اور کچھ نہ ہو گا” پیدائش -17-10:28SKC 314.5

    بیابان میں خیمہ اجتماع اور ہیکل زمین پر خدا کی سکونت گاہ کی علامت تھیں- ان میں ایک مقام خداوند کے لئے وقف تھا جہاں اسکی حضوری ہوا کرتی تھی- پاک ترین مقام جہاں خدا کی حضوری ہوتی تھی اسے ایک پردہ جس پر کروبیوں کی تصاویر بنی تھیں علیحدہ کرتا تھا- صرف ایک شخص کے سوا کسی اور کو حق نہ تھا کہ اس پردے سکو ہٹائے- اگر کوئی حکم عدولی کرتا اور خدواند کے مقدس بھیدوں کو جاننے کے لئے سینہ زوری کرتا تو اسکی سزا موت تھی- کیونکہ رحم کی کرسی کے اوپر خدا کا جلال نمودار رہتا تھا- ایسا جلال جس پر کوئی شخص نگاہ کر کے زندہ نہ رہ سکتا تھا- مگر صرف سال میں ایک دن سردار کاہن اس پاک ترین مقام میں ڈرتا اور تھرتھراتا ہوا خدمت کے لئے حاضر ہوتا تھا- خداوند کے جلال سکو بخور کا ڈھون چھپا لیتا تھا تاکہ سردار کاہن کی اس پر نظر نہ پڑے- جب سردار کاہن پاک ترین مقام میں داخل ہوتا تو تمام حاضرین جو ہیکل میں موجود ہوتے ان پر خوف اور سکوت طاری رہتا- اس دوران مذبح پر کوئی کاہن بھی خدمت ادا نہ کرتا- عبادت گزار اپنی التجائیں خداوند کے حضور ڈرتے کانپتے اور بڑی خاموشی کے ساتھ گزارتے- اور خداوند کے رحم کے ملتجی رہتے-SKC 315.1

    “یہ باتیں ان پر عبرت کے لئے واقع ہوئیں اور ہم آخری زمانہ والوں کے نصیحت کے واسطے لکھی گئیں”1 کرنتھیوں -11:10 SKC 315.2

    “خداوند اپنی مقدس ہیکل میں ہے- ساری زمین اس کے ہزار خاموش رہے” حبقوق -20:2 SKC 315.3

    “خداوند سلطنت کرتا ہے- قومیں کانپیں- وہ کروبیوں پر بیٹھتا ہے زمین پر نہیں- خداوند صیون میں بزرگ ہے- اور وہ سب قوموں پر بلند وبالا ہے- وہ تیرے بزرگ اور مہیب نام کی تعریف کریں- وہ قدوس ہے” زبور -3-1:99 SKC 315.4

    “خداوند اپنی مقدس ہیکل میں ہے- خداوند کا تخت آسمان پر ہے- اسکی آنکھیں بنی آدم کو دیکھتی ہیں- اور اسکی پلکیں انکو جانچتی ہیں”زبور -4:11 SKC 315.5

    “کیونکہ اس نے اپنے مقدس کی بلندی پر نگاہ کی- خداوند نے آسمان پر سے زمین پر نگاہ کی”زبور -19:102SKC 315.6

    “اپنی سکونت گاہ سے وہ زمین کے سب باشندوں کو دیکھتا ہے- وہی ہے جو ان سب کے دلوں سکو بناتا اور ان کے سب کاموں کا خیال رکھتا ہے”زبور -15-14:33SKC 316.1

    “ساری زمین خداوند خدا سے ڈرے- جہان کے سب باشندے اس کا خوف رکھیں”زبور -8:33SKC 316.2

    انسان اپنی کوشش تفتیش وتحقیق اور تلاش کرنے سے خداوند سو نہیں پا سکتا- کسی کو بھی اپنی من مانی کر کے اس پردہ سکو نہیں ہٹانا چاہیے جو خداوند کے جلال کو چھپائے ہوۓ ہے-SKC 316.3

    “وہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اس کے فیصلے کس قدر ادراک سے پڑے اور اس کی راہیں کیا ہی بے شان ہیں”!رومیوں -33:11SKC 316.4

    یہ اس کے رحم کی بہت بڑی دلیل ہے کہ اس نے اپنی قدرت سکو چھپائے رکھا- کیونکہ اس کے جلال، حضوری اور قدرت کو کوئی نہیں دیکھ سکتا- اور جو دیکھ لے وہ زندہ نہیں رہ سکتا- اس لئے کوئی بھی فانی انسان خدا کی رہائش گاہ اور اس کی صنعت گری سے واقف نہیں ہو سکتا- ہاں البتہ وہ ہم پر خود کو اتنا ہی ظاہر کرتا ہے جتنا وہ مناسب جانتا ہے کہ ہم انسان اسے سمجھ اور جان سکتے ہیں-SKC 316.5

    انسانی فہم وادراک کے لئے یہ کافی ہے کہ اس بزرگ وبرتر ہستی کو تسلیم کر کے اس کے سامنے سربسجود ہو جائے جس نئی فرمایا “میں ہوں سو ہوں”-SKC 316.6

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents