Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    سینتسواں باب - بچہ

    صرف ماں کی عادات ہی نہیں، بلکہ جو فرشتہ نے عبرانی والدین کو ہدایت کی اُس میں بچے کی تربیت بھی شامل تھی۔ بچہ سمُسون جس نے بنی اسرائیل کی رہائی کا باعث بننا تھا۔ اُس کے لئے صرف یہی کافی نہ تھا کہ اپنے والدین سے پیدائش کے وقت اچھی عادات کا ترکہ یا میراث پاتا۔ بلکہ یہ سب کچھ اچھی تربیت کے بعد کا کام تھا۔ شیر خوارگی کے زمانے سے اُسے پرہیز گاری کی سخت تربیت پانا لازم تھا۔SKC 268.1

    یوحنا بپتسمہ دینے والے کے بارے بھی اس طرح کی ہدایات دی گئیں۔ بچے کی پیدائش سے پہلے بات کو جو پیغام آسمان سے وصول ہوا یہ تھا-SKC 268.2

    “تجھے خوشی و خرمی ہو گی اور بہت سے لوگ اُس کی پیدائش کے سبب سے خوش ہوں گے۔ کیونکہ وہ خُداوند کے حضور میں بزرگ ہو گا اور ہرگز نہ مے نہ کوئی شراب پئے گا اور اپنی ماں کے بطن ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا۔” لوقا15,14:1۔SKC 268.3

    نجاب دہندہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے بارے فرماتا ہے کہ تمام شریف و نجیب لوگوں میں کوئی بھی آسمانی بارگاہوں میں یوحنا سے بڑا نہ ہو گا۔ جو کام اُسے سونپا گیا تھا۔ وہ صرف جسمانی، قوت اور بردباری اور مستعدی کا ہی مطالبہ نہ تھا بلکہ اُس کے لئے روحانی اور دماغی اعلےٰ خصوصیا ت درکار تھیں۔ اس کام کی تیاری کے لئے صحیح جسمانی تربیت نہایت ضروری تھی۔ اس لئے آسمان سے بڑا معتبر فرشتہ بھیجا گیا تاکہ بچے کے والدین کو ہدایات بہم پہنچائے۔SKC 268.4

    عبرنی بچوں کے بارے دی گئی ہدایت اور رہنمائی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جو کچھ بھی بچے کی جسمانی بھلائی پر اثر انداز ہو اُس سے ہمیں غفلت نہیں پرتنا چاہیے۔ کیونکہ جو کچھ جسمانی صحت پر اثرنداز ہوتا ہے وہی ذہن اور کردار پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔SKC 268.5

    بچے کی ابتدائی تربیت پر بہت زیادہ زور نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن یاد رکھیں شیرخوارگی اور بچپن کے سیکھے ہوئے اسباق اور اپنائی ہوئی عادات ہی اُس کی سیرت اور کردار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور یہی زندگی کی راہ متعین کرتی ہیں نہ کہ آنے والے زمانے کی تربیت۔SKC 268.6

    والدین کی اُس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اُنہیں اُن اصولوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو بچے کی تربیت اور دیکھ بھال میں اشد ضروری ہیں۔ والدین کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اُن کو ذہنی، جسمانی اور اخلاقی پرورش کر سکیں والدین کو فطرت کے ضابطوں کا گہرا مشاہدہ کرنا چاہیے۔ اُنہیں انسانی نظام بدن سے بخوبی آگاہی ہونی چاہیے۔ اُنہیں مختلف اعضاء کے عمل کا علم ہونا چاہیے اور یہ بھی کہ اُن کا ایک دوسرے کے ساتھ کیا ناطہ ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ کس طرح ایک دوسرے کے اُوپر انحصارکرتے ہیں۔ انہیں مطالعہ کرنا چاہیے کہ ذہن کا تعلق جسمانی قوتوں کے ساتھ کیا ہے اور یہ بھی کہ ہر ایک کو صحتمند کارکردگی کے لیے کیا درکار ہے۔ ایسی تیاری اور واقفیت کے بغیر والیدن کی ذمہ داریاں قبول کرنا گناہ ہے۔SKC 269.1

    بیماری، موت، تنزلی جو آج کل کی تہذیب یافتہ دُنیا میں بھی پائی جاتی ہے اس کی طرف بہت ہی کم دھیان دیا جاتا ہے۔ نِسل انسانی زوال پزیر ہو رہی۔ بہت سے بچے شیر خوارگی میں ہی لُقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اور جو لڑکے اور لڑکیاں سِن بلوغت کو پہنچتی ہیں اُن میں زیادہ تر بیماری کے ہاتھوں دُکھ پا رہے ہوتے ہیں۔ بہت کم پختہ عمر کو پہنچتے ہیںSKC 269.2

    بہت سی ایسی بُرائیاں جو یہ تباہی لاتی ہیں اُن سے بچا جا سکتا ہے۔ اور ان سے نپٹنے کے لئے جو قوت درکارہے وہ والدین میں پائی جاتی ہے کہ کوئی پوشیدہ حوالے نہیں جو بچوں کو لُقمہ اجل بنا لیتی ہے۔ خداوند نہیں چاہتا کہ اُن کو موت آئے وہ اُن کو والدین کے کارسازی اس لئے کرتا ہے تاکہ وہ اُنہیں تربیت دے کر اس دُنیا کے لئے مفید انسان بنائیں نیز آسمان کے لئے اُنہیں تیار کریں، کیا والدین ایسا کرتے ہیں تاکہ بچوں کو اچھی میراث دیں؟ اور اگراُن کی پیدائش میں کہیں غلطی ہو گئی ہے تو اُسے درست کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا ہو تا دُنیا کتنی اچھی ہو جائے۔SKC 269.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents