Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    تیتسواں باب - خاندان کی خدمت

    انسانیت کی بحالی اور سرفرازی گھر سے ہی شروع ہوتی ہے۔ والدین کی خدمت سب کاموں پر سبقت رکھتی ہے۔ معاشرہ خاندانوں سے ملکر جنم لیتا ہے۔ اور معاشرہ ویسا ہی تیار ہوتا ہے جیسا کہ گھر کے سربراہ اُسے بنا دیتے ہیں۔ لکھا ہے کہ“ اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سر چشمہ وہی ہے” امثال23:4 ۔SKC 246.1

    کسی قوم، کلیسیا یا معاشرے کا دل گھرانہ ہوتا ہے۔ معاشرے کی بھلائی، کلیسیا کی کامیابی اور قوم کی ہنر مندی کا انحصار گھر کے اخلاقی اور روحانی اثر ورسوخ پر ہے۔SKC 246.2

    گھریلو زندگی کی اہمیت اور ُاس کے نیک ساعت مسیح خُداوند کی زندگی میں واضح اور روشن ہوتی ہے۔ وہ جو آسمان سے ہمارا نمونہ اور اُستاد ہو کر آیا اُس نے ناصرة کے گھرانے مین تیس سال تک خاندان کے رُکن کے طور پر گزارے۔ بائبل مقدسہ میں اس عرصہ کی بہت کم تحریر ملتی ہے۔ بڑے بڑے معجزے بھی بھیڑ کو متاثر نہ کر سکے۔ تاہم اس سارے دورانیہ میں وہ اپنے مشن کی تکمیل میں مصروف رہا۔ اُس نے ہماری طرح گھر میں مل جل کر دوسروں کے ساتھ زندگی بسر کی۔ گھر کے نظم و ضبط کی پابندی کی۔ گھر کی ذمہ داریاں پوری کیں۔ ایک معمولی سے گھر میں وہ بالکل ہماری طرح رہااور“قدوقامت میں خُدا کی اور انسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا”لوقا52:2۔SKC 246.3

    اس تمام عرصہ مین اُس نے غمخواری اور ہمدردی دکھائی۔ اُس کی پُر خلوص نیت، صبر، برداشت، اُس کی دلیری، اُس کی وفاداری، آزمائش کے خلاف مزاحمت اُس کی ناتمام سکون اور شادمانی مستقل طور پر دوسروں کو فیض پہنچاتا تھا۔ اُس نے گھر میں پاکیزہ اور شیریں ماحول پیدا کیا۔ اُس کی زندگی معاشرے کے اندر اس طرح کام دیتی تھی جیسے خمیر۔ اُس کے حُسن سیرت سے شفا اور زندگی بخش محبت کی طاقت آزمائشوں میں پڑے ہوۓ لوگوں، بیماروں اور جن کے دل ٹوٹ چکے تھے ان تک پہنچی- بچپن سے ہی اس نے دوسروں کی خدمت کی۔ اسی لئے جب اُس نے اپنی خدمت کا آغاز کیا تو بہتوں نے خوشی سے اُس کی سنی۔SKC 246.4

    خُدا وند یسوع مسیح کی ابتدائی زندگی عام نوجوانوں کے نمونہ سے مختلف اور بڑھ کر تھی۔ اُس کا نیک نمونہ ہر ایک والدین کے لئے ہمت افزائی کا سبب ہونا چاہیے۔ وہ لوگ جو اپنے بھائی بندوں کی سرفرازی کے لئے کام کرنے کے خواہاں ہیں اُن کے لئے بہتر ہے کہ وہ اپنے خاندان اور پڑوسیوں سے شروع کریں۔ گھر کے سربراہ کے ذمہ جو کام لگایا گیا ہے اس سے بہتر کسی اور شعبہ میں کام نہیں۔ اور نہ ہی اُس کام کے نتائج سے کوئی اور کام بہتر نتائج کا حامل ہے جو والدین کو سونپا گیا ہے۔SKC 247.1

    مستقبل کا زیادہ تر انحصار ان نوجوانوں پر ہے۔ اور ان نوجوانوں اور بچوں کا انحصار گھر کی تعلیم و تربیت پر ہے ۔ دیکھا جائے تو آج انسانیت کو جن مصائب اور جرائم اور بیاریوں کا سامنا ہے۔ اُس کی وجہ خاندانوں میں تربیت کی کمی ہے۔ اگر گھر میں بچوں کی زندگی نیک اور راست ہو گی تو بچے تربیت حاصل کر کے جب دُنیا کے خطرات کا سامنا کرنے کے لئے باہر آئیں گے تو پھر دُنیا یقینا بڑی فرق ہو گی؟SKC 247.2

    بدعادات کے حامل نوجوانوں کی اصلاح کے لئے کئی ادارے قائم کئے جاتے ہیں۔ ان پر بے حساب پیسہ صرف کیا جات ہے۔ اس کے باوجود بہت ہی کم خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔SKC 247.3

    بے شمار لوگ بہتر زندگی کی تمنا کرتے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جوبُری عادات کو توڑنے کی ہمت اور عہد کرتے ہیں۔ بلکہ جس جدوجہد، کوشش اور قربانی کا مطالبہ ہے اُس قربانی کو دینے سے جی چراتے ہیں۔ لہٰذا اُن کی زندگیاں تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہیں۔SKC 247.4

    حتیٰ کہ اعلی ذہن و دماغ کے مالک، عالی ہمت انسان، شریف زادے بھی بُری عادات کے ہاتھوں رسوا ہو چکے ہیں۔ نیز نہ اس زندگی کے قابل رہے ہیں نہ آنے والی زندگی کے۔ اگر وہ بری لت اور بُری خصلتوں کے شکار نہ ہوتے تو آج اعلےٰ مراتب پر فائض ہوتے، اعلےٰ تعلیم پاتے اور ذمہ دار اشخاص مانے جاتے ہیں ۔SKC 247.5

    اور جن کی اصلاح ہو جاتی ہے اُنہیں کتنے تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے آدمیت کے درجے کو دوبارہ حاصل کریں۔ وہ اپنی تمام عمر لڑکھڑاتی خصلت، ڈگمگاتی قوت ارادی، خراب عقل اور ناتواں روح کے ساتھ دن گزارتے ہیں۔ اور جو اُنہوں نے بدکاری کی فصل بوئی تھی وہی کاٹتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو اگر بدی کے شروع ہوتے ہی (یعنی گھر میں) اُس سے نپٹ لیا جائے۔ اگر ایسا ہو تو نتائج شاندار ہوں گے۔SKC 247.6

    اس کام کی زیادہ تر زمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ بد پرہیزی اور اس طرح کی دوسری برائیاں جو معاشرے کو سرطان کی طرح کھا رہی ہیں اُن کو ختم کرنے سے پہلے والدین کو سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوں کی عادات اور سیرت کو کس طرح اُستوار کریں۔ وہ عادت جسے بدی کی قوت بڑے ہولناک طریقے سے استعمال کرتی ہے، اُسی قوت کو والدین بڑی آسانی سے بھلائی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ابھی ان کے بس میں ہے۔ مگر پہلے اُنہیں بدی کا سوتا ڈھونڈنا ہوگا تا کہ اُس کا رُخ سیدھی راہ پر گامزن ہو سکیں۔SKC 248.1

    والدین اپنے بچوں کے لئے خوشی و خرمی اور صحت و تندرستی کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔ وہ اُنہیں قوت، ہمت، دلیری اور اخلاقی قوتوں سے لیس کر کے زندگی کی آزمائش اور مسائل سے دوچار ہونے کے لئے گھر سے باہر بھیج سکتے ہیں۔ وہ اُنہیں سکھا سکتے ہیں کہ اپنی زندگیوں کو اس طرح استوار کرو کہ خُداوند کو جلال پہنچے، اور دُنیا ان کے سبب سے برکت پائے۔ پھر نوجوان یقینا اپنے قدموں کے لئے اس دُنیا کر سردوگرم، غمی اور مسرت میں بھی صراطِ مستقیم ڈھونڈ لیں گے۔SKC 248.2

    گھر کا مقصد حیات صرف اس کے ارکان تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ گھر سے باہر دور بہت دور تک وسیع ہوتا ہے۔ مسیحی گھر ایک زندہ مثال ہوتا ہے جو زندگی کے حقیقی اُصولوں کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ اس طرح کے نمونہ کی قوت دُنیا کے لئے بہت بہتر ہو گی۔ اور ایسے گھر کا اثر تقریر سے بھی کہیں بڑھ کر ہو گا جو انسانوں کے دلوں اور زندگیوں کو تبدیل کرنے کے لئے ادا کی جاتی ہے۔ ایسے گھروں سے جب بچے اور بیچیاں باہر دُنیا میں نکلتے ہیں تو وہ سبق جو اُنہوں نے اپنے گھروں میں سیکھا ہوتا ہے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ یوں معاشرے میں ترقی اور بھلائی اثر پذیر ہوتی ہے۔SKC 248.3

    کئی اور بھی ہیں جن کے لئے ہم اپنے گھرانے کو برکت کا باعث بنا سکتے۔ دُنیا کے رسم و رواج کے مطابق ہمیں دولت مندوں کی خاطر و مدارت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یسوع مسیح کی روح اور اُس کے کلام کی تعلیم کے مطابق اسرائیلوں کو اپنے تمام مذہبی تہواروں کے دوران غریبوں، اجنبیوں اور لاویوں کو شامل کرنا ہوتا تھا جو ہیکل میں کاہنوں اور مشزیوں کی مدد کرتے تھے۔ لوگ ان کے ساتھ مہمانوں کا سا سلوک کرتے تھے۔ اُن کی حاجتوں کو پورا کرتے تھے اور اگر کوئی بیمار ہوتا تو اُس کی تیمارداری کرنا بھی اسرائیل کا فرض ہوتا تھا۔ ایسوں کو ہمیں بھی اپنے گھروں میں دعوت دینی چاہیے۔ مشنری، نرسز اور اساتذہ کوSKC 248.4

    جب ہم خوش آمدید کہیں گے تو وہ کتنے خوش ہوں گے؟ اور وہ جو بوجھ تلے دبے ہیں۔ محنت مشقت سے چور مائیں، یا نحیف ونزار بزرگ جو بے گھر اور بے آسرا ہیں، جو مفلسی سے جدوجہد کرتے کرتے پست ہمت ہو چکے ہیں۔ جب ایسوں کو اپنے گھروں میں بلائیں گے تو کیا اُن کی خوشیاں دوبالا نہ ہوجائیں گی؟SKC 249.1

    یسوع نے فرمایا “جب تو دن کا یا رات کا کھانا تیارکرے تو اپنے دوستوں یا بھائیوں یا رشتہ داروں یا دولتمند پڑوسیوں کو نہ بلا تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ بھی تجھے بلائیں اور تیرا بدلہ ہو جائے۔ بلکہ جب تو ضیافت کرے تو غریبوں، لُنجوں، لنگڑوں اور اندھوں کو بلا۔ اور تجھ پر برکت ہو گی۔ کیونکہ اُن کے پاس تجھے بدلہ دینے کو کچھ نہیں اور تجھے راستبازوں کی قیامت میں بدلہ ملے گا”لوقا14-14:12 ۔SKC 249.2

    ایسے مہمانوں کو دعوت دینے سے آپ پر کوئی زائد بوجھ نہیں پڑے گا۔ نہ ہی اُن کی خاطر تواضع پر آپ کو کوئی مہنگے کھانے پینے کا اہتمام کرنا پڑے گا۔SKC 249.3

    ناداروں کو خوش آمدید کہنا، اپنی میز پر اُن کو دعوت دینا اور دُعائیہ وقت اُن کے ساتھ خُدا کی برکات بانٹنا بہتوں کے لئے بہشت کے نظارے سے کم نہ ہو گا۔ ہماری غمخواری کا احاطہ اپنے گھرانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ جو اپنے گھر کو دوسروں کے لئے برکت کا باعث بناتے ہیں باعث برکت ٹھہرتے ہیں۔ میل جول ایک شاندار اور عجیب و غریب قوت ہے۔ ہم اس حق کو اُسی وقت میں استعمال کر سکتے ہیں جب ہم دوسروں کی مدد کریں گے۔SKC 249.4

    وہ نوجوان جو آزمائشوں کے نرغے میں ہیں اُن کے لئے ہمارے گھر پناہ گاہ ہونے چاہئیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہر خیال، تصور یا گمان، ہر روحانی یا اخلاقی اثر دونوں جہاں میں اُن کی زندگی کو سنوارنے یا بگاڑنے کے لئے کافی ہے۔ بدی اُنہیں دعوت دیتی ہے۔ اس کے ٹھکانے خوبصورت اور دلکش بنے ہوئے ہیں۔ بدی ہر آنے جانے والوں کو خوش آمدید کہتی ہے۔ ہمارے ارد گرد کتنے نوجوان ہیں جن کے پاس گھر ہی نہیں۔ یا انھیں گھر سے کوئی مدد ہی نہیں مل سکتی کہ انکی سرفرازی کی سبب ہو- لہٰذا بدی ان نوجوانوں کو اُڑا لے جاتی ہے وہ ہمارے گھروں کے دروازوں کے پاس ہی بدی میں غرق ہو جاتے ہیںSKC 249.5

    ان نوجوانوں کو کوئی مددگار کوئی غمخوار چاہیے جو اُن کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ سادا مگر مشفقانہ کیا ہوا کلام، اور معمولی توجہ ان نوجوانوں کی روح پر سے آزمائشوں کے گھمبیر بادل دور کر دے گی۔ حقیقی اظہار ہمدردی میں یہ قوت ہے کہ اُن کے دلوں کے دروازے کھول دے جن کو میسح کے کلام اور محبت کی ضرورت ہے اگر ہم نوجوانوں میں دلچسپی دکھائیں گے، اُنہیں اپنے گھروں میں دعوت دیں گے اُنہیں خوش وخرم اور مدد گار روحانی ماحول عطا کریں گے تو اُن میں سے بہیترے پستی سے نکل کر بلندی و سرفرازی کی طرف بڑھیں گے۔SKC 249.6

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents