Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    آزمائش کے لئے نظم و ضبط کی تربیت

    ایسی زندگی بسر کرنا دوسروں پر تاثیر کرے سعی ، خود انکاری اور خود ضبطی کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور جو اس بات سے واقف ہیں وہ مسیحی اندگی میں بہ آسانی پست ہمت ہوجاتے ہیں۔ گوہ ایمانداری اور نیک نیتی سے اپنی زندگیاں خداوند خدا کی خدمت کے لئے مخصوص کرتے ہیں مگر ان مصائب، ناکامیوں اور آزمائشوں اور الجھنوں کو دیکھ کر حیران اور پریشان ہو جاتے ہیں جو ان کا راستہ روک لیتی ہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے انہیں اس کا تجربہ نہ تھا۔ انہوں نے تو سچے دل سے یہ دعا مانگی تھی کہ انہیں مسیح یسوع کا سا چال چلن مل جائے تاکہ وہ خدا کی خدمت کے قابل ٹھہیرں۔ مگر وہ ایسے حالات میں رکھے گئے جہاں ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ان کی فطرت کی تمام بدیاں اور بُرائیاں وہیں جمع ہوئی ہیں۔ ایسی ایسی خطاؤں سے آشنا ہوۓ جن کی موجودگی کا انہیں وہم وگمان نہ تھا۔ اسی لئے قدیم اسرائیلوں کی طرح انہیںخدا سے پوچھنا پڑا۔ “اگرخُدا وند ہماری رہنمائی کرتا ہے تو یہ سب کچھ ہم پر کیوں آتا ہے۔”؟SKC 344.5

    لیکن یہ اس لئے ہے کہ خداوند ان کی رہنمائی کرتا ہے کہ یہ چیزیں ان پر آئیں۔ آزمائش اور رکاوٹیں خداوند کا منتخب طریقہ کار ہے جن کے ذریعے وہ نظم وضبط کی تربیت اور کامیابی عطا کرتا ہے ۔ وہ جو انسانی دلوں کو جانتا اور پرکھتا ہے وہاس کی سیرت کو ان سے کہیں زیادہ سمجھتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ بعض میں زودِ حسی اور ایسی قوتیں موجود ہیں کہ اگر اُنہیں درست انداز میں استعمال کیا جائے تو وہ اشخاص خداوند کے کام کی ترقی کے لئے نہیایت کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ خداوند انہیں ایسے حالات سے دوچار کرتا ہے جہاں وہ اپنے چال چلن میں اپنی خامیاں تلاش کر لیتے ہیں۔SKC 345.1

    خداوند ان کو مواقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اس کی خدمت کے لئے ان نقائص سے پاک ہو جائیں جو ان میں پائے جاتے ہیں اکثر خداوند مصیبتوں کی آگ کو ان پر آنے دیتا ہے تاکہ وہ انہیں اپنے گھیرے میں لے کر ہر آلائش سے پاک کر دے۔SKC 345.2

    جب ہمیں مصائب برداشت کرنے لئے بلایا جاتا ہے تو حقیقت میں خدا ہم میں کوئی خوبی دیکھتا ہے جسے وہ ترقی دینا چاہتا ہے۔ اگر وہ ہم میں کچھ نہ دیکھے جو اس کے بزرگ نام کو جلال دینے کا سبب اوتو پھر وہ اپنچا وقت ہمیں مصفا کرنے پر کیوں ضائع کرے گا؟ وہ اپنی بھٹی می بیکار پتھر کو ہر گز نہ پھینکے گا۔ وہ تو صرف قیمتی دھات کو ہی جلا بکشتا ہے۔ لوہار لوہا اور فولاد کو بحتی میں اس لئے دالتا ہے تا کہ دھات کی پرکھ کیر سکے ۔ خداوند کریم بھی اپنے منتخب بچوں کو آزمائشوں اور مصیبتوں کی بھٹی میں ڈالتا ہے تا کہ جان سکے کہ ان کا مزاج کیسا ہے اور کیا سن کو اپنے کام کے لیے دھال بھی سکتا ہے یا نہیں۔SKC 345.3

    کمہار مٹی کو لے کر اسے اپنی مرضٰ کے مطابق جو بنانا چاہتا ہے بناتا ہے ۔ وہ اس گوندھتا اور اچھی طرح سے أتیار کرتا ہے۔ وہ اسے کوٹتا کچلتا اور نوچتاہے۔ کبھی اسے گیلا اور کبھی کشک کرتا ہے۔ اور کچھ دیر کے لئے اسے پڑا رہنے دیتا ہے اور چھوتا تک نہیں۔ اور جب یہ مٹی پوری طرح سے اس کے کام کے قابل ہو جاتی ہے تو پھر اس سے اپنی مرضیکا برتن بنا لیتا ہے۔SKC 346.1

    وہ اسے پہننے کے اوپر چڑھا کر کاٹتا چھاٹتا اور اسے جلا بخشتا ہے۔ پھر دھوپ میں خشک کر کے بھٹی کے اند پکاتا ہے۔ تب کر کام کے قابل برتن تیار ہوتا ہے ۔اسی طرح ہماراہ عظیم آقا ہمیں اپنی مرضٰ کے مطابق ڈھالتا اور شکل دیتاہے ۔ اور جس طرح مٹی کمہار کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس طرح ہم اس کے ہاتھ میں ہیں۔ ہمیں کمہار کا کام خود انجام نہیں دینا ہے۔ ہمار تو صرف یہ کام ہے کہ اپنے آپ کو خداوند کے تابع کریں تا کہ وہ ہمیں اپنی مرضی کے مطابق شکل دے۔SKC 346.2

    “اے پیارو! جو مصیبت کی آگ تمہاری آزمائش کے لئے تم بیا بھرکی ہے یہ سمجھ کر اس سے تعجب نہ کرو کہ یہ ایک انوکھی بات ہم پر وقع ہوتی ہے۔ بلکہ مسیح کو دکھو میں جو جوں شریک ہو خوشی کرو تا کہ اس کے جلال کے ثہور کے وقت بھی نہایت خوش و خرم ہو” پطرس13-12:4۔SKC 346.3

    دن کی پوری روشنی اور دورے پرندوں کو راگ الاپتے ہوئے سن کر پنجرے میں بند پرندہ وہ گیت نہیں سیکھ سکتا جو اس کا مالک اسے سکھانا چاہتا ہے۔ ورنہ وہ کچھ یہاں سے اور کچھ وہاں سے راگنیاں اپنا لیگا۔ مگر وہ دوسرے پرندوں سے بالکل فرق راگ نہ اپنا سکے گا۔ اس لئے اس کا مالک پنجرے کو ڈھانپ دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ رکھتا ہے جہاں رہ کر وہ اسی گیت کو سنے جو اسے گانا ہے۔ اس اندھیرے پنجرے میں وہ بار بار صرف اسی گانے کو گانے کی کوشش کرتا ہے جو اسے گانا ہے۔ حتیٰ کہ اسے سیکھ لیتا ہے اور بالکل کامل راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر اس کو باہر نکالاجاتا ہے جو بلا تکلف روشنی میں بھی گا سکتا ہے۔ اس طرح خدا اپنے بچوں کیساتھ سلوک کرتا ہے۔ وہ بھی ہمیں ایک گیت سکھانا چاہتا ہے اور جب ہم دکھوں اور مصیبتوں میں اس کو سیکھ لیتے ہیں تو اس کے بعد ہم اس گیت کو ہر جگہ بخوبی گا سکتے ہیں۔SKC 346.4

    بہیترے اسیے ہیں جو اپنے فرائض منصبی سے تسلی پذیر نہیں۔ شاید ماحول ان کے مزاج کے موافق نہیں۔ ان کا وقت عام سے کاموں میں صرف ہو جاتا ہے جب کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس سے کہیں بڑھ کر ذمہ داریاں نبھانے کے اہل ہیں۔ اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کی تمام کوششوں کو یا تو قدر کی نگاہ سے یکھا نہیں جاتا یا وہ بے پھل ہیں ہمیں یہ یادرکھنا چاہیے کہ جب کوئی کام ہمارے مزاج کے موافق نہیں جو ہمیں کرنا پڑ رہا ہے تو یہ سمجھ کر اسے قبول کیا جائے جیسے کہ خداوند نے یہ کام ہمارے لیئے منتخب کیا ہے۔ وہ کام ہمارے دل پسند ہو با نہ ہو ہمیں وہ فرض انجام دینا ہو گا۔“جو کام تیرا ہاتھ کرنے کو پائے اسے مقدور بھر کر کیونکہ پاتال میں جہاں تو جاتا ہے جہ کام ہے نہ منصوبہ۔ نہ علم نہ حکمت” واعظ10:9SKC 346.5

    اگر خداوند ہمیں چاہتا ہے کہ ہم نینوہ میں پیغام سنانے جائیں تو خداوند یہ پسند نہ کرے گا کہ ہم کفر نحوم یا یافا کو چلے جائیں۔ اسکے پاس ہمیں اس جگہ بھیجنے کی وجہ موجود ہے جس راہ پر اس نے ہمارے قدموں کی رہنمائی کی ہے۔ شائد اس جگہ کوئی ایسا ضرورت مند ہے جس کی ہم مدد کر سکتے۔ وہ جس نے حبشی خواجہ کے پاس فلپس کو، رومی سردار کے پاس پطرس کو، چھوٹی اسرائیلی لڑکی کو نعمان کے پاس بھیجا وہی اض مردوخواتین اور نوجوانوں کے اپنے نمائندے بنا کر ان حاجتمندوں کے پاس بھیجتا ہے جن کو الہٰی مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔SKC 347.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents