Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    سیرت کا اثر

    ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو قوتِ برداشت کے مالک اور بُردبار ہوں۔ ایسے آمی جو اس بات کا اتنظار نہ کریں کہ تمام رکاوٹیں دور ہوں اور راستہ ہموار ہو تو پھر جی توڑ کر خدمت کریںگے۔ بلکہ ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو بے دل کار گزاروں میں نیا جوش و جذبہ اور نئی روح پھونک دیں۔ ایسے آدمی جن کے دل مسیحی محبت سے سرشاراور ہاتھ خُداوند کی خدمت کرنے کے لئے توانا ہوں۔SKC 369.2

    بعض ایک جو مشنری خدمت میں آتے ہیں وہ کمزور وناتواں، اعصابی کمزوری کے شکار، مُردہ دل اور بہ آسانی پست ہمت ہو جاتے ہیں۔ اُن میں نہ تو جدوجہد کرنے کی ہمت ہے نہ اُن میں سیرت کی مثبت خوبیاں ہیں جو انہیں کچھ کرنے کے لئے توانائی عطا کریں۔ جنہیں کامیابی حاصل کرنا ہے ان کے لیے لازم ہے کہ وہ باہمت اور پامید ہوں ۔ انہیں اپنی خوبیوں، اپنی حسین سیرت کو غیر متحرک نہیں بلکہ مستعد طور پر پروان چڑھانا ہے۔ جہاں اُنہیں نرم جواب دے کر غضب کو دور کرنا ہے وہاں اُنہیں اُس حوصلہ اور ہمت کی بھی ضرورت ہے جو بدی کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے۔ محبت کے ساتھ (جو سب کچھ برداشت کرتی ہے) اُنہیں حسنِ سیرت کی و ہ قوت چاہیے جو روحانی اور اخلاقی طور مثبت اثر رکھے۔SKC 369.3

    بعض کی سیرت نا پائیدار ہوتی ہے۔ ان کی تجاویز او مقاصد میں کوئی قطعی اُستواری نہیں ہوتی دُنیا میں اُن کا عمل دخل بہت ہی کم ہے اس کمزوری، تذبذبِ ہچکچاہٹ اور نا اہلی پر قابو پانا لازم ہے۔ حقیقی مسیحی چال چلن میں ایسی قدرت موجود ہے جو ناموافق حالات میں بھی نہ زیر کی جاسکتی ہے اور نہ ہی موڑی توڑی جاسکتی ہے۔ ہم میں اخلاقی جُرات سالمیت اور دیانت داری ہونی چاہیے جو خوشامد کے جھانسے میں نہ آ سکے، جو رشوت قبول نہ کرے اور جو دہشت زدہ نہ ہو۔SKC 370.1

    خُداوند چاہتا ہے کہ ہم ہر موقع سے فائدہ اُٹھائیں تمام قوتوں کو اس کے کام کے لئے صرف کر دیں اور اپنے دلوں کو اس کی مقدس اور حیرت انگیز ذمہ داریوں کو نبھانے کو لئے زندہ و تابندہ رکھیں۔SKC 370.2

    بعض ایک جن میں اعلےٰ کارکردگی کی صلاحتیں موجود ہیں بہت ہی کم کام انجام دیتے ہیں۔ اُن میں سے ہزاروں اس طرح زندگی گزار دیتے ہیں گویا اُن کے سامنے زندہ رہنے کا کوئی بڑا مقصد نہیں اور نہ کوئی بلند معیار جس تک اُنہیں پہنچنا ہے۔ ایک تو اس کی یہ وجہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی قدر وقیمت بہت ہی کم لگائی ہے۔ خداوند یسوع مسیح نے تو ہمارے لیے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس بیش بہا اورلا محدود قیمت کے مطابق جو اس نے ہمارے لئے ادا کی ہم اپنی قیمت لگائیں۔SKC 370.3

    ادنےٰ معیار تک پہنچ کر تسلی پزیر نہ ہو جائیں۔ جو کچھ ہمیں ہونا چاہیے وہ ہم نہیں ہیں۔ کیونکہ خداوند کی مرضی یہ ہے کہ ہم اعلےٰ سے اعلےٰ معیار تک رسائی کریں حتیٰ کہ اس کے قد کے اندازہ تک پہنچ جائیں۔ خدا نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور غور وخوض کرنے کی قواء عطا کر رکھی ہیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ ہم غیر مستعد زندگی بسر کریں یا ہم زمینی مقاصد حاصل کرنے کے لئے گمراہ ہو جائیں۔ بلکہ یہ چاہتا کہ ہم ان قواء کی زیادہ سے زیادہ نشوونما کریں جو اُس نے ہمیں ودیعت کر رکھی ہیں۔ آیئے ہم ان قواء کو مہذب، پاک اور ممتاز بنا کر اس کی بادشاہی کے لیے استعمال کریں۔SKC 370.4

    کوئی بھی اپنے آپ کو محض مشین نہ بننے دے جو دوسرے کے ذہن سے کام کرتی ہے۔ خدانے ہمیں سوچنے اور عمل کرنے کی صلاحیت دے رکھی ہے۔ اسے احتیاط کے ساتھ عمل میں لا کر خدا کی طرف سے حکمت پا کر ہی آپ ہر طرح کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ جو خدا نے آپ کو ذمہ داریاں دے رکھی ہیں ان میں قائم رہے۔ کسی کی تقلید نہ کریں۔ اور اس بات کی توقع رکھیں کہ خدا آپ میں ہو کر آپ کے لئے اور آپ کے ذریعے کام کرے گا۔SKC 370.5

    یہ کبھی نہ سوچ لیں کہ چونکہ آپ نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور اب آپ اپنی کوششوں کو گیر مستعد کر سکتے ہیں ۔ آپ کی تعلیم زندگی بھر جاری رہے ۔ آپ ہر روز سیکھیں اور جو کچھ حاصل کرتے ہیں اسے عملی زندگی میں اپنائیں۔SKC 371.1

    آپ کسی بھی شعبہ می کیوں نہ کام کرتے ہوں یاد رکھئے کہ آپ کو کارکردگی کے دوران اپنی سیرت اور نیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ جو کچھ کریں اُسے پوری صحت (درستی) اور مستعدی سے انجام دیں اور ان رغبتوں پر قابو پائیں جو تن آسانی کی متلاشی رہتی ہے۔SKC 371.2

    اصول اور کام کرنے کی یہ روح جو شخص روزمرہ کے کاموں میں دکھائے گا یہی اس کی زندگی کا معمول بن جائے گا ۔ جو لوگ کسی ایک خاص کام کو خاص حد تک تنخواہ لے کر انجام دینا چاہتے ہیں ان کو خدا نے اپنی خدمت کے لئے نہیں بلایا۔ جنہوں نے اس طرح کی سوچھ اپنا رکھی ہے کہ کس طرح کم سے کم اپنی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی قواء خدا کے لئے استعمال کریں یہ و ہ کارگزار نہیں جن پر خداوند کثرت سے اپنی برکات نازل کرتا ہے۔ ان کا نمونہ مضر ہے۔ کیونکہ ان کا منشا صرف اپنے میں دلچسپی لینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔SKC 371.3

    وہ جن کی نگرانی کرنی پڑتی ہے اور جوصرف وہی کام کرتے ہیں جو ان کے سپرد ہوتے ہیں انہیں کو اچھے اور وفادار نوکر نہیں کہا جا سکتا۔ ایسے کارگزاروں کی ضرورت ہے جو طاقت ایمانداری اور بردباری کا مظاہرہ کریں۔ اور جو ہر اس خدمت کو انجام دینے کے لئے تیار ہوں جو ضروری ہو۔SKC 371.4

    بہیترے اس لیے نا اہل ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ناکامی کے خوف سے ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ لہذا وہ اس تعلیم وتربیت کو حاصل کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں جو تجربہ سے حاصل ہوتی ہے۔SKC 371.5

    انسان اپنی مرضی کے مطابق حالات کو ڈھال سکتا ہے۔ مگر حالات کو ہرگز یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ انسان کو اپنی مرضی سے روپ دے۔ ہمیں حالات کو ایک آلہ کی طرح پکڑنا چاہیے جس سے ہم کام کرتے ہیں انہیں اجازت نہ دیں کہ وہ ہمارے اوپر حکمرانی کریں کیونکہ ہمیں ان کے اوپر حکمرانی کرنی ہے۔SKC 371.6

    طاقتور توانا لوگ وہی ہیں جن کی مخالفت ہوتی ہے۔ جن کو بہکایا اور ڈرایا جاتا ہے۔ وہ اپنی قواء کو عمل میں لا کر رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہیں جو ان کے لیے مثبت برکات ثابت ہوتی ہیں۔ وہ خود اعتمادی پاتے ہیں۔ کشمکش اور اُلجھنیں خدا پر ایمان اور اس ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کی دعوت دیتی ہیں جو قوت کی ترقی کا باعث ہوتی ہیں۔SKC 371.7

    خداوند یسوع مسیح نے مقررہ مقدار میں خدمت نہ کی یعنی اس کی خدمت کی کوئی حد مقرر نہ تھی۔ اس نے اپنے کام کو گھنٹوں کے حساب سے نہ ناپا۔ اس کو وقت، اس کا دل، اس کی روح اس کی طاقت انسانوں کی خدمت اور بھلائی کے لیے وقت تھی۔ دن کے وقت اس نے سخت مشقت جھیلی اور لمبی راتیں دعا میں جھک کر گزاریں تاکہ زیادہ سے زیادہ کام کرنے کے لیے خدا سے فضل اور بردباری حاصل کرے۔ چلا چلا کر اور آنسو بہا بہا کر اس نے اپنی التماس خداوند خدا کے حضور گزاری تاکہ جسمانی فطرت طاقت حاصل کرے اور وہ ابلیس کا مقابلہ کر سکے، اس کے دھوکوں سے محفوظ رہ سکے۔ نیز انسان بچانے کے لئے خدا سے پناہ حاصل کرے۔ اپنے کارگزاروں کو وہ یوں فرماتا ہے۔SKC 372.1

    “میں نے تم کو ایک نمونہ دکھایا ہے کہ جیسا میں نے تمہارے ساتھ کیا تم بھی کیا کرو”یوحنا15:13۔SKC 372.2

    مقدس پولس رسول فرماتا ہے کہ کہ “خدا کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی ہے”2کرنتھیوں14:5۔SKC 372.3

    یہی وہ اصول تھا جو اس کی سیرت اور راہ وروش کو تحریک دیتا تھا۔ یہی اس کے منشا و منشور اور طرزِ عمل کی قوت تھی۔ اگر کھبی لمحہ بھر کے لئے بھی فرائض کی ادائیگی، اشتیاق اور سرگرمی میں کمی واقع ہوتی تو صلیب کی طرف ایک نگاہ ہی اس کے ذہن کے بکتر کو باندھ دیتی اور پھر وہ دوبارہ خود انکاری کی راہ پر گامزن ہو جاتا۔ پولس رسول جو خدمت اپنے بھائیوں کے لئے کرتا تھا اس میں وہ زیادہ تر خدا کی محبت اور یسوع مسیح کی قربانی کا ہی آشکارہ کرتا تھا جس کی طاقت اسے محکوم و مجبور کرتی تھی۔SKC 372.4

    اس کی التماس کتنی پر تاثیر اور کتنی مخلص ہے۔ “کیونکہ تم ہمارے خداوند یسوع کے فضل کو جانتے ہو کہ وہ اگرچہ دولتمند تھا مگر تمہاری خاطر غریب بن گیا تاکہ تم اس کی غریبی کے سبب دولتمند بن جاؤ” 2کرنتھیوں9:8۔SKC 372.5

    آپ جانتے ہیں کہ وہ کتنی بلندی سے پستی میں اتر گیا اس کے پاؤں قربانی کی راہ میں جم گئے اور وہ اس وقت تک نہ ہٹا جب تک اس نے اپنی جان نہ دے دی ، آسمانی تخت سے لیکر صلیب تک اس کے لئے کوئی آرام کا لمحہ نہ تھا۔ بنی آدم کی محبت کی خاطر اس نے ہر طرح کی ذلت، ہتک اور برے برتاؤ کو برداشت کیا۔SKC 372.6

    پولس رسول ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے۔۔۔۔۔۔SKC 373.1

    “ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی نظر رکھے۔ ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا اس نے اگر چہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی او انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ اور انساسنی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کردیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارہ کی” فلپیوں8-4:2 ۔SKC 373.2

    پولس رسول بڑا بیتاب تھا کہ خداوند یسوع مسیح کی تذلیل کو دیکھا اور ذہن نشین کیا جائے۔ اسے پورا پورا یقین تھا کہ اگر بنی نوع انسان کو اس حیرت انگیز قربانی کے بارے سمجھایا جا سکے جو آسمانی شہنشاہ نے پیش کی ہے تو وہ یقینا اپنے دلوں میں خود غرضی کو ختم کریں گے۔ رسول ایک نقطے کے بعد دوسرے نقطے پر آتا ہے۔ اور بات سے بات نکالتا ہے تاکہ ہم کسی حد تک سمجھ سکیں کہ نجات دہندہ نے گنہگاروں کی خاطر کرم فرمائی کی۔ پہلے تو وہ ہمارے ذہنوں کو یسوع مسیح کے اس رتبے کی طرف مائل کرتا ہے جو وہ آسمانوں میں اپنے باپ کی گود میں رکھتا تھا اور پھر اس نے اپنے جلال کو ایک طرف رکھ کر خود کو عیاں کیا اور رضا کارانہ طور پر بشیرت اپنا لی۔ اور بڑی فروتنی سے خادم کے فرائض کی ذمہ داری قبول کر لی ۔ وہ موت تک وفادار رہا۔ رُسوائی، ذلت، جانکنی اور گھناؤنی موت یعنی صلیبی موت گوارہ کی۔ کہ ہم خدا کی اس حیرت انگیز محبت کے ظہور اور اس حقیقت کے گہرے احساس پر کہ ہم اپنے نہیں، شکرگزاری اور محبت کے بغیر غوروخوض کر سکتے ہیں؟ ایسے آقا کی خدمت بادل ناخواستہ اور خود غرضی کے ارادے سے انجام نہیں دینی چاہیے۔SKC 373.3

    مقدس پطرس رسول فرماتا ہے “کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہارا نکما چال جو باپ دادا سے چلا آتا تھا اس سے تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعی سونے چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوئی”1پطرس18:1۔SKC 373.4

    اگر انسان کی نجات کے لئے سونا چاندی کافی ہوتا تو خُدا کے لئے ایسا کرنا کتنا آسان ہوتا جو یہ فرماتا” چاندی میری ہے سونا میرا ہے۔” SKC 373.5

    مگر خدا کے بیٹے کے قیمتی خون سے ہی گنہگار نجات پا سکتا تھا۔ وہ جو اس حیرت انگیز قربانی کی قدر کرنے میں نا کام رہتے اور اس کی خدمت سے اپنے آپ کو بازرکھتے ہیں وہ اپنی ہی خود غرضی میں برباد ہو جائیں گے۔SKC 373.6

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents