Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    چونتیسواں باب - گھر کے معمار

    وہ جس نے آدم کو حوا مدد گار کے طور پر دی اُس نے اپنا پہلا معجزہ شادی کے موقع پر دکھایا۔ شادی خانہ میں جہاں دوست اور رشتہ دار خوشی کے جشن منا رہے تھے وہاں خُداوند یسوع مسیح نے اپنی عوامی خدمت کا آغاز کیا۔ یوں اُس نے توثیق کردی کہ شادی کے دستور کو میں نے ہی قئم کیا ہے۔ اُس نے مردوخواتین کو مبارک شادی کے بندھن میں بندھنے کے لئے مخصوص کیا تاکہ اپنے اپنے خاندان کے ممبران کو باعزت طور سے پروان چڑھائیں تا کہ آسمانی خاندان کے رُکن تسلیم ہو سکیں۔SKC 251.1

    مسیح یسوع نے اپنے اور کلیسیا کے اتحاد کو شادی کی علامت قرار دے کر شادی کے بندھن کو عزت بخشی۔ وہ خود دُلہا ہے جب کہ کلیسیا دلہن ہے جسے اُس نے خود چنا ہے۔ اُس کا کہنا ہے “اے میری پیاری تو سراپا جمال ہے۔ تجھ میں کوئی عیب نہیں” غزل الغزلات7:4۔SKC 251.2

    مسیح خُداوند نے “ کلیسیا سے محبت کر کرے اپنے آپ کو اُس کے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔ تاکہ اُس کو کلام کے ساتھ غسل دے کر اور صاف کر کے مقدس بنائے۔ اور ایک ایسی جلال والی کلیسیا بنا کر اپنے پاس حاضر کرے جس کے بدن میں داغ یا جھری یا کوئی اور ایسی چیز نہ ہو بلکہ پاک اور بے عیب ہو” افسیوں5-28:25۔SKC 251.3

    خاندانی بندھن سے زیادہ نزدیکی، مقدس، اور خبر گیری کرنے والا اور کوئی زمینی رشتہ ہے ہی نہیں۔ خُداوند تعالےٰ نے اس کو اس لئے قائم کیا تھا تا کہ تمام آدمزاد اس سے برکت پائیں۔ اور یہ اُن کے لئے برکت کا باعث ہے جو اُس کے عہد میں بڑی ہوشیاری، دانش مندی، خُدا کے خوف اور اس کی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔ وہ نوجوان جو شادی پر غور کر رہے ہیں انہیں اس بات کو بھی مدِ نظررکھنا چاہیے کہ اُس گھر کا کیا امتیازی نشان اور روحانی اور اخلاقی اثر ہو گا جس کو وہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جب وہ والدین بنتے ہیں تو ایک مقدس فریضہ اُنہیں انجام دینا ہوتا ہے۔ اس دُنیا میں اُن کے بچے کی بھلائی اور آنے والی دُنیا میں خوشی کا زیادہ انحصار خود اُن پر ہے۔ اور بہت حد تک وہ اپنے ننھے منے بچے کی جسمانی اوراخلاقی تعمیر خود کرتے ہیں۔ اور جس طرح گھر کی خوبی و خصلت ہو گی اُس طرح کی سوسائٹی اُستوار ہو گی۔ ہر ایک خاندان کی طرزِ زندگی اور اثرورسوخ کا وزن، معاشرے کے ترازو کے پلڑے کو نیچے یا اُوپر لے جانے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔SKC 251.4

    زندگی کے ساتھی کا چناؤ ایسا ہو جوجسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر والدین اور بچوں کے لئے قابلِ اطمینان ہو۔ یعنی جونسل انسانی کے لئے برکت اور خُداوند خُدا کے لیے عزت کا باعث ہے۔SKC 252.1

    شادی کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے پہلے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ایسی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہونے کے لئے عملی زندگی میں کچھ تجربہ ہونا چاہیے جو اُنہیں متوقع بوجھ اور فرائض کے لئے تیار کرے۔ چھوٹی عمر کی شادیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے۔ شادی جیسے اہم رشتے اُس کے دوررس نتائج کے پیش نظر عجلت سے کام نہ لیں۔ جب تک ذہنی اور جسمانی قوتیں اچھی طرح پروان نہ چڑھ جائیں شادی نہ کریں۔SKC 252.2

    بیشک دونوں فریقین (لڑکی۔لڑکا) مالدار نہ ہوں مگر وہ جسمانی صحت سے ضرور ہی مالامال ہوں۔ عمر میں بہت بڑا تفادت نہ ہو۔ اس اصول کو نظر انداز کرنے سے جو ساتھی عمر میں کم ہو گا اُس کی صحت کو سخت خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اور اکثر اُن کے بچے جسمانی اور ذہنی قوت کے لحاظ سے کمزور ہوں گے۔ وہ اپنے بوڑھے والدین سے وہ حفاظت اور رفاقت حاصل نہیں کر سکتے جو اُن کی چھوٹی عمر مطالبہ کرتی ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب اُنہیں (بچوں کو) رہنمائی اور محبت کی ضرورت ہو اُس وقت باپ یا ماں (جو بڑی عمر کا ہے) اس جہاں سے کوچ کر جائے۔ اور وہ اُس کی محبت اور رہنمائی سے یکسر محروم رہ جائیں۔SKC 252.3

    صرف یسوع مسیح میں ہی شادی کا بندھن محفوظ ہو سکتا ہے۔ انسانی محبت الٰہی محبت سے ہی مضبوط بندھن اختیار کرسکتی ہے۔ جہاں خُداوند مسیح حکومت کرتا ہے صرف وہیں گہری، سچی اور غیر نفس پرور محبت ہو گی۔SKC 252.4

    محبت ایک بہت ہی قیمتی تحفہ ہے جو مسیح یسوع سے حاصل ہوتا ہے۔ صاف شفاف اور پاکیزہ پیار محض محسوسات نہیں بلکہ ایک اصول ہے۔ جو سچی محبت سے متحرک ہوتے ہیں وہ نہ تو غیر معقول ہوتے ہیں ور نہ ہی اندھے۔ روح القدس کی تعلیم پا کر وہ خُدا کو بدل وجان پیار کرتے ہیں اور اپنے پڑوسیوں کو اپنی مانند محبت۔SKC 252.5

    جو شادی کی ذمہ داریوں پر غور وخوض کر رہے ہیں اُنہیں چاہیے کہ جس کے ساتھ وہ ازدواجی زندگی گزارنے کا سوچ رہے ہیں اُس کے ہر ادراک، اخلاقی قوت، سیرت اور ہرجذبے کا اچھی طرح جائزہ لیں۔ شادی کی جانب جو بھی قدم اُٹھایا جائے عاجزی، انکساری، سادگی، خلوص نیتی اور اس خیال سے اُٹھایا جائے کہ اس شادی کی بدولت خُداوند کی عزت وتکریم ہو گی۔ شادی اس دُنیا اور آنے والی دُنیا دونوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔SKC 253.1

    ایک مخلص مسیح کوئی بھی ایسی تجاویز نہ بنائے گا جو خُداوند کی نظر میں نامقبول ہو۔SKC 253.2

    اگر آپ کے والدین خُدا ترس ہیں تو اُن سے مشورہ لیں۔ اُنہیں کو اپنی تجاویز اور اُمیدیں بتائیں- اُن کی زندگی کے تجربات سے سبق حاصل کریں۔ تو آپ بہت سی تکالیف سے بچ جائیں گے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ خُداوند یسوع مسیح کو اپنا مشیر بنائیں۔ دُعا کیساتھ اُس کے کلام کا مطالعہ کریں۔SKC 253.3

    ایسی ہدایات کے تحت ایک نوجوان خاتون صرف اُسے ہی زندگی کا ساتھی قبول کرے جو پاکیزہ اور مردانہ اوصاف کا مالک ہو۔ وہ جو محنتی، ایماندار،عالی ہمت دماغ ہو۔ وہ جو خُدا سے ڈرتا اور اُس سے محبت کرتا ہو۔ اور ایک نوجوان مرد ایسے ساتھی کی تلاش کرے جو اُس کے پہلو میں کھڑا ہو سکے اور یہ اُس کی زندگی کے بوجھ کو برداشت کرنے کے قابل ہو۔ ایسا ساتھی جس کا اثرورسوخ اُسے معزز اور شائستہ بنائے اور جو اپنی محبت سے اُسے مسرت بخشے۔SKC 253.4

    “دانش مند بیوی خُدا وند سے ملتی ہے”۔ “اُس کے شوہر کے دل کو اُس پر اعتماد ہے۔ وہ اپنی عمر کے تمام ایام میں اُس سے نیکی ہی کرے گی۔ بدی نہ کرے گی”۔ اُس کے منہ سے حکمت کی باتیں نکلتی ہیں۔ اُس کی زبان پر شفقت کی تعلیم ہے۔ وہ اپنے گھرانے پر بخوبی نظر رکھتی ہے۔ اور کاہلی کی روٹی نہیں کھاتی اُس کے بیٹے اُٹھتے ہیں اور اُسے مبارک باد کہتے ہیں اُس کا شوہر بھی اُس کی تعریف کرتا ہے۔ بہیتری بیٹیوں نے فضیلت دکھائی ہے لیکن سب پر سبقت لے گئی”۔SKC 253.5

    جس کو بیوی ملی اُس نے تحفہ پایا۔ اور اُس پر خُدا کا فضل ہوا” امثال14:19،امثال12-11:31،امثال31-29:26امثال22:18۔SKC 253.6

    جب زندگی اپنے بوجھ، ذمہ داریوں، فکروں اور پریشانیوں کے ساتھ نوبیاہتا جوڑے سے دوچار ہوتی ہے تو وہ رومانی واقعہ جس نے شادی کے لئے اُنہیں اکسایا تھا اکثر غائب ہوجاتا ہے۔ ابSKC 253.7

    میاں بیوی ایک دوسرے کی سیرت اورخصوصیات سے اتنے واقف ہو جاتے ہیں جو پہلی پہلی ملاقات (شادی سے پہلے) میں ناممکن تھا۔ اور یہ زمانہ اُن کی زندگی میں بہت ہی نازک ہوتا ہے۔ اس وقت اُن کے مستقبل اور خوشی کا سارا انحصار صحیح سمت قدم اُٹھانے پر ہی ہوتا ہے۔ اکثر وہ ایک دوسرے کی غیر متوقع کمزوریوں اور خامیوں سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ دل جن کو محبت نے متحرک کیا ہے وہ ایک دوسرے کی کچھ اسی خوبیوں سے بھی واقف ہو جاتے ہیں جن سے وہ پہلے واقف نہ تھے۔ چاہیے کہ سب ایک دوسرے میں خامیوں کی بجائے اچھائیاں تلاس کریں۔ اکثر یہ ہمارا ہی رویہ ہوتا ہے۔ جس میں گھرے ہوتے ہیں جو ہمیں آمادہ کرتا ہے کہ دوسرے میں کیا دیکھیں۔ بہیترے اسیے ہیں جو محبت کے اظہار کو کمزوری خیال کرتے ہیں اور وہ چپ چاپ رہتے ہیں، جس سے دوسرے ساتھی کے دل میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ غمخواری کی روح کی مزاحمت کرتی ہے۔ اور جب ملنساری اور سماجی اور جیاضی کی حس دبائی جاتی ہیں تو وہ مرجھا جاتی اور بے حس ہو جاتی ہے۔ اس غلطی سے ہمیں خبردار رہنا چاہیے۔ محبت کا اظہار نہ کرنے سے محبت فوت ہو جاتی ہے۔ وہ جس کا دل آپ کے ساتھ ہے غمخواری اور مہربانی کی کمی سے اُس کے دل کو فاقوں مرنے نہ دیں۔SKC 254.1

    خواہ مشکلات، اور پست ہمتیوں کا سامنا ہو پھر بھی نہ خاوند نہ بیوی اپنے دل میں یہ خیال باندھے کہ ہمارا اتحاد غلطی پر مبنی ہے۔ مصمم ارادہ کریں کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ اور ہمیشہ یہ مثبت سوچھ رکھیں کہ یہ ممکن ہے۔ پہلا سا تکلفانہ آدب، خاطرو مدارت جاری رکھیں۔ زندگی کی جنگ لڑنے کے لیے ایک دوسرے کی ہمت بڑھاتے رہیں۔ ایک دوسرے کی خوشی میں اضافہ کرنے کے لئے غوروخوض کرتے رہیں ۔ دو طرفی محبت اور باہمی برداشت موجود رہے۔ پھر شادی محبت کے خاتمہ کی بجائے پہلی سی محبت میں بدل جائے گی۔ سچی دوستی کی گرم مزاجی، اور محبت جو ایک دل کو دوسرے دل سے متحد کرتی ہے۔ آسمانی خوشی و مسرت کا پیش خیمہ ہو گی۔SKC 254.2

    ہر خاندان کے گرد ایک پاکیزہ حلقہ قائم ہوتا ہے اُسے ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ اس حلقہ کے اندر کسی شخص کو آنے کا حق نہیں۔ نہ خاوند کو اور نہ ہی بیوی کو چاہیے کہ کسی دوسرے شخص کو اجازت دیں جو اُن کے بھیدوں سے آگاہی حاصل کرے کیونکہ کہ یہ صرف اُن کا ہی حق ہے۔SKC 254.3

    ایک دوسرے سے محبت جتائیں نہ کہ جبراً دوسرے سے محبت کا مطالبہ کریں۔ اپنے ساتھی کیSKC 254.4

    عزت کا خواہاں ہونا اور اُس کی قدر کرنا نہایت ہی تسلی بخش اور حیرت انگیز محرک ہے۔ ہمدردی اور عزت افزائی اچھائیاں تلاش کرنے پر اُکساتی ہے۔ محبت اعلےٰ مقاصد کے لئے تحریک دیتی ہے۔SKC 255.1

    نہ خاوند اور نہ ہی بیوی اپنی شخصیت کو ایک دوسرے میں مدغم کریں۔ ہرایک کا تعلق اور ناطہ خُدا کے ساتھ شخصی ہے۔ دونوں کو اُسی سے پوچھنا چاہیے کہ“راست کیاہے”؟ “غیر واجب یا غلط کیا ہے”؟ “میں زندگی کا مقصد کیونکر بہترین طریقہ سے پورا کر سکتا ہوں” اپنی مہرومحبت کی دولت اُس کی طرف نچھاور کریں جس نے اپنی جان تمہارے لئے دی۔ خُداوند یسوع مسیح ہی آپ کی زندگی میں سب کچھ ہونا چاہیے۔ جب آپ کی محبت خُداوند میں گہری اور مضبوط ہو گی تو آپ کی آپس کی محبت ایک دوسرے کے لئے پاکیزہ اور مضبوط ٹھہرے گی۔SKC 255.2

    محبت کی جس روح کا اظہار خُداوند یسوع مسیح نے ہمیں دکھایا ہے وہی روح میاں بیوی میں پائی جانی چاہیے۔SKC 255.3

    “محبت سے چلو۔ جیسے مسیح نے تم سے محبت کی اور ہمارے واسطے اپنے آپ کو خوشبو کی مانند خُدا کی نظر کر کے قربان کیا”۔ جیسے کلیسیا مسیح کے تابع ہے ویسے ہی بیویاں بھی ہر بات میں اپنے شوہروں کے تابع ہوں۔ اے شوہرو! اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کر کے اپنے آپ کو اُس کے واسطے محبت کے حوالہ کر دیا” افسیوں 2:5، افسیوں 5-25:24۔SKC 255.4

    نہ خاوند اور نہ ہی بیوی کو ایک دوسرے کے اوپر حکومت جتانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ کوئی بھی ایک دوسرے کو مجبور نہ کرے کہ اُس کی خواہش کا احترام کیا جائے۔ ایسا کرنے سے آپ ایک دوسرے کی محبت حاصل نہیں کر سکتے۔ مہربان برداشت کرنے والے، شائشہ اور دوسرے کی رائے کا احترام کرنے والے سنئے۔ پھرخُداوند کی مہربانی سے، ایک دوسرے کو خوش رکھنے کے اُس وعدے کو جو آپ نے شادی کے موقع پر کیا تھا پورا کر سکیں گے۔SKC 255.5

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents