Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    چھٹا باب - جا پھر گناہ نہ کرنا

    ہیکل کی عید اختتام پذیر ہوئی ۔ شرع کے معلموں اور کاہنوں نے جو جو سازشیں یروشلیم میں یسوع مسیح کے خلاف بنائیں تھی ان میں وہ بُری طرح ناکام ہو گئے تھے۔ اور جوں ہی شام ہوئی ہر شخص اپنے اپنے گھر کو چل دیا مگر خُداوند یسوع زیتون کے پہاڑ کی طرف چل دیا۔ یوحنا53:7-1:8۔ شہر کے ہنگاموں اور بھیڑ دھکم پیل اور شرع کے معلموں کی غداری کے سبب وہ زیتون کے پہاڑ کی طرف گیا تا کہ وہ خُداوند کے ساتھ کچھ وقت تنہا بسر کر سکے۔ مگر صبح ہوتے ہی وہ ہیکل کی طرف پلٹ گیا۔ اور جب لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے۔ وہ بیٹھ گیا اور ان کو تعلیم دینے لگا۔ مگر بہت جلد اسے مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔ فقیہوں اور فریسیوں کا ایک گروہ ایک خوف زدہ عورت کو کھینچ کر اس کے پاس لائے اور کہہ رہے تھے کہ اس عورت نے ساتواں حکم توڑا ہے۔ پھر اسے یسوع کے قدموں میں دھکیل کر کہا “اے استاد یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے موسٰی نے ہم کو حکم دیا کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں ۔ پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے؟” یوحنا 4:8-5۔ وہ ریاکاری سے یسوع مسیح کے پاس اس عورت کو لائے تھے تاکہ اسے کسی نہ کسی چال میں پھنسا کر الزام لگائیں ۔ فرض محال یہ اسے گناہ سے بری قرار دے تو ہم کہیں گے یہ موسٰی کی شریعت کو منسوخ کرتا ہے اور اگر مسیح یسوع اس عورت پر موت کا فتویٰ صادر کرتا ہے تو رومی حکومت اس سے نپٹ لے گی۔ کیونکہ حکومت کے سوا ایسا فتویٰ صادر کرنے کا حق نہیں۔ SKC 49.1

    خُداوند یسوع مسیح نے اس منظر کا بخوبی جائزہ لیا۔ اس کے سامنے لرزاں اور ترسوں، شرم سے سر جھکائے وہ عورت تھی جس پر وہ الزام لگایا گیا تھا۔ پھر وہاں بڑی معتبر اور بارسوخ ہستیاں موجود تھیں جن کے چہروں سے دشمنی ٹپکتی تھی۔ ان کی آنکھوں میں رحم نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اس ہیبت ناک منظر کو دیکھ کر اس کی پاکیزہ روح لرز گئی۔ بہرکیف اس نے ایسے ظاہر کیا کہ ان کا سوال سنا ہی نہیں ۔ وہ جھکا اور اس نے زمین پر اپنی نگاہیں جما کر کچھ لکھنا شروع کردیا۔ الزام لگانے والوں نے جب یہ دیکھا کہ جواب میں دیری ہو گئی ہے تو وہ بے صبر ہو کر اس کے نزدیک پہنچ گئے تا کہ اسے بتائیں کے یہ معاملہ سنگین ہے اور ہمیں اس کا جلد جواب چاہیے۔ مگر ان کی آنکھیں جب اس لکھائی سے دو چار ہوئیں تو ان کا غیض و غضب سے چینخنا چلانا مدھم ہو گیا۔ کیونکہ ان کے سامنے ان کی زندگیوں کے پوشیدہ گناہ رکھے پڑے تھے۔ مسیح خُداوند نے اُٹھ کر ان سازشی لیڈروں سے کہا “کہ جو تم میں بے گناہ ہو وہی پہلے اس کے پتھر مارے ” یوحنا 7:8- اس کے بعد پھر زمین پہ جھک کر لکھنے لگا۔SKC 49.2

    خُداوند مسیح نے یہ تو موسٰی کے شریعت کو باطل ٹھرایا اور نہ ہی رومی حکومت کے عتاب کو دعوت دی۔ الزام لگانے والے پھر شکست کھا گئے۔ ان کی ریاکاری کی پاکیزگی کا لبادہ تار تار ہو گیا۔ وہ مقدس خُداوند کے حضور مجرم کی صورت میں کھڑے تھے۔ وہ اس لیے کانپ رہے تھے مبادہ ان کی زندگی کی پوشیدہ بدیاں عوام پر عیاں نہ ہو جائیں۔ لہٰزا وہ شرمندگی سے سر جھکائے چپکے سے اس عورت کو خُداوند یسوع مسیح کے پاس چھوڑ کر چلتے بنے۔ خُداوند یسوع مسیح نے اس عورت سے کہا “اے عورت یہ لوگ کہاں گئے؟ کیا کسی نے تجھ پر حکم نہیں لگایا؟ اس نے کہا اے خُداوند کسی نے نہیں ۔ یسوع نے کہا میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا۔ جا پھر گناہ نہ کرنا۔” یوحنا 10:8-11۔ وہ خاتون خُداوند یسوع مسیح کے سامنے خوف سے دبکی بیٹھی تھی۔ مسیح خُداون کے یہ الفاظ “جو تم میں بے گناہ ہو وہی پہلے اس کے پتھر مارے” اسے ایسے لگے جیسے موت کا فتویٰ صادر ہوا ہو۔ اس بچاری میں اتنی ہمت نہ تھی کہ یسوع مسیح کے طرف دیکھے۔ وہ تو اب اپنی موت کا انتظار کررہی تھی مگر اُسے اس بات سے ضرور حیرانگی ہوئی کہ اس پر الزام لگانے والے ایک ایک کر کے پریشانی اور عجلت کی حالت میں وہاں سے غائب ہونا شروع ہو گئے۔ اس کے بعد اس نے اُمید افزا کلام سُنا۔ “ میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا۔ جا پھر گناہ نہ کرنا” اس خاتون کا جی بھر آیا اور اس نے خود کو مسیح کے قدموں میں گرا دیا۔ اس نے سسکیوں میں ہی مسیح خُداوند کا شکریہ ادا کیا۔ اور آنسو بہا بہا کر اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔SKC 50.1

    یہی اس کی زندگی کا ازسر نو آغاز تھا۔ یعنی پاگیزگی اور اطمینان کی زندگی جو خُداوند کے لیے وقف ہو گئی تھی۔ اس گری ہوئی روح کو اُٹھا کر خُداوند یسوع مسیح نے جسمانی بیماریوں سے شفا بخشنے کی نسبت کہیں بڑھ کر معجزہ دکھا یا۔ اس نے روحانی بیماریوں سے شفا بخشی جو ابدی موت لاتی ہے۔ یہ خاتون خُداوند یسوع مسیح کی بڑی جانثار ثابت ہوئی۔ خُداوند یسوع ہر ایک کے ماحول اور حالات سے واقف ہے جتنا کوئی زیادہ گناہ میں ڈوبا ہے۔ اتنی ہی زیادہ اسے نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔ خُداوند یسوع کا جی ان بے بسوں کے لیے زیادہ بھر آتا ہے جو ابلیس کے چنگل میں بے سہارہ، بےیارو مددگار اذیت اُٹھا رہے ہیں۔ کیونکہ اس نے اپنے خون سے بنی نوع انسان کے چھٹکارے کے لیے لکھ دیا ہے۔SKC 50.2

    خُداوند یسوع مسیح نہیں چاہتا کہ جن کو اس نے اتنی بھاری قیمت دے کر خریدا ہے دشمن کی آزمائشوں کا نشانہ بنے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ہم مغلوب ہو کر برباد ہو جائیں۔ جس نے شیروں کے منہ بن کر دیے۔ وہ جو اپنے وفادار گواہوں کے ساتھ آگ کی جلتی بھٹی میں تھا وہ آج بھی ہماری خاطر تیار ہے۔ کہ ہر وہ بدی جو ہماری فطرت میں پائی جاتی ہے اسے شکست فاش دے آج وہ رحم کو مزبحہ کے پاس کھڑا ہے تاکہ ان کی دعائیں خُداوند کے حضور پیش کرے جو اس کی مدد کا خواہاں ہیں۔ وہ کسی شکستہ دل کو، اور نوحہ کناں شخص کو نامراد نہیں لوٹاتا وہ ان سب کو مفت معافی عطا کرے گا۔ جو اس کے پاس گناہ کی معافی اور بحالی کے لیے آتے ہیں۔ ہو ہر لڑکھڑاتی اور لرزتی روح کو یہ کہتا ہے کہ حوصلہ رکھ۔ جو کوئی بھی اس کی طاقت پر بھروسہ کرے گا اور اس کے ساتھ صلح رکھے گا وہ بھی اس کے لیے صلح کا جویاں ہو گا۔SKC 51.1

    اور وہ روح جو اس کے پاس پناہ کے لیے آتی ہے۔ خُداوند یسوع مسیح اسے دُنیا کے طعنوں اور دوسرے تمام الزامات سے بالاتر کر دیتا ہے۔ ایسی روحوں کو کوئی انسان یا برے فرشتے بھی بازپرس نہیں کر سکتے۔ خُداوند یسوع مسیح انہیں اپنی الہٰی فطرت کے ساتھ ملحق کر لیتا ہے۔ وہ اس کے پہلو میں آ کھڑے ہوتے ہیں جو سارے جہاں کے گناہ اُٹھا لیتا ہے۔ کیوںکہ ۔۔۔۔۔ “یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے۔ 1 یوحنا7:1۔” خُدا کے برگزیدوں پر کون نالش کرے گا؟ خُدا وہ ہے جو ان کو راست باز ٹھراتا ہے۔ کون ہے جو مجرم ٹھہرائے گا؟ مسیح یسوع وہ ہے جو مر گیا بلکہ مردوں میں سے جی اُٹھا اور خُدا کی دہنی طرف ہے اور ہماری شفاعت بھی کرتا ہے ” روپیوں 33:8-34۔ خُداوند یسوع مسیح نے یہ ثابت کر دیا کہ اسے سمندر کی لہروں اور آندھیوں اور ابلیس پر پورا پورا اختیار ہے۔ اس نے متلاطم سمندر کو تھما دیا اور ابلیس کے ہاتھوں دکھ پانے والوں کو آرام بخشا۔SKC 51.2

    کفر نحوم کی ہیکل میں خُداوند یسوع مسیح نے اپنے مشن کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ گناہ کے غلاموں کو آزاد کرنے آیا ۔ وہاں ایک پاگل شخص جس میں بدروحیں تھیں شور مچاتا ہوا آیا اور کہنے لگا “اے یسوع ناصری ! ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تو ہم کو ہلاک کرنے آیا ہے؟ میں تجھے جانتا ہوں کہ تو کون ہے۔ خُدا کا قدوس ہے” مرقس 24:1۔ خُداوند یسوع مسیح نے بدروحوں کو جھڑکتے ہوئے یوں فرمایا “چپ رہ اور اس میں سے نکل جا۔ اس پر بدروح اسے بیچ میں پٹک کر بغیر ضرر پہنچائے اس میں سے نکل گئی۔” لوقا 35:4۔ SKC 51.3

    اس آدمی کی تکلیف بھی اس کی اپنی وجہ سے تھی۔ یہ گناہ سے لطف اندوز ہوتا رہا تھا۔ اور اس نے سوچا عیاشی ہی دنیا میں سب کچھ ہے وہ کھانے پینے میں بد پرہیزی کا مظاہرہ کرتا رہا تھا۔ بد اعتدالی سے انسان میں اچھے خصائل معدوم ہو جاتے ہیں اور شیطان اس پر قابض ہوجاتا ہے۔ اس انسان کا بھی یہی حال ہوا۔ بعد میں وہ بہت پچھتایا مگر بہت دہر ہو چکی تھی۔ جب اس نے چاہا کہ دولت وغیرہ اپنی کھوئی ہوئی صحت بحال کرے اور بری عادات اور عیش و نشاط کو خیرباد کہہ دے اس وقت وہ ابلیس کے ہاتھوں بالکل بے بس ہو چکا تھا۔SKC 52.1

    اب ایک بار پھر وہ خُداوند یسوع مسیح کی وساطت سے ابلیس کی قید سے آزاد ہو نا چاہتا تھا مگر ابلیس نے خُداوند مسیح کی قوت کی مداخلت کی ۔ جب اس انسان نے مدد کے لیے خُداوند مسیح سے التماس کیا تو بری روح نے اپنا کلام اس شخص کے منہ میں ڈال دیا۔ تب وہ اور سخت اذیت کے تحت چلا اُٹھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ خُداوند مسیح مجھے ابلیس سے آزاد کر سکتا ہے۔ مگر ابلیس نے اس کے منہ میں اپنےالفاظ ڈال دیے یوں ابلیس نے اس شخص پر اپنا قبضہ قائم رکھا۔ ابلیس کی طاقت اور پاگل شخص کی آزاد ہونے کی خواہش کے درمیان سخت کشمکش تھی۔ ایسے معلم ہوتا تھا کہ اس کشکمش میں ابلیس اس کی جان لے لے گا۔ اور خُداوند یسوع مسیح وہاں بااختیار ہو کر بولا اور قیدی کو آزاد کرا لیا۔ اب وہ شخص جس میں بدروح تھی حیرت میں ڈوبی ہوئی بھیڑ کے سامنے آزاد کھڑا تھا۔ SKC 52.2

    اپنی آزادی پر شادمان ہو کر وہ خُدا کی تعریف کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک آئے۔ اور جن آنکھوں سے غضب کے شعلے بھڑکتے تھے وہ ذہانت سے ٹمٹمانے لگیں۔ لوگ حیرت کا مجسمہ بنے بیٹھے تھے۔ آخر وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کیا ہے۔ اور یہ تو نئی تعلیم ہے؟ وہ نا پاک روحوں کو بھی اختیار کے ساتھ حکم دیتا ہے اور اس کا حکم مانتی ہیں” مرقس 27:1۔SKC 52.3

    آج دُنیا میں بے شمار لوگ بدروحوں کے اس طرح زیراثر ہیں جیسے کفر نحوم کا نوجوان تھا۔ ہوتا یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو خُدا کے احکام سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ حقیقت میں وہ خود کو ابلیس کے قبضہ میں کر دیتے ہیں۔ اکثر نوجوان سوچتے ہیں کہ تھوڑی دیر بدی سے کھیل کر جب چاہیں گے کنارہ کشی کر لیں گے۔ اس خیال سے وہ بدی میں بڑھتے ہی رہتے ہیں۔ مگر ایک وقت آتا ہے جب وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم اپنے سے کسی طاقتور کے قبضے میں آ گئے ہیں جس سے چھٹکارہ محال ہے۔ خفیہ گناہ اور بے ضبطی انہیں ایسا غلام بنا لیتی ہے کہ چھٹکارا نا ممکن ہوجاتا ہے۔ وہ اس طرح بے بس ہو جاتے ہیں جیسے کہ کفر نحوم کا شخص جسے بدروح نے جکڑ رکھا تھا۔SKC 52.4

    پھر بھی کسی کو نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ خدا ہماری مرضی کے بغیر ہمارے ذہن و دماغ پر قابض نہیں ہوتا۔ مگر پھر بھی ہر شخص کو اختیار ہے کہ کون سی قوت اس پر حکمرانی کرے (خُدا یا ابلیس)۔ کوئی شخص بھی اتنا نیچے نہیں گر گیا کہ اسے اُٹھایا نہ جا سکے اور نہ ہی کوئی اتنا بدی میں غرق ہوا ہے کہ مسیح اسے بچا نہ سکے۔ سب ہی مسیح میں مخلصی پا سکتے ہیں دیکھئے وہ شخص جس میں بدروح تھی دعا کی بجائے اس کے منہ سے ابلیس کا کلام نکلتا تھا۔ مگر وہ التماس جو اس کے دل سے نکلی یہ تھی مسیح خُداوند نے سن لی۔SKC 53.1

    کسی بھی روح کی کوئی بھی نیک ضرورت یا التجا بےشک وہ اونچی آواز میں نہ بھی کی جائے خُدا اس کو نظر انداز نہ کرے گا۔ وہ جو خُدا کے عہد میں شامل ہوتے ہیں نہ تو وہ اپنی کمزوریوں میں چھوڑے جاتے ہیں اور نہ ابلیس کے قبضے میں۔ SKC 53.2

    “کیا زبردست سے شکار چھین لیا جائے گا؟ اور کیا راست بازکے قیدی چھڑا لیے جائیں گے؟ خُداوند یوں فرماتا ہے کہ زور آور کے اسیر بھی لے لیے جائیں گے اور مہیب کے شکار چھڑا لیا جائے گا کیو\نکہ میں اس سے جو تیرے ساتھ جھگڑتا ہے جھگڑا کروں گا اور تیرے فرزندوں کو بچا لوں گا” یسعیاہ 25،24:49۔ جو ایمان سے نجات دہندہ کے لیے اپنے دل کے دروازے کھولتا ہے اس کے لیے بڑی ہی شاندار تبدیلی وقوع میں آئے گی۔SKC 53.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents