Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    آرام بطور علاج

    بعض لوگ بہت زیادہ کام کر کے خود کو بیمار کر لیتے ہیں۔ ایسوں کے لیے آرام، فکروں سے آزادی، سادہ اور قلیل غذا صحت کی بحالی کے لیے بہت ضروری ہیں۔ وہ جو ذہنی اور اعصابی تکلیف میں مبتلا ہیں اور بدستور ایک ہی ڈگر پر کام کرنے کی وجہ سے اور ایک ہی جگہ رہنے سے پریشان ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ دیہاتی زندگی کا نظارہ کریں جہاں وہ سادگی سے رہیں۔ فکروں سے آزاد ہو کر دن گزاریں، فطرت کی صحبت حاصل کریں۔ تو یہ سب کچھ ان کے لیے بہت ہی مفید ثابت ہو گا۔ جنگلوں اور کھیتوں کی سیر کریں، پھولوں کو توڑیں۔ پرندوں کے نغمے سنیں تو اُن کی صحت کی بحالی کے لیے جو کچھ فطرت کرے گی کوئی اور چیز نہیں کر سکتی۔ SKC 161.3

    بیماری اور تندرستی دونوں میں صاف شفاف پانی خُداوند تعالیٰ کی بہترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اس کا مناسب استعمال صحت کی نشوونما کے لیے بہت اچھا ہے۔ یہی وہ مشروب ہے جو خُداوند نے انسانوں اور حیوانوں دونوں کی پیاس بجھانے کے لیے مہیا کیا ہے۔ جتنا پی سکتے ہیں پئیں یہ ہمارے پورے بدنی نظام ضروریات کو پورا کرتا ہے اور فطرت کے ساتھ ملکر بیماری کا مقابلہ کرتا ہے۔SKC 162.1

    پانی کو بدن کی بیرونی سطح پر استعمال کرنا دوران خون کو رواں دواں رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ٹھنڈے پانی سے غسل لینا نہایت ہی مقوی دوا ہے جب کہ گرم پانی مساموں کو کھولتا اور بدن کی کثافتوں کو باہر نکالنے میں مدد کرتا ہے ۔ دونوں سرد اور گرم پانی کے غسل نسوں کو آرام اور دورانِ خون کو اعتدال پر رکھتے ہیں۔ SKC 162.2

    مگر زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جنہوں نے پانی کے مناسب استعمال کے فوائد کا تجربہ ہی نہیں کیا۔ بلکہ وہ اس سے گھبراتے ہیں۔ پانی سے علاج کے طریقہ کار کی ویسی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی جیسی کہ کی جانی چاہیے۔ کیونکہ پانی کے علاج کے لیے کافی مہارت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے جو بہت سے لوگ کرنا نہیں چاہتے، مگر اس کے باوجود سب کو پانی کے علاج کے طریقہ کار سے بخوبی واقفیت ہونی چاہیے۔ کیونکہ بہت سے ایسے طریقے ہیں جن کے زریعے پانی کو استعمال کر کے درد کو دور نیز بیماری کو روکا جا سکتا ہے۔ پانی کے اس سادہ گھریلو علاج کے بارے میں سب کو شعور ہونا چاہیے۔ خصوصاً ماں کو جاننا چاہیے کہ بیماری کی صورت میں خاندان کو کیسے علاج دینا اور سنبھالنا ہے۔SKC 162.3

    عمل یا حرکت ہماری ہستی کی دلیل ہے۔ ہمارے بدن کے ہر عضو کو کام سونپا گیا ہے۔ اس کی طاقت اور نشوونما کا انحصار کام کرنے پر ہے۔ تمام اعضا کے حسب معمول اور باقاعدگی سے کام کرنے کی بدولت تندرستی اور طاقت حاصل ہوتی ہے۔ جب کہ ان کا بیکار رہنا موت اور بدن کی خستگی کو دعوت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بازو کو صرف چند ہفتوں کے لیے باندھ دیں اور اسے بالکل حرکت نہ دیں اور پھر اس کے بند کھول دیں۔ آپ محسوس کریں گے کہ جس ہاتھ کو آپ باقاعدگی سے استعمال کرتے رہے ہیں وہ اس بازو سے طاقتور ہے جس کو باندھ رکھا تھا۔ بیکاری بھی ہمارے پورے پٹھوں کے نظام پر کمزوری کا تاثر چھوڑتی ہے۔ SKC 162.4

    بیکاری بیماری کی بہت بڑی وجہ ہوتی ہے۔ جب کہ ورزش دورانِ خون کو تیز اور اعتدال پر رکھتی ہے مگر بیکاری میں خون آزادی کے ساتھ حرکت نہیں کرتا اور نہ ہی اس میں زندگی اور صحت کے بارے میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ ہماری جلد بھی بے رونق ہو جاتی ہے۔ بدن کی کثافتیں اس طرح بدن سے خارج نہیں ہوتیں جیسی ورزش کے سبب ہوتی ہیں۔ اگر ورزش کی جائے تو جلد صحت مند حالت میں رہتی ہے اور پھیپھڑوں میں کافی صحت مند اور صاف شفاف ہوا داخل ہوتی ہے۔ جب کہ بیکاری بدن کی کثافتوں کو بدن سے باہر نکالنے کے عمل کو سست کرتی اور نظام بدن پر دُگنا بوجھ ڈال دیتی ہے۔ SKC 162.5

    کسی معذور کی بھی حوصلہ افزائی نہ کی جائے کہ وہ بیکار ہے۔ ہاں البتہ کام وغیرہ یا کسی اور بات میں زیادتی ہو گئی ہو تو تھوڑی دیر کے لیے مکمل آرام اکثر شدید بیماری سے بچا سکتا ہے۔ مگر معذوری کی تصدیق ہو جانے کی صورت میں یہ ہرگز ضروری نہیں کہ تمام کی تمام سرگرمیاں روک دی جائیں۔ SKC 163.1

    وہ جو دماغی کام کی زیادتی سے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں انہیں تھکا دینے والے خیالات سے آرام پانے کی ضرورت ہے۔ مگر ان کو یہ یقین نہ دلایا جائے کہ تھوڑا بہت دماغی کام بھی ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بعض لوگوں کی حالت اتنی خراب نہیں ہوتی جتنی وہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح کی سوچ صحت کی بحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ SKC 163.2

    خادم، اساتذہ، طالب علم اور دوسرے لوگ جو دماغی کام کرتے ہیں وہ اکثر زیادہ پڑھائی لکھائی کرنے کی وجہ سے بیمار پڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں جسمانی ورزش کرنے سے بھی افاقی نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کی زندگی میں زیادہ جسمانی سر گرمیاں ہونی چاہئیں۔ انہین سختی سے اعتدال پسند عادات اپنانا چاہیے۔ اس کیساتھ ساتھ اُنہیں مناسب ورزش پر دھیان دینا چاہیے۔ ہوں انہیں جسمانی اور دماغی دونوں طرح کی قوت نصیب ہو گی۔ اور وہ بآسانی دماغی کاموں کے بوجھ کو برداشت کر سکیں گے۔ SKC 163.3

    ایسے حضرات جنہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنی جسمانی قوت کو پہلے ہی کسی کام میں بہت زیادہ استعمال کیا ہو انہیں مزید جسمانی مشقت کی ترغیب نہ دی جائے۔ مشقت بھی وہ کی جائے جس میں فائدہ ہو۔ اور باقاعدگی سے کی جائے اور آپ کے جسم کے مطابق ہو۔ کھلی فضا میں ورزش کرنا بہت بہتر ہے۔ اور یہ ورزش بھی اس طرح کی ہو کہ جو اعضا کمزور پڑ چکے ہیں ان کو تقویت ملے۔ اور یہ پوری لگن سے کی جائے۔ محنت مشقت کبھی بھی مجبوری کے تحت نہ کی جائے جیسے کوئی غلام کرتا ہے بلکہ رضا و رغبت، خوشی خوشی محنت مشقت کو ہاتھ لگایا جائے۔ SKC 163.4

    معذور لوگوں کے پاس جب کچھ بھی کرنے کو نہیں ہوتا تو ان کی ساری توجہ اپنی مصیبت کی طرف لگ جاتی ہے جس سے وہ اُداس اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ اپنے خیالات میں خود کو اتنا بیمار تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں جتنے وہ حقیقت میں نہیں ہوتے۔ لہٰذا وہ اتنے بے دل ہو جاتے ہیں کہ ان سے کچھ بھی نہیں ہو پاتا۔SKC 164.1

    ان تمام حالات کے پیش نظر جسمانی ورزش نہایت موثر ذریعہ علاج ہے۔ ایسا کرنے سے بعض شفا پا لیتے ہیں۔ ان کا ارادہ اور ہاتھ دونوں ملکر کام کرتے ہیں۔ معذوروں کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ قوت ارادی ہے، جسے بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب قوت ارادی کو سلا دیا جاتا ہے، تو تصورات معمول کے خلاف اور بے قاعدہ ہو جاتے ہیں۔ پھر بیماری کی مزاحمت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ SKC 164.2

    بیکاری سب سے بڑی لعنت ہے جو بہتیرے معذوروں پر آتی ہے۔ چھوٹی موٹی ملازمت جس کا بہت زیادہ بوجھ جسم اور دماغ پر نہ پڑے اس کا اثر بدن اور دماغ دونوں پر بہت اچھا پڑتا ہے۔ اس سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ دوران خون بہتر ہوتا ہے۔ اور معذور کو تسلی ملتی ہے کہ وہ اس مصروف دُنیا میں مکمل طور پر بے سود نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ابتدا میں زیادہ کام نہ کر سکے۔ لیکن اسے جلد معلوم ہو جائے گا کہ اس کہ قوت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسی طرح بتدریج کام کی رفتار میں بھی اضافہ ہو گا۔ SKC 164.3

    ورزش معدے کے مریض کے نظامِ ہضم کو تقویت دیتی ہے۔ کھانے کے فوراً بعد مطالعہ میں منہمک ہوجانا یا کوئی اور سخت جسمانی ورزش میں مشغول ہونا ہاضمہ کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ مگر کھانا کھانے کے بعد سر اونچا اور کندھے پیچھے کی طرف کر کے تھوڑی سی سیر کرنا مفید ہے۔SKC 164.4

    ہر چند کہ جو کچھ کہا گیا اور جو کچھ لکھا گیا ہے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے لیکن پھر بھی بہتیرے ایسے ہیں جو جسمانی ورزش سے گریز کرتے ہیں۔ بعض جن کے نظام میں خلل واقع ہو جاتا ہے وہ موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں جب کہ بعض بڑے دبلے پتلے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ زائد کھائے ہوئے کھانے کو ہضم کرنے میں اُن کی زیادہ تر قوت ضائع اور صرف ہوجاتی ہے۔ جگر پر کثافتوں کا بڑا بوجھ پڑتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں بیماری آ جاتی ہے۔ SKC 164.5

    وہ جن کا کام لکھائی پڑھائی کا ہے یعنی دفتروں میں ہی بیٹھ کر کام کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ ہر روز اگر موسم اجازت دے تو باہر کھلی ہوا میں باقاعدہ ورزش کیا کریں۔ سرما اور گرما دونوں موسموں میں ورزش کو ترک نہ کریں۔ گھوڑا سواری، ڈرائیونگ وغیرہ سے سیر بدرجہ ہا بہتر ہے۔ کیونکہ اس سے بدن کے زیادہ سے زیادہ پٹھے حرکت میں آتے ہیں اور پھیپھڑے صحت بخش عمل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ان کو پھیلائے بغیر ہم تیز چل ہی نہیں سکتے۔SKC 164.6

    اس طرح کی ورزش بعض حالات میں دوا سے بھی زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔ طبیب اکثر اپنے مریضوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ سمندری سفر اختیار کریں ایسے چشمے کی سیر کریں جس میں زیادہ معدنیات پائی جاتی ہوں۔ یا ہوا بدلی کے لیے کسی اور مقام پر چلے جائیے۔ لیکن اگر وہ مریض اعتدال کے ساتھ کھائیں پئیں۔ مناسب حال صحت بخش ورزش کریں وہ ضرور صحت یاب ہو جائیں گے۔ یوں وہ اپنا وقت اور پیسہ بھی بچا سکیں گے۔ SKC 165.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents