گا کر ستائش کرنا
خُداوند کی تعریف اور شکر گزاری گا کر کی جائے۔ جب آزمائش آئے تو مایوس ہونے کی بجائے ایمان کے ذریعے خُداوند کی شکر گزاری گا کر کریں۔SKC 176.3
“اے خُداوند خُدا ہم یسوع مسیح کی محبت کے لیے تعریف کرتے ہیں۔ جس نے ہماری خاطر جان دی اور زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گیا۔ خُداوند ہم تیری اس ضیا کی تعریف کرتے ہیں جس کی روشنی میں ہم نے اپنے نجات دہندہ کو دیکھا۔ تمام حمد اور جلال اس کے نام جو ہماری خاطر قربان ہو گیا۔ جس نے ہمارے گناہ اپنے اوپر لے لئے اور ہمیں گناہ سے پاک صاف کر دیا۔ تمام تعریف اور جلال اسی خُداوند کو پہنچے جس سے ہر طرح کا فضل صادر ہوتا ہے۔ جس نے ہمیں خریدا ڈھونڈا اور ہماری رہنمائی کی۔ اپنی محبت سے ہمارے دلوں کو معمور کیا۔ دعا ہے کہ ہر ایک روح اس آگ سے روشن ہوجائے جو تیری طرف سے نازل ہوتی ہے۔ ہیلیلویاہ! جلال تیرا ہی ہے۔ آمین”۔ گیت ایک ایسا ہتھیار ہے جو ہم ہر وقت پست ہمتی کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ جب ہم یسوع مسیح کی حضوری کی دھوپ میں اپنے دل کو وا کرتے ہیں، تو ہمیں اس کی برکات اور صحت نصیب ہو گی۔ SKC 176.4
“خُداوند کا شکر کرو کیونکہ وہ بھلا ہے اور اس کی شفقت ابدی ہے، خُداوند کے چھڑائے ہوئے یہی کہیں۔ جن کو اس نے فدیہ دے کر مخالف کے ہاتھ سے چھڑا لیا” زبور 2-1:107۔SKC 177.1
“اس کی تعریف میں گاؤ۔ اس کی مدح سرائی کرو۔ اس کے تمام عجائب کا چرچا کرو۔ اس کے مقدس نام پر فخر کرو۔ خُداوند کے طالبوں کے دل شادمان ہوں” زبور 3-2:105۔SKC 177.2
“کیونکہ وہ ترستی جان کو سیر کرتا ہے اور بھوکی جان کو نعمتوں سے مالا مال کرتا ہے۔ جو اندھیرے اور موت کے سایہ میں بیٹھے مصیبت اور لوہے سے جکڑے ہوئے تھے۔ تب اپنی مصیبت میں انہوں نے خُداوند سے فریاد کی اور اس نے ان کو ان کے دکھوں سے رہائی بخشی۔ وہ ان کو اندھیرے اور موت کے سایہ سے نکال لایا۔ اور ان کے بندھن توڑ ڈالے۔ کاش کہ لوگ خُداوند کی شفقت کی خاطر اور بنی آدم کے لیے اس کے عجائب کی خاطر اس کی ستائش کرتے” زبور 15-9:107۔SKC 177.3
“اے میری جان! تو کیوں گری جاتی ہے؟ تو اندر ہی اندر کیوں بے چین ہے؟ خُداوند سے امید رکھ کیونکہ وہ میرے چہرے کی رونق اور میرا خُدا ہے۔ میں پھر اس کی ستائش کروں گا” 1 تھسلنیکیوں 18:5۔ SKC 177.4
یہ اس بات کی یقین دہانی ہے کہ خواہ حالات ہمارے خلاف ہی کیوں نہ نظر آتے ہوں وہ ہماری بھلائی میں ہی ہونگے۔ خُداوند خُدا ہمیں اس چیز کے لیے شکر گزار ہونے کے لیے حکم نہ دے گا جو ہمارے نقصان کے لیے ہو۔ “خُداوند میری روشنی اور میری نجات ہے۔ مجھے کس کی دہشت؟ خُداوند میری زندگی کا پشتہ ہے۔ مجھے کس کی ہیبت؟” زبور 1:27۔SKC 177.5
“کیونکہ مصیبت کے دن وہ مجھے اپنے شامیانہ میں پوشیدہ رکھے گا۔ وہ مجھے اپنے خیمہ کے پردہ میں چھپا لے گا۔ وہ مجھے چٹان پر چڑھا دے گا۔ اب میں اپنے چاروں طرف کے دشمنوں پر سرفراز کیا جاؤں گا۔ میں اس کے خیمہ میں خوشی کی قربانیاں گذاروں گا۔ میں گاؤں گا۔ میں خُداوند کی مدح سرائی کروں گا” زبور 6-5:27۔SKC 177.6
“میں نے صبر سے خُداوند پر آس رکھی۔ اس نے میری طرف مائل ہو کر میری فریاد سنی۔ اس نے مجھے ہولناک گڑھے اور دلدل کی کیچڑ میں سے نکالا۔ اور اس نے میرے پاؤں چٹان پر رکھے اور میری روش قائم کی اس نے ہمارے خُدا کی ستائش کا نیا گیت میرے منہ میں ڈالا” زبور 3-1:40۔SKC 177.7
“خُداوند میری قوت اور میری سپر ہے۔ میرے دل نے اس پر توکل کیا ہے اور مجھے مدد ملئ ہے۔ اسی لیے میرا دل نہایت شادمان ہے۔ اور میں گیت گا کر اس کی ستائش کروں گا” زبور 7:28۔SKC 178.1
بیماروں کے شفا نہ پانے کی ایک یقینی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ اپنے اوپر جمائے رکھتے ہیں۔ زیادہ تر معذور یہ محسوس کرتے ہیں کہ باقی تمام لوگ ان کی غمخواری کریں جب کہ انہیں یہ چاہیے اپنی طرف سے توجہ ہٹا کر دوسروں کی فکر کریں۔ دوسروں کے بارے میں سوچیں۔ اکثر مصیبت زدگان، غمزدگان اور ان لوگوں کے لیے دعا مانگی جاتی ہے جو پست ہمت ہو چکے ہیں اور درست بھی ہے۔ ہمیں ان کے لئے یہ دعا مانگنی چاہیے کہ خُداوند ان کے تاریک ذہنوں میں اپنی روشنی چمکا اور ان کے دکھی دلوں میں اپنا آرام بخشے۔ لیکن خُداوند ان کی دعاؤں کا جواب دیتا ہے جو اپنے آپ کو خُداوند کی برکات کے چشموں کے آس پاس رکھتے ہیں۔ جب ہم دکھیوں کے لیے دعا مانگتے ہیں تو چاہیے کہ ہم ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ خود بھی ان ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی کوشش کریں جن کی حالت ان سے بدتر ہے جب وہ دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کے دلوں سے اندھیرا دور ہوتا چلا جائے گا۔ جب ہم اس اطمینان سے جو ہمیں حاصل ہوا ہے دوسروں کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں تو خُداوند ہمیں اس کے عوض برکت عطا فرماتا ہے۔ SKC 178.2
یسعیاہ نبی کے اٹھاون باب میں روح اور بدن کی بیماریوں کا علاج بتایا گیا ہے۔ اگر ہم زندگی کے لیے حقیقی خوشی چاہتے ہیں تو کلام مقدس کے اس حصے میں جو قانون بتائے گئے ہیں ان پر عمل پیرا ہونا از حد ضروری ہے۔ یہی معقول عبادت ہے اور اس کی زائد برکات حاصل کرنے کے بارے میں خُداوند یوں فرماتا ہے ۔۔۔۔۔SKC 178.3
“کیا یہ نہیں کہ تو اپنی روٹی بھوکوں کو کھلائے اور مسکینوں کو جو آوارہ ہیں اپنے گھر میں لائے اور جب کسی کو ننگا دیکھے تو اسے پہنائے اور تو اپنے ہم جنس سے روپوشی نہ کرے؟ تب تیری روشنی صبح کی مانند پھوٹ نکلے گی اور تیری صحت کی ترقی جلد ظاہر ہوگی۔ تیری صداقت تیری ہر اول ہو گی اور خُداوند کا جلال تیرا چنڈاول ہو گا۔ تب تو پکارے گا اور خُداوند خُدا جواب دے گا۔ تو چلائے گا اور وہ فرمائے گا میں یہاں ہوں اگر تو اس جوئے کو اور انگلیوں سے اشارہ کرنے کو اور ہرزہ گوئی کو اپنے درمیان سے دور کرے گا۔ اور اگر تو اپنے دل کو بھوکے کی طرف مائل کرے اور آرزدہ دل کو آسودہ کرے تو تیرا نور تاریکی میں چمکے گا اور تیری تیرگی دوپہر کی مانند ہو جائے گی۔ اور خُداوند سدا تیری رہنمائی کرے گا اور خشک سالی مں تجھے سیر کرے گا اور تیری ہڈیوں کو قوت بخشے گا۔ پس تو سیراب باغ کی مانند ہو گا اور اس چشمہ کی مانند جس کا پانی کم نہ ہو” یسعیاہ 11-7:58۔ SKC 178.4
بھلائی کے کام دہری برکت کے حامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ جو بھلائی کرتا ہے اور جس کے لئے بھلائی کا کام کیا جاتا ہے وہ دونوں ہی برکت پاتے ہیں۔ راست اور درست کام کرنے کا احساس اور شعور بیمار بدن اور دماغ کے لیے بہترین دوائیوں میں سے ایک دوا ہے۔ جب دماغ دوسروں کی دلداری اور اصلاح کرنے کے فرض سے پوری طرح آزاد، مطمئن اور شادمان ہے، تو یہی احساس ساس کے پورے بدن میں نئی زندگی لائے گا۔ SKC 179.1
معذور حضرات جو مسلسل غمخواری اور دلداری کے جوئیاں رہتے ہیں۔ اپنی ہمدردی دوسروں کو دیں۔ اپنی کمزوری اور دکھوں کا بوجھ نجات دہندہ کے رحم کے حوالہ کریں۔ اس کی محبت کو حاصل کرنے کے لیے اپنا دل کھولیں اور یہاں سے دوسروں کے لیے محبت کو جاری کریں۔ یاد رکھئے گا کہ سب کے سامنے مشکل آزمائشیں ہیں جن کا ان کو مقابلہ کرنا ہے۔ سب کے لیے مصائب ہیں جن کو انہوں نے برداشت کرنا ہے اور شاید آپ ہی ہیں جنہوں نے ان کے بوجھ کو ہلکا اور آسان کرنا ہے۔ جو برکتیں آپ کو ملی ہیں ان کا اظہار کریں اور جو توجہ آپ کو ملی ہو اس کے لئے شکر گزار ہوں۔ خُداوند کے قیمتی وعدوں سے اپنے دل کو بھرپور کریں تاکہ اس خزانے سے آپ دوسروں کے لیے آرام اور تسلی اور ہمت افزائی کا کلام پیش کر سکیں۔ یہ نیک اقوال آپ کو ایسی فضا میں گھیر لیں گے جو آپ کے لئے مددگار ثابت ہوں گے۔ اس سے آپ کی روح بلند ہو گی۔ یہ آپ کا مقصد حیات ہونا چاہیے کہ جو آپ کے گردوپیش میں رہتے ہیں ان کے لیے برکت کا باعث بنیں۔ یوں آپ دوسروں کے لیے اور اپنے خاندان کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔ جو لوگ بیمار ہیں دوسروں کی خاطر اپنے آپ کو بھول جائیں یعنی خود انکاری کا مظاہرہ کریں اور خُداوند کے حکم کو مانتے ہوئے ان کی خدمت میں لگ جائیں جو ان سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔ پھر وہ نبی کے کئے ہوئے وعدہ میں صداقت کو پائیں گے۔ “تب تیری روشنی صبح کی مانند پھوٹ نکلے گی اور تیری صحت کی ترقی جلد ظاہر ہوگی۔”SKC 179.2