Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    دوسرا باب - خدمت کے ایام

    کفر نجوم میں ماہی گیر کے گھر پطرس رسول کی ساس کو خُداوند مسیح نے تپ میں پڑی دیکھا۔ اُس نے اُس کا ہاتھ چھوُا اور تپ اُس پر سے اُتر گئی اور وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور اُس کی اور شاگردوں کی خدمت کرنے لگی۔ لوقا 38:4، مرقس 30:1، متی 15:8۔SKC 14.1

    یہ خوشی کی خبر آنا فانا جنگل کی آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی۔ یہ معجزہ سبت کے روز وقوع میں آیا تھا۔ مگر لوگ ربیوں کے ڈر کے باعث سورج غروب ہونے تک شفا لینے نہ آۓ۔ سورج غروب ہونے کے بعد لوگ گھروں، دکانوں، منڈیوں بلکہ ہر جانب سے اُس گھر کی طرف چل پڑے جہاں مسیح خُداوند ٹھہرا ہوا تھا۔ بعض مریضوں کو پالکیوں میں لایا گیا۔ بعض عصا کے سہارے چلے آتے تھے۔ بعض کو ان کے رشتے دار سہارے دے کر لا رہے تھے۔ مگر ہر ایک اسی کوشش میں تھا کہ مسیح کے چرنوں میں جگہ پاۓ۔ کئی گھنٹوں تک لگاتار بیمار آتے جاتے رہے کیونکہ اُن میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ عظیم طبیب کل اُن میں ہو گا یا نہیں۔ کفر نحوم میں اس طرح کا بابرکت دن کبھی نہ آیا تھا۔ فضا نجات اور فتح کے نعروں سے گونج اُٹھی۔SKC 14.2

    خُداوند یسوع مسیح نے اُس وقت تک آرام نہ کیا جب تک تمام مریضوں نے شفا نہ پا لی. حتٰی کہ کفر نحوم میں کوئی بیمار نہ رہا۔ کافی رات بیت گئی جب ہجوم شمعون کے گھر سے رخصت ہوا۔ اُن کے جانے کے بعد اس گھر میں سکوت اور سکون آیا۔ گہما گہمی اختتام کو پہنچی اور نجات دہندہ نے آرام فرمایا۔ مگر منہ اندھیرے ہی جب شہر گہری نیند کے مزے لوٹ رہا تھا، تڑکا ہونے سے بہت پہلے نجات دہندہ بیدار ہو گیا کیونکہ لکھا ہے “ اور صبح ہی دن نکلنے سے بہت پہلے وہ اُٹھ کر نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہاں دُعا کی” مرقس35:1 ۔ اور صبح سویرے پطرس اور اس کے ساتھی اس کے پیچھے گئے اور کہا لوگ تجھے کفر نحوم میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ مگر وہ خُداوند مسیح کا جواب سن کر حیران رہ گئے جب اس نے ان سے کہا “آؤ ہم اور کہیں آس پاس کے شہروں میں چلیں تا کہ میں وہاں بھی منا دی کروں۔ کیونکہ میں اسی لیے نکلا ہوں” لوقا 43:4، مرقس 38:1 ۔SKC 14.3

    خُداوند یسوں مسیح نہیں چاہتا تھا کہ کفر نحوم میں پایا جانے والا جوش و خروش اُس کی خدمت میں رکاوٹ کا باعث بنے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کی توجہ اصل مقصد سے ہٹ کر محض اس طرف لگ جاۓ کہ وہ عظیم طبیب ہے اور بڑے بڑے معجزے دکھا کر دُنیا کو حیران کرتا ہے یا وہ صرف جسمانی شفا کا ماہر ہے۔ بلکہ اُس کا اصل مشن تو یہ تھا کہ بنی آدم اُسے نجات دہندہ کے طور پر قبول کریں۔SKC 15.1

    عام لوگوں کا یہ ایمان تھا کہ مسیح خُداوند زمینی بادشاہی قائم کرنے آیا ہے۔ مگر اس کی یہ تمنا تھی کہ اُن کے خیالات جذبات، رجحانات جسمانی اور زمینی چیزوں سے ہٹا کر آسمانی اور روحانی چیزوں کی طرف لگاۓ۔ محض زمینی کامیابی تو اُس کے اپنے کام میں رکاوٹ کا باعث تھی۔SKC 15.2

    اور بے پرواہ ہجوم کا شک و شبہ اور تعجب اُس کی روح پر سخت ناگوار گزرتا تھا۔ اپنی مرضی منوانا اُس کی زندگی سے بیعد تھا۔ وہ عزت جو اعلٰی مرتبے، دولت یا کسی بڑے فن کے سبب ہوتی ہے۔ ابن آدم سے کوسوں دور تھی وہ ان میں سے کسی بھی چیز کا متمنی نہ تھا۔ اُس کی پیدائش سے صدیوں پہلے یہ پیشینگوئی کی گئی تھی۔ “ وہ نہ چلاۓ گا نہ شور کرے گا اور نہ بازاروں میں اُس کی آواز سنائی دے گی۔ وہ مسلے ہوۓ سر کنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی ہوئی بتی کو نہ بجھاۓ گا۔ وہ راستی سے عدالت کرے گا” یسعیاہ3,2:42 ۔SKC 15.3

    فریسی اپنا امتیاز، رسم و رواج کے آداب اور اُن کئ پابندی کرنے ، عبادتوں کے طمطراق اور ظاہری نمائش اور سخاوت کرنے میں ڈھونڈتے تھے۔ وہ اپنے اس مذہبی جوش و خروش اور جنون کو بحث مباحثہ کر کے ثابت کرتے تھے۔ اختالاف راۓ کی صورت میں بڑا ہنگامہ اور شور شرابا سُنا جا سکتا تھا۔ اور شریعت کے معلم بازاروں میں بھی اختلاف راۓ رکھنے والوں پر برس پڑتے تھے۔SKC 15.4

    مگر خُداوند یسوع مسیح کی زندگی بیان کردا عیوب کے بالکل برعکس تھی۔ نہ تو وہ ہنگامہ کرتا تھا۔ نہ اُس کی عبادت ظاہری نمود کے لیے ہوتی تھی اور نہ ہی وہ اپنی ستائش کا متمنی تھا۔ مسیح یسوں خُداوند میں پوشیدہ تھا اور خُداوند خدا کی سیرت اُس کے ذریعہ نمودار ہوتی تھی اور یہی اُس کی خواہش تھی کہ بنی آدم اس بڑے مکاشفہ سے آگاہ ہو جائیں۔SKC 15.5

    راست بازی کا سورج دُنیا پر اس لۓ تابناک نہ ہوا کہ وہ اپنے جلال سے ان کی آنکھیں خیرہ کر دے۔ کیونکہ لکھا ہے------ “اُس کا ظہور صبح کی مانند یقینی ہے۔ ہو سیع 3:6----چپکے مگر دل رُبا انداز سے زمین پر نور کا تڑکا ہوتا ہے جس سے تمام ظلمت دور ہوتی اور سونے والے بیدار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح راستبازی کا سورج ” طالعِ ہو گا اور اُس کی کرنوں میں شفا ہو گی” ملا کی 2:4۔SKC 15.6

    ہیرودیس کی قید میں جہاں پر پریشانی اور مایوسی ہی مایوسی تھی۔ اس قید میں سے یوحنا بپتسمہ دینے والا نجات دہندہ کے کام کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا اور رہائی کی انتظار میں تھا۔ مگر جب بالکل مایوس ہو گیا تو دو شاگردوں کو یہ پیغام دے کر نجات دہندہ کے پاس روانہ کیا “کہ آنے والا تو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟ متی 3:11 ۔SKC 16.1

    نجات دہندہ نے یوحنا کے شاگردوں کو فورا کوئی جواب نہ دیا۔ جب وہ اس کی خاموشی پر حیران کھڑے تھے تو اُنہوں نے دیکھا کہ دُکھی لا چار اور بیمار لوگ اس کے پاس آنا شروع ہو گئے۔ عظیم طبیب کی آواز بہرے کانوں کو پہنچی اور وہ سننے لگے۔ اس کے کلام اور مبارک ہاتھوں نے نابینوں کی آنکھوں کو چُھوا تاکہ وہ دن کی روشنی، فطرت کی رعنائیاں، دوستوں اور عزیزوں کے چہرے اور اپنے نجات دہندہ کو دیکھ سکیں۔ اُس کی آواز پثر مردہ اور قریب المرگ مریضوں تک پہنچی۔ اُن میں تازگی آ گئی اور وہ بیماری کے بستر پر کھڑے ہوۓ۔ جن کو ابلیس نے مفلوج کر رکھا تھا۔ اور جن کی عقل جاتی رہی اُس کا کلام سنتے ہی صحت یاب ہو گئے۔ اُن کی عقل اُن میں واپس آ گئی اور وہ اُس کی پرستش کرنے لگے۔SKC 16.2

    سادہ دل دیہاتی، اَن پڑھ لوگ جنہیں ربیوں نے نجس جان کر رد کر دیا تھا نجات دہندہ کے گرد جمع ہوتے گئے۔ نجات دہندہ نے اُنہیں ابدی زندٓگی کا کلام سنایا۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے دونو شاگردوں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا۔ یوں نجات دہندہ کا پورا دن بڑا مصروف گزرا۔ دن کے اختتام پر خُداوند مسیح نے اُنہیں اپنے پاس بلا کر کہا کہ جو کچھ تم نے دیکھا اور سنا ہے جا کر یوحنا کو بتاؤ۔ مزید فرمایا “ مبارک ہے وہ جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھاۓ” متی 6:11 ۔ کیونکہ اب اُسے یسوع مسیح وہ پیشینگوئی یاد آئی جو یوں مرقوم ہے۔ “ خُداوند خُدا کی روح مجھ پر ہے کیونکہ اُس نے مجھے مسح کیا تاکہ حلیموں کو خوشخبری سناؤں۔ اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ شکستہ دلوں کو تسلی دوں۔ قیدیوں کے لیے رہائی اور آسیروں کے لیے آزادی کا آعلان کروں۔ تا کہ خُداوند کے سالِ مقبول کا اور اپنے خُدا کے انتقام کے روز کا اشتہار دوں اور سب غمگینوں کو دلاسا دوں” یسعیاہ1:61 ،2 ۔ یسوع ہی موعودہ مسیح تھا ۔ اُس کی الوہیت کا ثبوت اُس کی اُس خدمت میں ملتا ہے جو اُس نے دُکھی انسانیت کے لیے کی۔ خُداوند یسوع کا کام صرف اُسے مسیح موعود کی حیثیت سے ہی پیش نہیں کرتے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اس کی بادشاہت کس قسم کی ہو گی۔ یوحنا پر وہی سچائی آشکارہ کی گئی جو صحرا میں ایلیاہ پر ظاہر کی گئی جب “ ایک بڑی تُند آندھی نے خُداوند کے آگے پہاڑوں کو چیڑ ڈالا اور چٹانوں کے ٹکڑے کر دئیے۔ پر خُداوند آندھی میں نہ تھا۔ اور آندھی کے بعد زلزلہ آیا پر خُداوند زلزلہ میں نہیں تھا۔ اور زلزلہ کے بعد آگ آئی پر خُداوند آگ میں بھی نہ تھا۔ اور آگ کے بعد ایک دبی ہوئی ہلکی آواز آئی” 1 سلاطین .12,11:19SKC 16.3

    لہزا خُداوند یسوع مسیح اس دُنیا کی سلطنتوں کو زیر کرنے نہیں بلکہ بنی آدم کے دل میں اپنی بادشاہی ، خودانکاری اور رحم فضل کے وسیلہ قائم کرنے آیا تھا۔ کیونکہ خُداوند کی بادشاہی ظاہری شان و شوکت سے نہیں بلکہ اُس کے کلام کے مکاشفہ اور ہمارے باطن میں روح القدس کی خدمت اور خُداوند تعالٰے کے ساتھ رفاقت رکھنے سے آتی ہے جو خود زندگی کا منبع ہے۔ نیز آسمانی بادشاہت کا عظیم ظہور انسانی فطرت میں اُس وقت دیکھا جاتا ہے جب وہ خُداوند یسوع مسیح کی سیرت کے ساتھ ملکر کاملیت پاتی ہے۔SKC 17.1

    خُداوند یسوع مسیح کے پیروکاروں کو دُنیا کا نور بننا ہے۔ مگر خُداوند اُنہیں یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی کوشش سے چمکو۔ وہ نہیں چاہتا کہ انسان اپنے کاموں سے راستباز ٹھہرے۔ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ وہ خُداوند کے ساتھ تعاون کریں تا کہ جب وہ دُنیا کے ساتھ میل جول کریں تو اُن کی روشنی خُداوند جو نور کا چشمہ ہے آس کے ذریعے چمکے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو اُن کے ہر قول اور فعل سے نور کی شعاعیں ظہور میں آئیں گی۔SKC 17.2

    دولت، مرتبہ، قیمتی سازوسامان، قیمتی فرنیچر یاعمارات خُداوند کے کام کی ترقی کے لیے ضروری نہیں۔ دُنیاوی شان و شوکت خُداوند کی نظر میں ہیچ ہے۔ مگر اُس کی نظر میں غیر مرئی اور ابدی چیزیں زیادہ وقعت رکھتی ہیں۔ ہاں البتہ اول الذ کر چیزیں اچھی اور گراں قدر ہیں اگر وہ موخرالذکر کو حاصل کرنے میں تقویت دیں۔ ظاہری چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتی اگر وہ ہماری سیرت کو خوبصورت بنانے میں مدد نہ کریں- اور سیرت کی خوبصورتی روح القدس کا کام ہے جو وہ ہمارے دلوں پر کرتا ہے۔ جب خُداوند خدا نے اپنا بیٹا ہماری دُنیا کو دیا۔ تو گویا اُس نے نسل آدم کو ابدی دولت عطا فرمائی۔ جس کے مقابلہ میں دُنیاوی دھن دولت ہیچ ہے۔ مسیح خُداوند اس دُنیا میں خُداوند کی ابدی محبت لے کر آیا۔ اس محبت کو ہم خود حاصل کر کے دوسروں کو مفت بانٹ سکتے ہیں-SKC 17.3

    انسانی کوشش نہایت اعلٰی کارکردگی کی حامل ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ خُداوند کیساتھ ملکر پوری جانثاری سے خدمت انجام دے۔ نیز خُداوند کے اس فضل کو ظاہر کرے جس کی بدولت انسان کی اپنی زندگی تبدیل ہو گئی۔ ہمیں دُنیا سے متفرق ہونا ہے کیونکہ خُداوند نے ہم پر اپنی مہر کر رکھی ہے نیز اُس نے ہم میں اپنی محبت کی سیرت جاگزیں کر رکھی ہے۔ بلکہ ہمارے نجات دہندہ نے ہمیں اپنی راستبازی میں چھپا رکھا ہے۔SKC 18.1

    اپنی خدمت کے لیے جب خُداوند کسی مرد یا خاتون کو چنتا ہے تو یہ ہرگز نہیں پوچھتا آیا وہ دولتمند، عالم فاضل اور فصیح زبان کا مالک ہے۔مگر ایک سوال ضرور پوچھتا ہے اور وہ یہ کہ آیا وہ اتنا حلیم ہے کہ میں اُس کو اپنی راہیں سیکھا سکوں؟ کیا میں اُس کے منہ میں اپنا کلام ڈال سکتا ہوں؟ کیا وہ میری نمائندگی کرے گا؟SKC 18.2

    خُداوند ہر ایک فرد کو اسی طرح استعمال کر سکتا ہے جس طرح وہ اپنی رُوح ہمارے بدن کی ہیکل میں ڈال سکتا ہے۔ مگر وہ اسی کام کو قبول کرے گا جو کام اس کی شبیہ کو منعکس کرے گا۔ اس کے پیروکار اُس کے ابدی اصولوں کو دُنیا کے سامنے ایک سند کے طور پر پیش کریں گے۔SKC 18.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents