Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    ستائیسواں باب - کھانے کے غلط انداز

    نہ تو کھانا بہت گرم اور نہ ہی بہت ٹھنڈا کھانا چاہیئے۔ اگر کھانا یخ (سرد) ہے تو ہاضمہ کی قوت اس سے پہلے کہ کھانے کو ہضم کرے اسے گرم کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔اس لئے زیادہ ٹھنڈے مشروبات مضر صحت ہوتے ہیں۔ جبکہ زیادہ گرم کھانے معدے کو ضعیف یعنی کمزور مصمحل کر دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کھانے کے ساتھ جتنا پانی پیا جائے گا کھانے کے ہضم ہونے میں اتنی دقت پیش آئے گی۔ کیونکہ اس سے پہلے کہ ہاضمہ کا عمل شروع ہو پانی کو جذب کرنا لازم ہے۔ زیادہ نمک کا استعمال نہ کریں۔ اچار اور مصالحہ دار کھانوں سے پرہیز کریں۔ پھلوں کا بہتات سے استعمال کریں تو کھانا کھانے کے وقت پیاس کی زیادہ بھڑک جو آپ محسو س کرتے ہیں جا تی رہے گی۔SKC 212.1

    کھانا آہستہ آہستہ اور چبا چبا کر کھایا جائے۔ یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ لعاب دہن کھانے کے ساتھ اچھی طرح مل جائے اور ہاضمہ کے رطوبت عمل پیرا ہو سکے۔ SKC 212.2

    غلط وقت پر کھانا کھانا بھی ایک بڑی قباحت ہے ۔ جیسے سخت محنت مشقت اور ورزش کے بعد۔ کیونکہ اس وقت بندہ تھک کر چور ہو چکا ہوتا ہے ۔ کھانے کے فورا بعد اعصابی قوت پر زبردست دباؤ پڑے گا۔ اور جب کھانا کھانے سے پہلے یا بعد میں دماغ پر خاصہ بوجھ ہو تو پھر ہاضمہ کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ جب ایک شخص ہیجان خیز حالت میں ہو ( پریشانی یا غصہ کی حالت) یا شدید خوشی یا غمی کی حالت میں ہو یا پھر اسے کسی طرح کی عجلت (جلدی) ہو تو اس حالت میں اسے کھانے سے گریز کرنا چاہیئےاور جب حالت معمول پر آجائے تب کھانا کھایا جائے۔ فائدہ صرف سکون کی حالت میں کھائے ہوئے کھانے کا ہی ہوتا ہے۔ SKC 212.3

    معدے اور دماغ کا آپس میں بہت قریبی تعلق ہے۔ اگر معدہ بیمار ہے تو اعصابی نظام سے دماغی کمزوری دور کرنے کے لئے کمک پہنچتی ہے ۔ جب دماغ سے اس مدد کا بار بار مطالبہ کیا جائے تو دماغ کے اپنے کام میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ اور جب دماغ پر مسلسل اس طرح کا دباؤ رہے گا اور ورزش سے غفلت برتی جائے گی تو پھر عام سا سادہ کھانا بھی اگر احتیاط سے نہ کھایا جائے گا تو دماغ اور معده دونوں کے لے مشکل پیدا کرے گا- کھانے کے وقت ہر طرح کی فکر اور اشتعال کو دور رکھیں- کھانے میں جلدی نہ کریں- بلکہ آہستہ آہستہ خوش مزاجی سے کھانا کھائیں- اور دل سے خداوند کی تمام دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کریں-SKC 212.4

    بعض جنہوں نے گوشین (گوشت پر مبنی) کھانے چھوڑ دیئے ہیں، یا جنہوں نے مرغن ناشائستہ کھانوں سے منہ موڑ لیا ہے یعنی جو مضر صحت تھے، وہ سوچتے ہیں کہ چونکہ اب ہمارا کھانا سادہ اور صحت بخش ہے اس لئے ہم جتنا جی چاہے کھائیں- سو وہ بہت زیادہ کھانا شروع کر دیتے ہیں اور پیٹو بن جاتے ہیں- یہ انکی سخت غلطی ہے- نظام حزم کو اچھے، بہترین یا سادھے کھانوں سے اس قدر بوجھل نہ کر دینا چاہیے کہ وہ اپنا کام ہی نہ کر سکے-SKC 213.1

    یہ دستور بن گیا ہہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کھانے میز پر لگائے جاتے ہیں- اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اب کونسا کھانا آنے والا ہے- اس لئے ایک شخص پہلے ہی کافی کھا لیتا ہے اور شاید یہ کھانا اس کے مناسب حال نہ تھا- اور جب پھر کھانا آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ زیادتی کر کے اور کھا لیتا ہے کیونکہ اسے اچھا لگتا ہے- اچھا ہو کہ سارے کھانے ایک ہی وقت میز پر ٹکا دیئے جائیں تاکہ ہر کوئی اپنی پسند اور ضرورت کا کھانا پہلے ہی کھا لے-SKC 213.2

    جب حلق تک ٹھونس لیا جاتا ہے تو اکثر اس کا اثر اسی وقت محسوس ہو جاتا ہے- مگر بعض دفعہ درد محسوس نہیں ہوتا مگر ہاضمہ کے اعضا اپنی قوت کھو دیتے ہیں لہٰذا جسمانی قوت کی بنیاد تذبذب کا شکار ہو جاتی ہے-SKC 213.3

    فالتو کھایا ہوا کھانا نظام ہضم پر بوجھ بن جاتا ہے اور بیماری کی کیفیت طاری کر دیتا ہے- انسان مغموم ہو جاتا، تلخی اور پریشانی محسوس کرتا ہے- اس کیفیت کو دور کرنے کیلئے معدہ غیر ضروری خون طلب کرتا ہے جس سے ہاتھوں اور ٹانگوں میں سردی کا احساس ہوتا ہے- اسکا بوجھ ہاضمہ کے اعضا پر پڑتا ہے- اور جب یہ اعضا اپنا کام ختم کر لیتے ہیں تو پھر غشی اور تکان کا احساس ہوتا ہے- وہ جو بدپرہیزی کرتے ہی جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم میں کھانا کھانے کی چاہت جاتی رہی ہے- مگر یہ حالت ہاضمہ کے اعضا کے کام کی زیادتی کے سبب ہوا ہے- بعض اوقات اس کی وجہ سے دماغ سن یا بے حس ہو کر جسمانی اور ذہنی کوششوں سے منہ موڑ لیتا ہے۔SKC 213.4

    یہ ناخوشگوار علامتیں اس لیے ظاہر ہوتی ہے قدرت نے وہ غیر ضروری کام مکمل کر لیا ہے جو زندگی بخش قوتوں نے اس کے ذمہ لگا دیا تھا اور اب وہ مکمل طور پر تھک چکی ہے۔ معدہ کہتا ہے“ مجھے آرام دو”۔SKC 214.1

    مگر بہتیرے ایسے ہیں جو اس غشی کی تعبیر یہ کرتے ہیں کہ اس شخص کو مزید کھانے کی ضرورت ہے۔ لہذا معد ے کوآرام دینے کی بجاۓ اس پر بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ نتیجہ معدے کے اعضا بری طرح شکستہ ہوجاتے ہیں۔ جب کہ انہیں بہتر کارکردگی کا حامل ہونا چاہئیے تھا۔SKC 214.2

    عام دنوں کی نسبت سبت کے دن ہمیں بہتر یا زیادہ کھانا تیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی بجائے کھانا زیادہ سادہ اورکم کھایا جائے تاکہ دماغ بہترسوچ سکے اور روحانی باتوں کو سمجھنے کے لیے بہتر شعور حاصل ہو۔ بوجھل معدے کا مطلب بوجھل دماغ ہے۔ اچھی اچھی باتیں سن کر کر بھی قدر نہ کرنے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غلط غذا کھانے سے دماغ ابتری کا شکار ہو گیا ہے اور انسان بات کی تہہ تک نہیں پہنچ رہا۔ سبت کے دن کھانے میں زیادتی انسان کو اتنا نقصان پہنچاتی ہے جتنا کہ سمجھ بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ و خود کو اس مقدس دن کے خصوصی حق کا فائدہ اٹھانے کے ناہل بنا لیتے ہیں۔SKC 214.3

    سبت کے دن کھانا پکانے سے گریزکیا جائے- مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ٹھنڈا کھانا کھایاجائے۔ موسم سرما میں ایک دن پہلے کا پکا ہوا کھانا سبت کے دن گرم کر لیا جائے۔ کھانا سادہ ہو۔ خوش ذائقہ ہو اور دیکھنے میں بھلا معلوم دے۔ خاص طور پر بچوں والےخاندانوں میں کوئی خاص چیز تیارکر لی جائے جو بچوں کومرغوب ہو۔ یعنی ایسی چیز جو روزانہ گھر ميں تیار نہ ہوتی ہو۔SKC 214.4

    جہاں کھانے کی غلط عادات پڑ چکی ہوں ان کی اصلاح میں دیر نہ کی جائے جو ضعیف معدہ کے باعث بدہضمی یا اسہال تک نوبت آ جائے تو بچی کھچی حیات بخش قوت کو معدے سے اضافی بوجھ دور کر کے اسے محفوظ کر لیا جائے۔ مدت مدیر تک معدے کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد ہوسکتا ہے وہ مکمل طور پرصحت یاب نہ ہو سکے مگر کھانے کے مناسب اوقات مزید خرابی سے بچا سکیں گے۔ اور اگر اس پروگرام پر کاربند رہیں گے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کا معدہ یا تومکمل طور پرشفایاب ہو جاۓ گا یا معمولی سی کسر باقی رہ جائے گی۔ ہرمریض کےعلاج کے لیے اصول واضح کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے جو اسے شفا بخش سکے مگر کھانے کے صحیح اصولوں کی طرف توجہ دینے سے بہت بڑی اصلاح ہوسکتی ہے اور کھانا تيار کرنے والے کو ہردفعہ تگ ودو کرنی پڑے گی۔ کہ ایسا کھانا تیارکرے جو مرغوب اور زود ہضم بھی ہو۔SKC 214.5

    کھانے پینے میں پرہیزگاری کا صلہ زہنی اور اخلاقی قوت کی صورت میں ملتا ہے۔ اور یہ جذبات پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔SKC 215.1

    کھانے پینے میں بدپرہیزی اور زیادتی ان کے لیے خاص طور پر نقصاندہ ہے جو سست اور کاہل مزاج کے مالک ہیں ان حضرات کو احتیاط سے کھاناپینا چاہئے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں کافی ورزش کرنی چاہیے۔ ایسے مرد خواتین موجود ہیں جو نہایت اعلی فطری خوبیوں کےمالک ہیں۔ مگراپنی خداداد صلاحیتوں کے مطابق ان کی کارکردگی نصف بھی نہیں جتنی انکو دکھانی چاہیے اور یہ بھی ممکن ہے اگر وہ ورزش کریں اورکھانے پینے کی بے جا رغبت سےخود انکاری ۔SKC 215.2

    بہتیرے مصنف اور مقرر یہاں ناکام ہو جاتے۔ جی بھر کے کھانے کے بعد وہ لکھنے، پڑھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اور جسمانی ورزش کے لیے کوئی وقت نہیں نکالتے “اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خیالات کی روانی اورالفاظ کی بندش رک جاتی ہے۔ نہ وہ ایسا لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بول سکتے ہیں جودوسروں کے دلوں کو متاثر کر سکے ان کی ساری محنت بےاثر اور بےپھل ثابت ہوتی ہے۔SKC 215.3

    وہ جن کے شانوں پر بڑی اہم ذمہ داریاں خصوصا وہ جو روحانی رہنما ہیں۔ انہیں باشعور اور احساس ہونا چاہیئے۔ دوسروں سے زیادہ انہیں پرہیز گار ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کی میز پر مرغن اورعیش و نشاط کے کھانوں کے لیے بالکل جگہ نہیں ہونی چاہئے۔SKC 215.4

    وہ لوگ جو اعلی مرتبے پرفائز ہیں انہیں ہر روز ایسے فیصلے کرنے ہوتے ہیں جو بڑی ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اکثر انہیں فورا سوچ کر جواب دینا پڑتا ہے یا کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اور اس میں صرف وہی کامیاب ہوتے ہیں جو سختی سے پرہیز گاری کے اصول پر کاربند رہتے ہیں۔ دماغ جسمانی اور ذہنی قوتوں کے درست رویہ کے زیر سایہ ہی مضبوط ہوتا ہے۔ اگر پوری جدوجہد نہ کی جائے، تو پھر بے راہ روئی کے لئے راستے صاف ہوتے ہیں۔ جن کو اہم تجاویز پر غور کرکے اہم فیصلے کرنے ہوتے ہیں غلط قسم کی غذا کے استعمال کےسبب اکژ غلط فیصلے کر جاتے ہیں۔ ایک خراب معده، غیریقینی ذہنی کیفیت برپا کرے گا۔ کیونکہ خراب ذہن و دماغ ایک خراب معدے کی پیداوار ہوتا ہے یوں تلخی، غصیلہ پن اور بے انصافی پروان چڑھتی ہے۔ بہت سی تجاویز جو دنیا کے لیے برکت کا باعث بن سکتی ھیں ان کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے اور بے انصافی تشدد اور ظالمانہ تجاویز عمل میں لائی جاتی ہیں۔ اور یہ کیوں ہوا۔ صرف کھانےکی غلط عادات کے باعث-.SKC 215.5

    یہاں ایک نیک مشورہ ان حضرات کی خدمت میں پیش ہے جو ذہنی کام کرتے ہیں یا دفتری ملازم ہیں۔ اگر آپ میں اخلاقی جرات ہے تو اپنے آپ پر ضبط کرنا سیکھیں۔ سادہ کھانا کھائیں اور جتنی بھوک ہے اس سے زیادہ مت کھائیں۔ ہر روز اچھی طرح ورزش کریں۔ انشااللہ اس کا آپ کو بہت فائدہ پہنچے گا۔SKC 216.1

    ایسےحضرات جن کوسخت محنت مشقت کرنا ہوتی ہے انہیں دفتری ملازموں کی طرح کھانے پینے کی کوئی پابندی نہیں۔ کہ کتنا کھانا ہے۔ کیسے کھانا ہے مگر ایک بات ضرور ہے اگروہ بھی خود پرضبط کريں۔ اور کھانے پینے میں پرہیز تو ان کی صحت کہیں بہتر ہو سکتی ہے۔ بعض چاہتے ہیں کہ ان کی غذا کے بارے میں ان کو بالکل صحیح اصول بتائے جائیں۔ وہ کھانے میں زیادتی کرنے کے بعد پچھتاتے ہیں۔ لہذا وہ سوچتے رہتے ہیں کہ وه کیا کھاتے پیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ کسی کے لیئے بالکل ٹھیک ٹھیک کھانے کے اصول اور ضابطے قائم نہیں کر سکتا۔ ہرایک کو معقول ہونے اور خود پر ضبط پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جو کھانے پینے کے اصول ہیں ان پر سختی سے کار بند ہونے کی ضرورت ہے۔SKC 216.2

    ہمارے بدن مسیح یسوع کی ملکیت ہیں۔ اس نے ہمیں خرید رکھا ہے۔ اس لیے ہمیں کوئی حق نہیں کہ ان کیساتھ جیسا چاہے سلوک کریں۔ وہ سب لوگ جوصحت کے اصولوں کو جانتے ہیں ان کومحسوس کرنا چاہیئے کہ صحت کے اصولوں کی تابعداری ان کا فرض ہے۔ اوراگر ہم ان ضابطوں کوتوڑیںگے تو ضرور سزا پائیں گے۔ جو کچھ بھی ہماری عادات و اطوار ہیں ان کے لیے ہم شخصی طور پر خدا کے سامنے جواب ده ہیں۔ اس لئے ہم نے اس سوال کا جواب نہیں دینا کہ- “دنیا کا دستور اور رواج کیا ہے یہ کہ” اس گھرکےساتھ جو خدا نے مجھے دے رکھا ہے کیسا سلوک کرنا چاہیئے؟” یعنی اپنے بدن کے ساتھ۔۔۔-۔۔ SKC 216.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents