Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    چوالیسواں باب - خُدا کے کلام کے ذریعے حاصل کردہِ علم

    پوری کی پوری کتابِ مقدس مسیح یسوع میں خُدا وند کے جلال کا مکاشفہ ہے۔ یہ چال چلن کو تبیل کرنے کا عظیم آلہ ہے بشرطیکہ اسے پایا جائے، اس پر ایمان لایا جائے اور اس کی فرنبرداری کی جائے۔ یہ زبردست تحریک دینے والی قوت ہے جو جسمانی، ذہنی اور روحانی قوا کو بیدار کرتی ہے۔ اور زندگی کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرتی ہے۔SKC 336.1

    کیوں نوجوان اور پختہ کار لوگ بھی آسانی سے گناہ کی آزمائش میں پڑ جاتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ وہ نہ توخُدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ جیسے اُنہیں اُس پر غور وخوض کرنا چاہیے کرتے ہیں۔ زندگی اور چال چلن میں نمودار ہونے والی غیر مستحکم قوت ارادی خُداوند کریم کے کلام کی ہدایات کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں برآمد ہوتی ہے۔ وہ سنجیدہ اور مستعد کوششوں کے ذریعے اپنے ذہن کو اُس کی طرف راغب نہیں کرتے جو پاکیزہ اور نیک خیالات کے لئے حوصلہ افزائی کرتا اور غیر فطری اور ناپاک خیالات سے دور رکھتا ہے۔ بہت کم لوگ مریم کی طرح الہٰی اُستاد سے سیکھنے کا انتخاب کرتے ، اُس کے کلام کو اپنے دل میں چھپا لیتے اور اُسے عملی جامہ پہناتے ہیں۔SKC 336.2

    اگر ہم کتاب مقدس کی سچائیوں کو حاصل کر لیں تو ذہن و دماغ اور روح کی ترقی ہو گی۔ اگر خداوند دو جہاں کے کلام کی قدر جیسی واجب ہے کی جائے تو نوجوان اور بزرگ دونوں ہی باطنی راستبازی اور قوت ایمانی پائیں گے جو اُنہیں آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنائے گی۔SKC 336.3

    پاک صحیفوں میں جو باتیں بیش قیمت ہیں اُن کو سیکھیں۔ اپنے ذہن کی تمام تر سجھ بوجھ، میلان اور دماغی دلچسپیوں کو خُدا کے کلام پر جمائیں اور خُدا کی مرضی معلوم کریں انسان کی فلاسفی جو انکل بچو اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہے اُس کا مطالعہ نہ کریں بلکہ خُدا کی حکمت کا مطالعہ کریں جو خود سچائی ہے۔ یقینا کوئی اور علم و ادب خُدا کے پاک کلام کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔SKC 336.4

    جسمانی ذہن خُدا کے کلام پر غور وخوض کرنے میں خوشی محسس نہیں کرتا مگر وہی جسے روح المقدس ازسر نو زندگی بخشتا ہے۔ اُس پر مقدس اوراق میں سے خُداوند کا جمال اور نور چمکتا ہے۔ جسمانی ذہن ودماغ کے لئے خدا کا کلام لق ودق اور بنجر صحرا کے علاوہ کچھ بھی نہیں جب کہ روحانی ذہن و دماغ کے لیے یہ ندیوں کی سرزمین بن جاتی ہے۔SKC 336.5

    وہ علم جس کا مکاشفہ خُدواوند کے اپنے کلام میں ہوا ہے وہی علم ہمارے بچوں کو دیا جانا چاہے۔ اوائل عمری سے ہی اُنہیں خُدا وند یسوع مسیح کے نام اور اُس کی زندگی سے روشناس کرایا جائے۔ پہلا ہی سبق اُنہیں یہ سیکھنے میں مدد دے کہ خُدا اُن کا باپ ہے۔ فرمانبرداری کرنے کے بارے اُن کی پہلی تربیت ہو۔ بڑی حلیمی، نرم مزاجی اور عزت وتکریم کے ساتھ خُدا کے کلام کے وہ حصے ان کے ساتھ پڑھے جائیں جو اُن کی سمجھ میں بخوبی آ سکیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خُدا کی محبت کے بارے سیکھیں جو خُدا وند یسوع مسیح میں آشکارہ ہوئی۔SKC 337.1

    “جب خُدا نے ہم سے ایسی محبت کی تو ہم پر بھی ایک دوسرے سے محبت رکھنا فرض ہے۔” 1یوحنا 11:4۔SKC 337.2

    نوجوانوں کو چاہیے کہ خُدا کے کلام کو اپنی روح اور ذہن کی غذا بنائیں۔ خُدا وند یسوع مسیح کی صلیب کو ہر طرح کے علوم و فنون کا مرکز بنایا جائے ۔ اور اس تجربہ کوروزمرہ کی عملی زندگی میں جگہ دی جائے۔ اس طرح نجات دہندہ نوجوانوں کا دوست اور ساتھی بن کسے گا۔ یوں ہر خیال کا ا؟سیر کر کے یسوع کے تابع کیا جائے گا۔ پھر تمام نوجوان پولس رسول کیساتھ ملکر کہہ سکیں گے۔SKC 337.3

    “لیکن خُدا نہ کرے کہ میں کسی چیز پر فخر کروسوا پنے خُدا وند یسوع مسیح کی صلیب کے جس سے دُنیا میرے اعتبار مصلوب ہوئی اور میں دُنیا کے اعتبار سے ” گلتیوں14:6۔SKC 337.4

    یوں نوجوان ایمان اور تجرباتی علم کے ذریعے خُدا وند کی پہچان کو حاصل کرتے ہیں۔ اُنہوں نے اُس کے وعدوں کو سچا اور اپس کے کلام کو اپنے اندر حقیقت پر مبنی پایاہے۔ اُنہوں نے چکھ کر دیکھا ہے کہ خُدا وند بھلاہے۔SKC 337.5

    پیارے یوحنا اپہنے تجربہ کے ذریعے خُداوند کی پہچان حاصل کی تھی۔ اسی لئے وہ یہ گواہی دے سکتاہے۔SKC 337.6

    “اُس زندگی کے کلام کی بابت جو ابتداء سے تھا اور جسے ہم نے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا(یہ زندگی ظاہر ہوئی اور ہم نے اُسے دیکھا اور اُس کی گواہی دیتے ہیں اور اسی ہمیشہ کی زندگی کی تمہیں خبر دیتے ہیں جو باپ کے ساتھ تھی اور ہم پر ظاہر ہوئی) جو کچھ ہم نے دیکھا اور سنا ہے تمہیں بھی اُس کی خبر دیتے ہیں تا کہ تم بھی ہمارے شریک ہو اور ہماری شراکت باپ کے ساتھ اور اُس کے بیٹے یسوع مسیح کیساتھ ہے” 1یوحنا3-1:1۔SKC 337.7

    پس ہر ایک اپنے شخصی تجربہ کی رُو سے مہر ثبت کر سکتے ہیں کہ “ خُدا سچا ہے” یوحنا33:3۔۔۔SKC 338.1

    جو کچھ اُنہوں نے خود دیکھا، سُنا اور خداوند یسوع مسیح کی قدرت کو محسوس کیا ہے اُس کی گواہی دے سکتے ہیں۔ اُن کی گواہی اس طرح کی ہو سکتی ہے۔SKC 338.2

    “ مجھے مدد درکار تھی میں نے اسے یسوع مسیح میں پایا میری ہر حاجت روا ہوئی۔ میری روح کی بھوک آسودہ ہوگئی۔ کتاب مقدس میرے لیے یسوع مسیح کا مکاشفہ ہے۔ میں میسھ میں ایمان رکھتا ہوں کیونکہ وہ میرے لیے الہٰی نجات دہندہ ہے۔ میںکتاب مقدس میں ایمان رکھتا ہوں کیونکہ یہ میر ی روح کے لئے خداوند خدا کی آواز ہے”۔SKC 338.3

    وہ جس نے خُدا اور اس کے کلا کی پہچان کو اپنے شخصی تجربہ سے حاصل کیا ہے وہ فطری سائنس کے مطالعہ میں مصروف ہو جاتا ہے۔ خُداوند یسوع مسیح کے بارے لکھا گیا ہے۔SKC 338.4

    “اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نُور تھی” یوحنا4:1۔ گناہ کے آنے سے پہلے آدم اور حوا باغ عدن میں نہایت ہی حسین روشنی میں گھرے ہوئے تھے اور وہ خُداوند کا نور تھا۔ جس چیز کے پاس وہ پہنچتے روشنی کی بدولت وہ چیز بقعئہ نوربن جاتی۔ خدا کا کام اور اُس کی سیرت اُن کے سامنے بالکل واضح تھی۔ لیکن جب وہ آزمائش مین گر گئے تو یہ ںور ان سے جدا ہوگیا۔ جلالی لباس کھو جانے سے ان سے وہ نور بھی چھن گیا جو فطرت کو منور کرتا تھا۔ اب وہ فطرت کا صحیح طرح سے نہ مطالعہ کر سکتے نہ ہی خُدا کی صنعت گری میں اُس کی سیرت پہچان سکتے۔ لہٰذا آج انسان فطرت کے درس کو درستگی کے ساتھ پڑھ نہیں سکتا ۔ جب تک الہٰی دانش کی رہنمائی حاصل نہ ہو وہ انسان فطرت اور فطرت کے ضابطوں کو فطرت کے خُدا پر فضیلت دیتا رہے گا۔ اسی لئے سائنس کے نظریات بسا اوقات خُداوند کریم کے پاک کلام کی تعلیم کے متضاد ہوتے ہیں۔ اُس نور سے جو صلیب سے منعکس ہوتا ہے ہم فطرت کی تعلیم کی صحیح تفسیر کر سکتے ہیں۔SKC 338.5

    وہ جسے خُدا اور اس کے پاک کلام کا شخصی تجربہ حاصل ہے اُس کا ایمان الہٰی مقدس صحیفوں میں پختہ ہے۔ اس نے آزما کر دیکھ لیا ہے کہ خدا کا کلام سچائی ہے۔ اور وہ جانتا ہے کہ سچائی اپنی مخالفت نہیں کر سکتی۔ وہ انسان کے علم کی روشنی میں کلام پاک کو نہیں آزماتا، بلکہ وہ اُن عقائد اور نظریات کو خداوند کے پاک کلام سے پرکھتا ہے جو لاخطا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ سچی سائنس میں کچھ بھی خُدا کے کلام کے متضاد نہیں۔ چونکہ دونوں کا مصنف ایک ہی ہے اس لئے دونوں کے بارے اُن پر ثابت کردے گا کہ اُن میں بالکل ہم آہنگی ہیل سائنس پر مبنی تلیم جو خدا کے کلام کی اگاہی کے متضاد ہو وہ صرف نام کی سائنس ہے کیونکہ وہ انسانی قیاس و گمان پر مبنی ہے۔SKC 338.6

    ایسے طالب علم کے لئے تجرباتی علمی تحقیق، معلومات اور عمل و ادراک کے وسیع مواقع فراہم کر دیتی ہے۔ جب وہ فطرت کی چیزوں پر غور خوض کرنا شروع کر دیتا ہے تو سچائی کا نیا شعور پیدا ہوتا ہے۔ فطرت کی کتاب اور تحریر شدہ خُدا کا کلام ایک دوسرے پر روشنی دالتے ہیں۔ دونوں ہی (فطرت اور کدا کا کلام) اُسے خُدا کی سیرت اور قونین کو سکھا کر جن کے ذریعے وہ(خدا)کام کرتا ہے خدا کے ساتھ بہتر طور پرشناسا کراتے ہیں۔.SKC 339.1

    زبور نویس کا تجربہ ایسا تجربہ ہے جو فطرت اور مکاشفہ کے ذریعے خُدا کے پاک کلام کو قبول کے ہر شخص حاصل کر سکتا ہے۔ زبور نویس کا کہنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔“کیونکہ اے خداوند تونے مجھے اپنے کاسے خوش کیا۔ میں تیری صنعت کاری کے سبب سے شادیانہ بجاؤں گا۔”زبور4:92 ۔SKC 339.2

    “اے خُداوند ! آسمان میں تیری شفقت ہے۔ تیری وفاداری افلاک تک بلند ہے۔ تیری صداقت خُود پہاڑوں کی مانند ہے۔ تیرے احکام نہایت عمیق ہیں۔ اے خُداوند انسان تُو انسان اور حیوان دونوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ اے خداوند! تیری شفقت کیا ہی بیش قیمت ہے۔ بنی آدم تیرے بازوؤں کے سایہ میں پناہ لیتے ہیں”7-5:36۔SKC 339.3

    “ وہ تیرے گھر کی نعمتوں سے خوب استفادہ ہوں گے۔ تُو اُن کو اپنی خوشنودی کے دریا میں سے پلائے گا۔ کیونکہ زندگی کا چشمہ تیرے پاس ہے ۔ تیرے نور کی بدولت ہم روشنی دیکھیں گے”زبور9-8:36SKC 339.4

    “ مبارک ہیں وہ جو کام رفتار ہیں۔ جو خُداوند کی شریعت پر عمل کرتے ہیں۔ مبارک ہیں وہ جو اُس کی شہادتوں کو مانتے ہیں اور پورے دل سے اُ س کے طالب ہیں”زبور2-1:119SKC 339.5

    میں نے وفاداری کی راہ اختیار کی ہے۔ میں نے تیرے احکام اپنے سامنے رکھے ہیں” زبور30:119۔SKC 339.6

    “میں آزادی سے چلوں گا۔ کینوکہ میں تیرے قوانین کا طالب رہا ہوں”زبور45:119۔SKC 340.1

    “میں نے تیرے کلام کو اپن دل میں رکھ لیا ہے تاکہ میں تیری خلاف گناہ نہ کروں” زبور11:119۔SKC 340.2

    “میری آنکھیں کھول دے تاکہ میں تیری شریعت کے عجائب دیکھوں”زبور18:119۔SKC 340.3

    “تیرے منہ کی شریعت میرے لئے سونے چاندی کے ہزاروں سِکّوں سے بہتر ہے” زبور72:119۔SKC 340.4

    “آہ! میں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں۔ مجھے دن بھر اُسی کا دھیان رہتا ہے۔” زبور97:119۔SKC 340.5

    “تیری شہادتیں عجیب ہیں۔ اس لیے میرا دل اُن کو مانتا ہے۔ تیری باتوں کی تشریح نور بخشتی ہے۔ وہ سادہ دلوں کو عقلمند بناتی ہے”زبور130-129:119SKC 340.6

    “تیری مسافر خانہ میں تیرے آئین میرا گیت رہے ہیں”زبور54:119۔SKC 340.7

    “تیرے کلام کا خلاصہ سچائی ہے۔ تیری صداقت کے کل احکام ابدی ہیں”زبور160:119۔SKC 340.8

    “میری جان زندہ رہے تو وہ تیری ستائش کرے گی۔ اور تیرے احکام میر ی مدد کریں” زبور175:119۔SKC 340.9

    “تیری شریعت سے محبت رکھنے والے مطمئن ہیں اُن کے لئے ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع نہیں۔ اے خداوند! میں تیری نجات کا اُمیدوار رہا ہوں اور تیر ے فرمان بجا لایا ہوں۔ میری جان نے تیری شہادتیں مانی ہیں اور وہ مجھے نہایت عزیز ہیں”زبور167-165-119۔SKC 340.10

    “تیرے فرمان مجھے میرے دشمنوں سے زیادہ دانشمند بناتے ہیں۔ کیونکہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہیں۔ میں اپنے سب اُستادوں سے عقلمند ہوں کیونکہ تیری شہادتوں پر میرا دھیان رہتا ہے ۔ میں عمر رسیدہ لوگوں سے زیادہ سمجھ رکھتا ہوں کیونکہ میں نے تیرے قوانین کو مانا ہے” زبور100-98:119۔SKC 340.11

    “ تیرے قوانین سے مجھے فہم حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے مجھے ہر جھوٹی راہ سے نفرت ہے” زبور140:119۔SKC 341.1

    “میں نے تیری شہادتوں کو اپنی ابدی میراث بنایا ہے کیونکہ اُن سے میرے دل کو شادمانی ہوتی ہے”زبور111:119۔SKC 341.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents