Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے

    مشرق میں جتنی بیماریوں سے لوگ واقف ہیں کوڑھ اُن سب میں ہولناک بیماری جانی جاتی ہے۔ یہ لاعلاج اور اچھوت کی بیماری خیال کی جاتی تھی۔ بہادر بھی خوف وہراس سے بھر جاتا جب اُسے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہو چکا ہے۔ یہودی یہ خیال کرتے تھے کہ یہ بیماری گناہوں کے سبب سے انسان پر خُدا کی طرف سے آتی ہے۔ اور اُس کی جڑیں بڑی گہری ہوتی ہیں۔ اسی لیے یہ لاعلاج مرض ہے۔ دوسرے لفظوں میں کوڑھ کی بیماری کو گناہ کی علامت خیال کیا جاتا تھا۔SKC 35.3

    رسمی شریعت کے اعتبار سے کوڑھی کوناپاک قرار دے دیا جاتا تھا۔ وہ جس بھی چیز کو چھوتا تھا ناپاک جانی جاتی تھی۔ حتٰی کہ فضا بھی اس کی سانس سے مکدراور ناپاک ہو جاتی تھی۔ اُسے آبادی سے دور الگ تھلگ ایسے بند کر دیا جاتا تھا جیسے مردہ شخص کو۔ اور جس شخص کے بارے میں شک بھی ہوتا کہ اسے کوڑھ کا مرض لاحق ہے اس کے لیے لازم تھا کہ اپنے آپ کو کاہنوں کو دکھائے، پھر وہ اچھی طرح جانچ پڑتال کرکے فیصلہ کرتے تھے کہ آیا یہ شخص کوڑھی ہے یا نہیں۔ اگر کاہن اسے کوڑھی قرار دیتے تو اسے فورا اپنے خاندان سے الگ ہونا پڑتا- اسرائیلی جماعت سے بھی خارج کردیا جاتا۔ وہ صرف کوڑھیوں کے ساتھ ہی رفاقت رکھنے کا مجاذ تھا۔ یہاں تک کہ بادشاہوں اور حاکموں سے بھی یہی سلوک روار کھا جاتا تھا۔ بلکہ وہ خود تخت وہ تاج چھوڑ کر رعایا اور سماج سے دور کہیں بھاگ جاتے تھے۔SKC 35.4

    اُنہیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے کہیں دور اپنی بیماری کی لعنت کو برداشت کرنا پڑتا تھا۔ کوڑھی کو حکم تھا کہ خود اپنی کوڑھ کی بیماری کے بارے میں چلا چلا کر دوسروں کو بتائے کہ میں ناپاک ہوں ۔ اُسے حکم ہوتا تھا کہ اُس نے جو کپڑے پہن رکھے ہیں اُن کو پھاڑ کرتار تار کر دے تاکہ اُس کے قریب آنے والے پہلے سے ہی جان جائیں کہ یہ کوڑھی ہے۔ اور جب تن تنہا جلا وطن دوافتادہ جگہ سے درد ناک آوازمیں ناپاک ناپاک کا نوحہ کرتا تو سننے والوں کے دل دہل جاتے کیونکہ کوڑھیوں کی آواز میں ماتم کرنے والوں کا سا سوز ہوتا تھا۔SKC 36.1

    جس علاقہ میں خُداوند یسوع مسیح خدمت انجام دے رہا تھا اس علاقہ میں کوڑھ کے مرض کے بہت سے مریض پائے جاتے تھے۔ جب خُداوند یسوع مسیح کے بارے میں اُنہیں پتہ چلا کہ اس میں یہ قدرت ہے کہ کوڑھ سے شفا بخشے تو ان میں سے ایک کے دل میں یہ پختہ ایمان پیدا ہو گیا کہ اگر وہ چاہے تو وہ مجھے کوڑھ کی بیماری سے پاک صاف کر سکتا ہے۔ لہٰزا اُس کے دل میں یہ خواہش جاگزیں ہوئی کہ کاش وہ خُداوند یسوع مسیح تک رسائی کر سکے تاکہ یسوع اُسے شفا بخشے۔ مگر وہ خُداوند یسوع کو کیوںکر پاسکتا تھا؟ اس کی قسمت میں تو اب صرف یہ تھا کہ مسلسل تنہائی کی زندگی بسر کرے۔ اس صورتحال کے تحت وہ کیونکر یسوع کے سامنے جو عظیم طبیب تھا پیش ہو سکتا تھا ؟ شائد اس کے دل میں یہ بھی خیال ابھرتا ہو“ کیا مسیح مجھے شفا بخشے گا؟” کیا وہ بھی فریسیوں اور دوسرے دُنیاوی طبیبوں کی طرح میری بیماری کو لاعلاج اور گناہ کا سبب بتا کر آگے نکل جائے گا، اور کہے گا کہ آبادی سے کہیں دور نکل جاؤ۔۔۔۔SKC 36.2

    پھر بھی وہ اُن باتوں پر غور کرتا رہا جو یسوع کے بارے اُسے بتائی گئی تھیں۔ اُسے بتایا گیا تھا کہ اُس نے کسی بھی حاجت مند کو نامراد واپس نہیں لوٹایا۔ اسلئے اس بدنصیب اور بد حال شخص نے نجات دہندہ کو پانے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ شہروں میں سے وہ گزر نہیں سکتا تھا ہو سکتا ہے کہ اُسے عام شاہراؤں کو چھوڑکر مشکل گزار راستوں پر سفر کرنا پڑا ہو۔ پہاڑیوں کے اونچے ینچے راستے اختیار کرنے پڑے ہوں تاہم اُس نے مسیح یسوع کو قصبے سے باہر تعلیم دیتے ہوئے پا لینے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اُس کے سامنے مشکلات کا انبار تھا۔ مگر ان مشکلوں پر قابو پانے کے علاوہ چارہ بھی نہ تھا۔ بلآخر وہ کامیاب ہو گیا۔SKC 36.3

    گوہ ہجوم سے کافی دور کھڑا تھا پھر بھی اس نے خُداوند مسیح کےلب مبارک سے نکلا ہوا کلام سن لیا۔ اس نے دیکھا کہ نجات دہندہ نے بیماروں پر ہاتھ رکھے ہیں۔ وہ لنگڑوں کو دیکھتا ہے۔ مفلوجوں اور اندھوں کو دیکھتا ہے۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ بعض مریض جو قریب المرگ آئے تھے خُداوند مسیح نے اُنہیں شفا بخشی اور وہ خُدا کی ستائش کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اس سے اُس کے ایمان کو اور بھی تقویت ملی۔ آہستہ آہستہ وہ اس بھیڑ کے قریب ہوتا گیا جو تعلیم سن رہی تھی۔ اُس نے ان پا بندیوں کی کوئی فکر نہ کی جو اُس ٌپر دوسروں کی بھلائی کے لیے عائد کی گئی تھیں ۔ وہ ہر طرح کے خوف سے بے نیاز ہو کر آگے بڑھا۔ اس کے ذہن کے میں صرف ایک ہی خیال تھا یعنی “شفا کی مبارک اُمید” وہ لوگوں کی نظروں میں ایک مکروہ تماشہ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ بیماری نے اُس پر زبردست حملہ کر کے دست اندازی کی تھی جس کہ وجہ سے اس کا بدن اس حد تک گل سڑ گیا تھا کہ اس پر نظر کرنے سے خوف آتا تھا۔ اس لیے اس سے بچنے کی لیے بھیڑ ایک دوسرے کے اُوپر گرنے لگی مبادہ یہ ناپاک شخص اُن سے چھو جائے۔ بعض نے تو اسے یسوع تک پہنچنے سے روکا مگر یہ سب لا حاصل ثابت ہوا۔ اس نے اُن کی ایک نہ سنی۔ اور اُن کی موجودگی کو بالکل نظرانداذ کر دیا۔ ناپاک اور مکروہ کا جو اظہار جو بھیڑ نے اس کے لیے کیا اُس کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس کی نظریں تو صرف خُدا کے بیٹے پر جمی ہوئی تھی۔ وہ تو صرف اس کی آواز سن رہا تھا جو ہلاک ہونے والوں کو زندگی کا سندیسہ دے رہا تھا۔ ہجوم کو چیرتا ہوا وہ خُدا مسیح کے پاس پہنچ گیا اور اس کے قدموں میں گر کرمنت کی “اےخُداوند اگر تو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اُسے چھوُا اور کہا میں چاہتا ہوں تو پاک صاف ہوجا”میی2:8۔3۔ اس کوڑھ میں فوراً تبدیلی ہونا رونما ہونا شروع ہو گئی۔ اس کا خون صحت مند ہوجاتا ہے۔ اس کی نسیں محسوس کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اس کے پٹھے مضبوط ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے بدن پر جو غیر فطری چھلکے چڑھے ہوئے تھے۔ اور سفید سفید رنگ کی پپڑی آئی ہوئی تھی وہ فوراً دور ہو گئ۔ اس کا پورا بدن چھوٹے بچے کے بدن کی مانند تندرست توانا ہو گیا۔SKC 37.1

    اس کوڑھی کے شفا پانے کے بارے کاہنوں کو بخوبی جاننے کی ضرارت تھی تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ مسیح خُداوند کے خلاف نفرت سے بھر کر غیر جانبدار فتوے صادر کریں۔ اس فتوے سے بچنے کے لیے خُداوند مسیح نے چاہا کہ کوڑھی شخص کسی کو اپنی شفا کے بارے میں نہ بتائے بلکہ بغیر وقت ضائع کئے کوڑھ سے شفا پانے کا ہدیہ قبول کریں۔ ان کے لیے لازم تھا کہ اچھی طرح ہدیہ پیش کرنے والے کے بدن کا جائزہ لیں۔ اور اس بات کی تسلی کر لیں کہ یہ کوڑھ مکمل طور پر شفا پا گیا ہے۔ کاہنوں کو اس کی تصدیق کرنا لازم ہوتا تھا۔SKC 37.2

    کوڑھی کا اچھی طرح معائنہ کیا گیا۔ جن کاہنوں نے اُسے ناپاک قرار دیا تھا انہی کاہنوں نے اُس کے پاک صاف اور مکمل صحت یاب ہونے کا اعلان کیا۔ یہ کوڑھی جس کو شفا مل چکی تھی اب اُسے اجازت تھی کہ اپنے گھر جا سکے۔ لوگوں کے ساتھ مل جل سکے۔ ان کے ساتھ رفاقت رکھ سکے۔SKC 38.1

    اب اس نے محسوس کیا کہ صحت جیسی نعمت کتنی بیش قیمت ہے۔ اُسے خوشی تھی کہ وہ اپنے گھر میں بحال ہو گیا ہے اور اپنی جوانی کا بھر پور لطف اٹھا سکے گا۔ وہ اپنی خوشی اور خُدا کے فضل کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ اُس خُداوند کی تمجید کرتا ہوا اپنے گھر چلا گیا جس نے اُسے مکمل صحت عطا فرمائی تھی۔ جب یہ شخص خُداوند مسیح کے پاس آیا تو کوڑھ سے بھرا پڑا تھا۔ کوڑھ کا زہر اس کے پورے بدن میں سرائت کر گیا تھا۔ اسی لیے شاگردوں کی یہ کوشش تھی کہ اُن کا آقا اس کوڑھی کو نہ چھوئے کیونکہ شریعت کے مطابق کوڑھی کو چھونے والا بھی نجس ہو جاتا تھا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کوڑھی کے اوپر ہاتھ رکھنے سے خداوند مسیح نجس نہ ہوا- مگر کوڑھی شفا پا گیا- گناہ کے کوڑھ کا بھی یہی حال ہے جو بدن میں بہت گہرا چلا جاتا ہے- ہلاک کرنے کی قدرت رکھتا ہے- اس سے چھٹکارا حاصل کرنا انسان کے بس کا روگ نہیں۔ SKC 38.2

    “تمام سر بیمار ہے اور دل بالکل سست ہے۔ تلوے سے لیکر چاندی تک اس میں کہیں صحت نہیں۔ فقظ زخم اور چوٹ اور سڑے ہوئے گھاؤ ہی ہیں جو نہ دبائے گئے۔ نہ باندھے گئے نہ تیل سے نرم کئے گئے”یسعیاہ5:1،6۔ گو خُداوند یسوع مسیح ہم انسانوں میں آ رہا تاہم اُس پر گناہ کی آلودگی اور کثافت کا کوئی اثر نہ پڑا۔ بلکہ اُس کی حضوری گناہ گاروں کے لیے شفا کی بخشش کا سبب بنی، جو کوئی بھی اس کے قدموں میں آ گرتا اور ایمان سے کہتا کہ “اے خُداوند اگر تو چاہے تو مجھے تندرست کر سکتا ہے” مسیح فوراً یہ جواب دیتے کہ “میں چاہتا ہوں کہ تو پاک صاف ہو جا”۔SKC 38.3

    شفا بخشنے کے ایسے واقعات بھی ہیں جن میں مسیح خُداوند نے درخواست کرنے والوں کو فوراً شفا نہ بخشی۔ مگر کوڑھی کی اس درخواست پر خُداوند نے اُسے فوراً شفا بخش دی۔ جب ہم اپنے لیے جسمانی اور زمینی برکات کے لیے دُعا مانگتے ہیں۔ تو جواب میں شائد تھوڑی دیر ہو جائے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو کچھ ہم نے دعا میں مانگا ہے اس کے عوض خُداوند ہمیں کچھ اور دے دے۔ مگر جب ہم گناہ سے خلاضی کی دُعا مانگتے ہیں تو اس صورت میں ایسا نہیں۔ بلکہ خُداوند ہمارے گناہ ہی معاف فرمائے گا۔ کیونکہ یہ اس کا منشا ہے کہ وہ ہمیں گناہوں سے پاک کرے تاکہ ہم پاک زندگی بسر کرکے بیٹے اور بیٹیاں بن جائیں۔ کیونکہ خُداوندمسیح “مرضی کے موافق ہمیں اس موجودہ خراب جہان سے خلاضی بخشے” گلتیوں 4:1۔SKC 38.4

    “اور ہمیں جو اس کے سامنے دلیری ہے اس کا سبب یہ ہے کہ اگر اس کی مرضی کے موافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔ اور جب ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم مانگتے ہیں وہ ہماری سنتا ہے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے اس سے مانگا وہ پایا ہے”1یوحنا 14:5-15۔ خُداوند مسیح نے اُس پر نگاہ کی جو پریشان حال اور دُنیا کی فکروں تلے دبے ہوئے تھے۔ ان پر جو نااُمید ہو چکے تھے۔ اور ان پر نگاہ کی جو دُنیاوی عیش و نشاط کے ناعث ذہنی سکون کھو چکے تھے۔ پس خُداوند یسوع مسیح نے ان سب کو دعوت دی کہ اس میں آ کر آرام پائیں۔SKC 39.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents