Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    شاگردوں کی خد مت

    لوقا کی انجیل کا مصنف لوقا رسول خود طبیب تھا۔ بلکہ طبی مشنری تھا۔ الہامی نسخہ جات میں اسے “پیارا طبیب کہہ کر پکارا گیا۔ کلسیوں 14:4۔ مقدس پولس رسول نے اُس کے ہنر کے بارے میں سنا کہ وہ طبیب ہے۔ اور یہ بھی مانا کہ خدا نے اسے خاص کام کے لیے بلایا ہے۔ مقدس پولس رسول نے لوقا کو کافی عرصہ اپنے ساتھ رکھا۔ اور دونوں اکھٹے جگہ بہ جگہ پھرتے رہے۔ کچھ عرصہ کے بعد پولس رسول نے لوقا کو فنہی کے مکدونیہ میں چھوڑا۔ جہاں وہ کئی برسوں تک خدمت کرتا رہا۔ اس دوران اس نے طبیب کی خدمت کے علاوہ لوگوں میں انجیل کی تعلیم بھی پھیلائی۔ اس نے بیماروں کو اچھا کیا۔ اور پھر ان کے لیے خُدا کی اس قدرت اور قوت کے لیے دعا مانگی جو شفا بخشتی ہے تاکہ بیماروں کے ساتھ رہے۔ یوں خوشخبری کے کلام کو پھیلانے کی راہ تیار ہو گئی۔ لوقا کی طبی خدمت نے غیر قوموں اور بت پرستوں میں انجیل کے پرچار کے لیے کئی مواقع فراہم کئے۔ یہ الہٰی تجویز ہے کہ ہم بھی اسی طرح خدمت کریں جس طرح شاگردوں نے کی تھی۔ انجیل کی خوشخبری پھیلانے کے حکم کے ساتھ شفا دینے کا حکم بھی منسلک ہے۔ خوشخبری پھیلانے کے کام میں ہم تعلیم و تربیت اور شفا کے کام کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔SKC 86.3

    انجیل کی خوشخبری کی تعلیم دینا شاگردوں کا کام تھا۔ تمام دنیا میں انہیں یہ بتایا تھا کہ خُداوندیسوع مسیح نسل انسانی کے لیے کیا خوشخبری لایا ہے۔ اپنے زمانے کے لوگوں میں انہوں نے اس فریضہ کو بڑی محنت اور عقلمندی سے پایہء تکمیل کو پہنچایا۔ کیونکہ جتنی بھی قومیں اور نسلیں اُس وقت آسمان تلے موجود تھیں ان تک خوشخبری کا کلام سنایا گیا۔SKC 87.1

    اُن سب پر دنیا بھر میں خوشخبری کے کلام کو پھیلانے کی ذمہ داری ہے جو خُدا کے بچے اور بچیاں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ گناہ اور دنیا میں پائے جانے والے تمام دکھوں کا واحد علاج انجیل کی خوشخبری میں پایا جاتا ہے۔ جو انجیل کی شفا بخش قوت سے واقف ہیں ان سب کا یہ اولین فرض ہے کہ دنیا کو خُدا کے فضل کی خوشخبری پہنچائیں۔SKC 87.2

    جب خُداوند یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو خوشخبری پھیلانے کے لیے بھیجا اس وقت دُنیا کا خُدا اور اس کے کلام پر سے ایمان اُٹھ گیا تھا۔ یہودی لوگوں نے جو خُدا کے کلام کے دعویدار تھے خُدا کے کلام کو ایک طرف رکھ کر روائتوں میں بدل دیا تھا۔ وہ کلام کی بجائے زیادہ تر مفروضوں پر بھروسہ کرتے تھے۔ خود غرضانہ خواہشات اعلٰی مراتب کی محبت اور نفع کے لالچ نے انسانی ذہنوں کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا تھا۔ خُداوند کی عزت و تکریم بھی جاتی رہی تھی۔ لہٰزا انسانوں کے دلوں سے ہمدردی اور رحم جیسی اچھی خصوصیات معدوم ہوگئی تھیں۔ خود غرضی انتہا کو پہنچ گئی تھی ۔ یوں ابلیس نے انسانیت کو ذلیل کرنے اور دکھ دینے میں اپنی من مانی کی۔SKC 87.3

    بدروحوں نے انسانوں پر قبضہ جما لیا۔ جن بدنوں میں خُداوند کو رہنا چاہیے تھا وہاں ابلیس کا ڈیرہ بسیرہ ہو گیا۔ حتٰی کہ انسان کو ذہن و دماغ جسمانی اور اخلاقی قواء کو ابلیس اپنی بری بری رغبتوں کے لیے استعمال کرنے لگا۔ ابلیس نے انسانوں چہروں اور پیشانیوں پر اپنی مہر ثبت کر دی۔ ان کے چہروں سے شیطانیت ٹپکنے لگی جس کے وہ غلام بن چکے تھے۔SKC 88.1

    آج دنیا کی کیفیت کیسی ہے؟ کیا جیسے خُداوندیسوع مسیح کے زمانہ میں شروع کے معلموں نے روایات بنا کر خُدا کے کلام کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ یا جیسے انہوں نے مختلف اقسام کے مفروضوں کے سبب خُدا میں ایمان کو باطل کر دیا تھا۔ اسی طرح کلام پر نکتہ چینی کر کے آج بھی وہی کیفیت پیدا تو نہیں کر دی؟ کیا لالچ دنیاوی عیش و عشرت نے لوگوں کے دلوں کو اپنی گرفت میں تو نہیں لے لیا۔ جیسے یسوع مسیح کے زمانہ میں لے رکھا تھا؟ دیکھا گیا ہے کہ مسیحی لوگ اور وہ کلیسائیں جو مسیح کی پیروکار ہونے کا اقرار کرتی ہیں ان میں مسیحی اصولات اور ضابطے رائج نہیں۔ بہت ہی کم مسیحی بہن بھائی ایسے ہیں جو روزانہ کے کاروبار یا اپنے گھروں حتٰی کے مذہبی حلقوں میں بھی مسیحی تعلیم پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ کیا یہ سچ ہے کہ “علدالت ہٹائی گئی اور انصاف دور کھڑا ہو رہا۔ صداقت بازار میں گر پڑی اور راستی داخل نہیں ہو سکتی ۔ ہاں راستی گم ہو گئی اور وہ جو بدی سے بھاگتا ہے شکار ہو جاتا ہے”- یسعیاہ 14:49-15۔SKC 88.2

    ہم جرائم کے وبائی مرض کے درمیان رہ رہے ہیں جس میں خُدا ترس، سمجھ دار لوگ دور کھڑے حیرانی سے دیکھ رہے ہیں۔ بدی اتنی چھا چکی ہے کہ اسے احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ ہر روز نئی طرح کی سیاسی کشمکش، رشوت اور فراڈ کے بارے سننےمیں آتا ہے۔ دہشت گردی اور تشدد کے ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کو سن کر اور دیکھ کر انسان کا دل بیٹھ جاتا ہے۔ لاقانونیت کا ہر طرف دور دورا ہے۔ بربریت کا یہ علم ہے کہ انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان سے حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ خودکشی قتل کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ انسانوں کی برداشت سے باہر ہو گیا ہے۔ شریف انسانوں کے زہن ماؤف ہوتے جا رہے ہیں ۔ اب کون اس بات میں شک کر سکتا ہے کہ ابلیس نے بڑی سرگرمی سے ہم انسانوں میں تباہ بربادی کے عمل کو اس لیے جاری کر رکھا ہے کہ ہم ذہنی اخلاقی اور جسمانی قواء سے محروم ہو جائیں اور اپنے بدن کو نجس اور برباد کر دیں۔ SKC 88.3

    بدی دنیا میں اتنی چھا گئی ہے اور خوشخبری کا کلام اکثر اس طرح سنایا جاتا ہے کہ اس کا اثر انسان کے ضمیر اور زندکی پر بہت ہی کم ہوتا ہے۔ ہر جگہ اس چیز کا واویلا ہے جو ان کے پاس نہیں۔ مثلاً وہ ایسی قدرت اور طاقت کے خواہاں ہیں جس کی بدولت وہ گناہ پر حاوی ہو جائیں یا ایسی قدرت کے خواہاں ہیں جو انہیں بدی کی قید سے رہائی دے۔ ایسی طاقت کے خواہاں ہیں جو انہیں صحت زندگی اور اطمینان بخشے۔ اور جو اس بات سے واقف ہیں کہ کسی وقت خُدا کے کلام کی قدرت وہاں بھی موجود تھی جہاں خُدا کو جاننے والا کوئی نہ تھا۔ وہ لوگ آج اُسی الٰہی ذات کی حضوری کے خواہاں ہیں۔ دنیا کو آج بھی وہی کچھ چاہیے جس کے وہ انیس سو سال پہلے متمنی تھے یعنی کہ “یسوع مسیح کا مکاشفا” بڑے پیانے پر اصلاحی عمل کی ضرورت ہے اور یہ خُداوند یسوع مسیح کے فضل سے ہی ممکن ہے۔ جو جسمانی ذہنی اور روحانی بحالی بخشتا ہے ۔SKC 88.4

    خُداوند یسوع مسیح کا طریقہ ہی حقیقت میں کامیاب طریقہ ہے جس کی بدولت نسل انسانی تک --- کی جانی چاہیے۔ مسیح خُداوند لوگوں میں یوں گھل مل گیا گویا ان کی بھلائی کا خواہاں ہو۔ اس کے بعد ان کو فرمایا “میرے پیچھے ہولو” ضرورت اس بات کی ہے کہ ذاتی اور شخصی کوشش کے زریعے لوگوں تک رسائی کی جائے۔ اگر وعظ دینے میں شخصی خدمات میں زیادہ وقت صرف کیا جائے تو یقیناً شاندار نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔ بیماروں کی تیمارداری، غمزدوں اور سوگواروں کو تسلی، غافلوں کو ہدایت اور جو نا تجربہ کار ہیں ان کو مشورہ دیا جائے۔ جو روتے ہیں ہمیں ان کے ساتھ رونا ہے۔ اور جو شادمان ہیں ان کے ساتھ مل کر خوشی منانا ہے۔ اگر ہم دُعا کی قوت اور خُدا کی محبت کو ساتھ لے کر چلیں گے تو ہمارا کام بے پھل نہ ہو گا۔SKC 89.1

    ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ طبیب کے کام کا بڑا مقصد یہی ہے کہ گناہ کے مریض مردوں اور عورتوں کی توجہ خُداوند مسیح کی طرف لگائے جو ہمارے گناہ کی خاطر صلیب پر چڑھ گیا۔ اس پر ایمان لانے سے وہ اس کی مانند بن سکتے ہیں۔ ہمیں مریضوں کو ہمت اور حوصلہ دلانا ہے کہ مسیح یسوع کو اپنا کر زندہ مانیں۔ ہمیشہ اس کی طرف تکتے رہیں۔ طبیب کو چاہیے کہ وہ ان مریضوں کے ساتھ ہر وقت یسوع مسیح کو پیش کرے جن کی روح اور بدن دونوں بیماری کے سبب بےدل اور پست ہمت ہو گئے ہیں۔ انہیں بتائیں کہ وہ روحانی اور جسمانی دونوں بیماریوں سے شفا دنیے پر قادر ہے۔ اُن کو بتائیں کہ مسیح یسوع کا دل ہمارے۔۔۔۔۔ سے بھر آتا ہے۔ ہمارے دکھوں سے اسے بھی دکھ پہنچتا ہے۔ ہماری بے بسی پروہ اُداس ہوتا ہے ان کی ہمت افزائی کریں تاکہ وہ اپنی زندگیاں اس کے حوالے کریں جس نے اپنی جان دے کر بیماروں کے لیے زندگی فراہم کر دی۔ مریض سے اس کی محبت کا بیان کریں۔ اُن سے اس کی بچانے والی قوت اور قدرت کا بیان کریں۔SKC 89.2

    یہی طبی مشنری کا اعلٰی فریضہ اور بیش قیمت حق ہے اور شخصی خدمت اکثر اس کے لیے راستہ تیار کرتی ہے۔ خُدا اکثر ہماری ان کوششوں کے زریعے انسان کے دل تک رسائی کرتا ہے جن کے زریعے ہم دکھیوں کے دکھ دور کرتے ہیں۔ SKC 90.1

    طبی مشنری کام انجیل کی خوشخبری پھیلانے کے لیے اساس پیدا کرتا ہے۔ کلام کی خدمت اور طبی مشنری کام دونوں میں ہی خوشخبری پھیلانا اور عمل شامل ہو تو ہے۔ تقریباً ہر معاشرے مین ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جو نہ تو خُدا کا کلام سنتے ہیں اور نہ ہی کسی مذہبی تقریب میں شمولیت کرتے ہیں اگر ان کو خوشخبری سنانا ہے تو ہمیں ان کے دولت خانے پر جانا ہو گا۔ نیز اگر ہمیں ان کے دلوں تک رسائی کرنا ہے تو انہیں جسمانی تکلیفوں سے نجات دلانا ہو گا۔ کیونکہ ان کو جیتنے کا یہی بہیترین راستہ ہے۔ مشنری نرسز کا جو بیماروں کی خبرگیری کرتی ہیں۔ دکھیوں کو سکھ پہنچاتی ہیں ان کو مریضوں کے ساتھ مل کر اکثر دعا کرنے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ چاہیے کہ ان کے لیے خُدا کے کلام سے پڑھا جائے ان سے نجات دہندہ کے بارے میں کلام کیا جائے۔ جو اپنی اشتہا کو اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتے ان کے لیے خُدا سے طاقت طلب کی جائے۔ اس سے نہ امیند اور بے دل مریضوں کے دلوں میں امید کی کرن پھوٹ پڑے گی۔ بے لوث خدمت اور مہربانی جو آپ مریضوں کو دیکھائیں گے یہ ان کے لیے مسیح یسوع میں ایمان لانے کے لیے آسانی پیدا کر دے گی۔SKC 90.2

    بہتیرے ایسے ہیں جو خُدا میں ایمان اور انسان میں بھروسہ نہیں رکھتے۔ جب ان کی مدد کی جاتی ہے اور انہیں ہمدردی دیکھائی جاتی تو وہ اسے بہت سراہتے ہیں۔ جب وہ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو اپنی تعریف کے بھوکے نہیں جن کو ایسے کاموں کا معاوضہ نہیں ملتا جیسے مریضوں کی دیکھ بھال، بھوکوں کو سیر کرنا، ننگوں کو کپڑا پہنانا، غمزدوں کو دلاسہ دینا اور پھر بڑی حلیمی اور نرم مزاجی سے خُداوند یسوع مسیح کی خبر پھیلانا۔ ان کی رحمت اور محبت کا چرچا کرنا۔ جب مریض یہ سب کچھ دیکھتے ہیں تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا- اس کے دل سے خود بخود خُدا کی تعریف اور شکر گزاری کے کلمات نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کا ایمان جگمگا اٹھتا ہے۔ یوں وہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ خُدا اس کی فکریں اپنے اوپر اٹھاتا ہے۔ اس کو ہماری فکر ہے اور پھر جب خُدا کا کلام اس کے لیے بولا جاتا ہے تو سننے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ SKC 90.3

    طبی مشنری خواہ اپنے وطن میں ہو یا پرائے دیس میں اگر وہ مریضوں کی خدمت کرے گی تو ان کے سامنے بڑے مواقع ہوں گے اور ان کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔ خاتون مشنری جب دوسری قوم کے پاس جاتی ہے تو اس کے پاس اگر اور کوئی موقع نہیں تو کم از کم اس کا ایک موقع یہ ہے کہ اس دیس کی خواتین تک رسائی کرے۔ ان کو خوشخبری سنائے۔ ہر طبی مشنری کو یہ جاننے کی ضرورت ہو کہ کس طرح معمولی سا علاج دے کر وہ مریض کی بیماری اور درد کو دور کر سکے۔SKC 91.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents