Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    زندگی کی کشمکش کے لیے تربیت

    صحت اتفاقیہ حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ اہم اصولوں کی پابندی کرنے کا نتیجہ ہے۔ کھیلوں میں حصہ لینے والے حضرات اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہ نہایت ہی ہوشیاری اور عقلمندی سے اپنی تیاری کرتے ہیں۔ ہر عادت کو سوچ سمجھ کر اختیار کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اصولوں سے غفلت برتنا، کسی کام میں زیادتی یا بے پرواہی کے مظاہرہ سے اگر کوئی اعضا کمزور یا اپاہج ہو گیا تو شکست یقینی ہے۔SKC 77.4

    پس زندگی کی جدوجہد اور کشمکش میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کتنا اہم کہ ہم محتاط رہیں۔ یہ کوئی جھوٹی جھوٹی کی جنگ نہیں جس میں ہم شامل ہیں۔ بلکہ اس پر تو ہماری جیت یا ہارکا ابدی انحصار ہے۔ مزے کی بات یہ کے جس دشمن سے ہمارا مقابلہ ہے ہم اسے دیکھ نہیں سکتے۔ بُرے فرشتوں کی انتہائی کوشش یہ ہے کہ فرد بشر کو اپنا قیدی بنا لیں۔ جو چیز بھی صحت کو خراب کرتی ہے وہ نہ صرف جسمانی قوت کو کم کرتی ہے بلکہ وہ اخلاقی اور ذہنی قواء کی کمزوری کا بھی سبب بنتی ہے۔ کوئی بھی غیر صحت مند عادت صحیح اور غلط کے امتیاز سے محروم کر دیتی ہے۔ یوں انسان بدی کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ لہٰزا یہ ناکامی اور شکست کے خطرے کو افزوں کر دیتا ہے۔SKC 78.1

    “دوڑ میں دوڑنے والے دوڑتے تو سب ہی ہیں مگر انعام ایک ہی لے جاتا ہے” 1 کرنتھیوں 24:9۔ جس جنگ میں ہم شامل ہیں اُس میں ہم سب ہی جیت سکتے ہیں اگر ہم تابعداری سے صحیح اصولوں کی پیروی کریں۔ چونکہ یہ موضوع زیر بحث ہے اس لئے قطعاً غیر اہم نہیں۔ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں وہ زندگی کے ترازو میں جیتنے یا ہارنے کے لیے وزن رکھتا ہے۔ کلام مقدس کا فرمان یہ ہے کہ “تم بھی ایسے ہی دوڑو تاکہ جیتو” کرنتھیوں 24:9۔SKC 78.2

    ہمارےپہلے والدین (آدم اور حوا) نے بد پرہیزی سے عدن کھو دیا۔ کھوئے ہوئے عدن کو واپس حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ پرہیزگاری مقصود ہے جسے انسان نہیں سمجھتا۔ یونان میں کھلاڑیوں کے درمیان ہونے والے مقابلہ کو دیکھ کر پولس رسول نے خود انکاری کی طرف توجہ دلائی۔ “پر پہلوان سب طرح کا پرہیز کرتا ہے۔ وہ لوگ تو مرجھانے والا سہرہ پانے کےلیے یہ کام کرتے ہیں مگر ہم اس سہرے کے لیے کرتے ہیں جو نہیں مرجھاتا۔ پس میں بھی اس طرح دوڑتا ہوں۔ یعنی بے ٹھکانہ نہیں۔ میں اسی طرح مکوں سے لڑتا ہوں یعنی اس کی مانند نہیں جو ہوا کو مارتا ہے۔ بلکہ میں اپنے بدن کو مارتا کوٹتا اور اسےقابو میں رکھتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اوروں میں منادی کرکے آپ نا مقبول ٹھہروں” 1 کرنتھیوں 25:9-27۔SKC 78.3

    ترقی کا انحصار پوری طرح بنیادی سچائیوں پر مبنی ہے۔ ایک طرف تو تنگ نظریہ، سخت اور خشک تقلید پسندی کا خطرہ ہے تو دوسری طرف غیر محتاط آزادی کا۔ مگر دیر پا اصلاح کی بنیاد کا دارومدار خُدا کی شریعت پر ہے۔ ہمیں واضع طور پر شریعت کو ماننے کی ضرورت کوسمجھا چاہیے اس کے تمام اصول لوگوں کے سامنے رکھنے چاہیئں۔ یہ اصول اس طرح ابدی اور انمٹ ہیں جسے خود خُداوند۔ ابتدائی برگشتگی کا سب سے زیادہ افسوس ناک اثر جو انسان پر پڑا وہ یہ کہ وہ خود پر ضبط کی قوت سے محروم ہو گیا۔ اگر یہ قوت دوبارہ مل جائے تو یہ حقیقی ترقی ہو گی۔SKC 79.1

    بدن ہی ایسا ذریعہ ہے جس کے وسیلہ ذہن اور روح سیرت کی نشوونما کے لیے تکمیل پاتے ہیں۔ اس لیے روحوں کا دشمن اپنی آزمائشوں کو بدن کی طاقتوں کی طرف بھیج دیتا ہے۔ اس کی کامیابی کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا سارا بدن اس بد کار کے مطیع ہو جاتا ہے۔ ہماری جسمانی فطرت اگر خُدا کے طابع نہ وہ تو یقیناً تباہی اور موت لائے گی۔SKC 79.2

    بدن پر پورا پورا ضبط ہونا لازم ہے تاکہ اس میں خُدا کی قوت کام کرے۔ جذبات کو اپنے قابو میں رکھیں اور خود کو خُدا کی حاکمیت میں۔ خُدا کے ساتھ حجت کرنے کی بڑی قوت جو خُدا کے فضل سے پاک ہو ہماری زندگیوں میں اثر کرے گی۔SKC 79.3

    خُداوند کے مطالبات ہماری ضمیر میں گھرکر جائیں۔ مردوزن دونوں خود پر ضبط کرنا سیکھیں۔ پاکیزگی کی ضرورت کو محسوس کریں۔ بُری رغبت اور ہر دوسری نجس کرنے والی عادت پر قابو پائیں۔ اُنہیں حقائق کے بارے میں سختی سے آگاہ کیا جائے کہ جسمانی اور ذہنی تمام قوتیں خُدا کی بخشش ہیں اور جس طرح بھی نیک طریقے سے خُدا کی خدمت کے لیے اُنہیں صرف کر سکیں کریں۔SKC 79.4

    قدیم میں یہ رسم (جو اصل میں انجیل کی علامت تھی) کہ کوئی بھی ناقص ہدیہ خُدا کی قربانی پر نہ آئے۔ وہ قربانی جو یسوع مسیح کی علامت بھی بے داغ ہونا لازم تھی۔ خُدا کا کلام اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس کے بچے بھی اس قربانی کی طرح بے داغ ہوں۔ زندہ قربانی “پاک اورخُداوند کو پسندیدہ” رومیوں 12:1۔“جس کے بدن میں داغ یا جھری یا کوئی ایسی چیز نہ بلکہ پاک اور بے عیب ہو” افسیوں 27:5۔SKC 79.5

    الٰہی قوت کے علاوہ کسی بھی اور طاقت سے حقیقی اصلاح ممکن نہیں۔ ہماری انسانی کوشش ریت کی دیوار سے کچھ زیادہ حقیقت نہیں رکھتی ۔ خُداوند یسوع مسیح کی زندگی بخش قوت کے بغیر ہم آزمائشوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جنہوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔SKC 80.1

    خُداوند یسوع مسیح اس دُنیا میں آیا اور خُداوند کی شریعت کو پورا کیا تاکہ انسان جسمانی رغبتوں پر پورا اختیار حاصل کر ے جو روح کو برباد کرتی ہیں۔ عظیم طبیب جو بدن اور روح کا بھی طبیب ہے ہمیں آزمائشوں پر فتح بخشتا ہے۔ اس نے ہر ایک ضروری سہولت مہیا کر رکھی ہے تاکہ انسان سیرت کی کاملیت پائے۔ جب کوئی روح خود کو مسیح کے تابع کر دیتی ہے تو اس کا ذہن و دماغ شریعت کے تابع ہو جاتا ہے مگر یہ شاہی شریعت ہے جو ہر غلام کو رہائی کا سندیشہ سناتی ہے۔ مسیح کے ساتھ ایک ہونے سے انسان آزاد ہو جاتا ہے۔ گویا یسوع کے مطیع ہونے کا مطلب انسان کی پوری طرح بحالی مراد ہے۔SKC 80.2

    خُداوند کی تابعداری میں گناہ کی غلامی سے آزادی ہے۔ خُداوند کے تابع فرمان رہنے سے انسان جذبات تا ثرات اور صدمات سے نجات پا لیتا ہے۔ یوں انسان خود کو فتح کر سکتا ہے۔ اپنی قواء کو اپنے قابو میں رکھ سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر “اس دُنیا کی تاریک کے حاکموں اور شرارت کی ان روحانی فوجوں جو آسمانی مقاموں میں ہیں فتح پا سکتا ہے” افسیوں 12:6۔SKC 80.3

    گھر کے علاوہ اور کوئی ایسی موزوں جگہ نہیں جہاں یہ ہدایت پھولیں اور پھل لائیں۔ گھر سے زیادہ اور کوئی اہم جگہ نہیں جہاں یہ ہدایت نیکی اور بھلائی پیدا کریں۔ کیونکہ والدین ہی ہیں جو ابتدا سے عادات اور سیرت دونوں کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اصلاحی تحریک خُداوند کی شریعت کے مطابق بچوں تک پہنچائی جائے تاکہ ان کی اخلاقی اور جسمانی تربیت میں کسر نہ رہے۔ ان کو اپنے عمال اور کردار سے دکھائیں کہ خُدا کے کلام کی تابعداری کرنے سے ہم بدی سے دور رہ سکتے ہیں جو دنیا کو برباد کر رہی ہے۔ طبیب کو چاہیے کے والدینوں کو ان ذمہ داری سے واضح طور پر آگاہ کریں۔ اور ان کو بتائیں کہ یہ صرف آپ کے لیے ہی بہتر نہیں بلکہ آپ کے اپنے بچوں کے لیے بھی مفید ہے۔ کیونکہ والدیں ان بچوں کو یا تو حکم ماننے کا نمونہ دے رہے ہیں یا پھر حکم عدولی کا۔ ان کے نمونے پر ہی ان کے گھرانے کا دارومدار ہے۔ کیونکہ بچے وہی کچھ بنیں گے جو کچھ ان کے والدین ان کو بتائیں گے۔SKC 80.4

    اگر والدین اپنے اعمال کے نتائج کو جان سکیں اور یہ بھی کہ ان کے اپنے نمونے اور تعلیم و تربیت سے بچوں پر راستبازی یا بدکاری کے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ تو یقیناً وہ اپنی راہوں کو تبدیل کر سکیں۔ بہت سے والدین روایت اور رسم و رواج کو خیر باد کہہ دیں گے اور زندگی الٰہی اصولوں اور ضابطوں کی پیروی کرنا شروع کر دیں گے۔SKC 81.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents