Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    طبیب اور پرہیزگاری کاکام

    بہت سے ایسے مریض طبیب کے پاس آتے ہیں جو اپنے بدن اور روح کو تمباکو یا کسی اور نشہ آور مشروب کے زریعے تباہ کر رہے ہیں۔ جو طبیب اپنی زمہ داریوں سے انصاف کرتا ہے وہ ضرور مریض کو اس کی صحت کی تباہی سے آگاہ کرے گا۔ لیکن اگر وہ تمباکو یا کوئی اور نشہ آور چیز کھانے پینے کا عادی ہے تو اس کی باتوں میں کیا وزن ہو گا؟ بلکہ مریض کے سامنے یہ وجوہات بتانے سے وہ کترائے گا کیونکہ اس میں خود یہ کمزوری پائی جاتی ہو گی۔ جب وہ خود یہ نقصان دہ چیز استعمال میں لاتا ہے تو وہ جوانوں کو کیوں کو قائل کر سکتا ہے کہ یہ چیز یں مضر صحت ہیں؟SKC 82.2

    پھر ایک طبیب کیسے عوام کے سامنے تقدس اور خود ضبطی کا نمونہ بن کر کھڑا ہو سکتا ہے؟ وہ پرہیز گاری کے مقصد کو کومیاب بنانے کے لیے کیوں کر کامیاب کارندہ ہو سکتا ہے جب کہ وہ خود بُری عادات کا شکار ہے؟ وہ کیونکر بیمار اور قریب المرگ لوگوں کی قابل قبول خدمت انجام دے سکتا ہے جب کہ اس کی ہر سانس، سے تمباکو اور شراب کی ناگوار بدبو آئی ہو؟ اگر وہ خود ہی اعصابی بیماری کا شکار ہے، نشئ اشیاء استعمال کرنے کے سبب اس کا ذہن ماؤف ہے تو اس پر کون اعتبار کرے گا کہ یہ بہت ہنرمند اور اعلٰی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ ایسے طبیب کے لیے جراحی کا عمل اور صحیح صحیح تشخیص کرنا نا ممکن ہے اگر وہ ان قوانین کی پاسداری نہیں کرتا جو اس کے اپنے بدن کو ضبط میں رکھتے ہیں۔ اگر وہ خود غرضی سے ایسی رغبتوں کا شکار ہو جاتا ہے جو اس کے بدن اور ذہنی تندرستی تباہ کرتی ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ انسان زندگیوں کی ذمہ داری لینے کے لیے نا اہل ہے۔SKC 82.3

    اس میں کلام نہیں کہ وہ کتنا ہنرمند ہے اسے پست ہمتی اور ناکامی کا سامنا کرنا ہو گا۔ وہ اسی کام میں ناکام ہوجاتا ہے جس میں اسے کامیابی حاصل کرنے کی بڑی تمنا ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے مریض شفا پا جائیں مگر ان کو یا دُنیا کو اس طبیب کا چنداں فائدہ نہیں۔SKC 83.1

    دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے مریض شفا پا لیتے ہیں مگرپھر پہلی بری عادات اور رغبتوں میں پھنس کر بیمار ہو جاتے ہیں۔ جو طبیب نے ان کے لیے کام کیا تھا وہ رائیگاں گیا۔ کیونکہ وہ دوبارہ پہلے جیسی حماقتوں میں مشغول ہو گئے۔SKC 83.2

    خُداوند یسوع مسیح کو بھی یہی تجربہ حاصل ہوا تھا مگر اس نے اپنی جدوجہد ترک نہ کی۔ دس کوڑھیوں میں صرف ایک واپس آیا تاکہ خُداوند مسیح کا شکریہ ادا کرے وہ کوڑھی اجنبی ہونے کے علاوہ سامری تھا۔ اس ایک کی خاطر خُداوند مسیح نے دسوں کو پاک صاف کیا۔ ایک کی خاطر سب کو شفا دی۔ اگر طبیبوں کو بھی زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو انہیں خُداوند مسیح کے تجربہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے، کیونکہ عظیم طبیب خُداوند یسوع کے بارے میں یوں مرقوم ہے۔SKC 83.3

    “وہ مانند ہوگا اور ہمت نہ ہارے کا” یسعیاہ 4:44۔SKC 83.4

    “اپنی جان کو دکھ اُٹھا کر وہ اسے دیکھے گا اور سیر ہوگا” یسعیاہ 11:53۔ اگر خُداوند یسوع مسیح کے فضل کی خوشخبری صرف ایک ہی روح قبول کرتی تو اس ایک روح کو بچانے کی خاطر ہی خُداوند یسوع مسیح شرمناک موت مرنے کو اس دھرتی پر آجاتا۔ اسی طرح اگر ہماری کوشش سے ایک ہی روح بچ جاتی ہے جس کو ہم اس قابل کر دیتے ہیں کہ وہ خُدا کی بادشاہی میں چمکے۔ کیا اس سے آسمان کے فرشتے خوشی نہ منائیں گے؟SKC 83.5

    ایک طبیب کا فریضہ کافی کٹھن اور صبر آزما ہے۔ اسے کامیابی سے نبھانے کے لیے خود اُسے تندرست اور توانا ہونا ضروری ہے۔ وہ شخص جو کمزور اور لاغر ہے طبیب کی ذمہ داریوں سےعہدہ براہ نہیں ہو سکتا۔ ایسا طبیب جسے خود سونے پر کامل ضبط نہیں وہ قسم قسم کی بیماریوں سے شفا دینے کا کیونکر اہل ہو گا؟SKC 83.6

    وہ طبیب جو سونے سے محروم رہتا ہے کھانے کو نظرانداز کرتا ہے۔ سماجی رونقوں اور خوشیوں سے بھاکتا ہے۔ مذہبی اجتماع سے دور رہتا ہے۔ ایسے طبیب کی زندگی مسلسل غموں اور دکھوں میں بسر ہوتی ہے۔ دکھی جو اس کی طرف اُمید سے تکتے ہیں۔ کیا وہ اسے دیکھ کر دل برداشتہ نہ ہو جائیں گے۔ اُن کا اعتماد اُس پر سے اُٹھ جائے گا۔SKC 83.7

    موت اور بیماری کی جنگ میں بربادی کے لیے ساری کی ساری قوت استعمال ہو جاتی ہے اس ہولناک دباؤ کا ردعمل چال چلن کا بہت بڑا امتحان ہے۔ آزمائش بڑی قوت رکھتی ہے۔ اس میں روح کی ایسی پاکیزگی اور ایمان ہونا چاہیے جو خُدا کی نظر میں پسندیدہ ہو۔ اپنی اور دوسروں کی خاطر اسے جسمانی عادات کی حقارت نہیں کرنا چاہیے۔ جسمانی اور بد عادات کا مطاب اخلاقی بد عادات ہے۔ اگر جسمانی عادات تباہ و برباد ہیں تو نتیجتاً اخلاقی عادات بھی برباد ہوں گی۔ یعنی جسمانی بد عادات، اخلاقی بد عادات کی طرف راغب کرتی ہیں۔SKC 84.1

    طبیب کی خیریت اسی میں ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات میں ان اصولوں کو ہاتھ سے نہ جانے دے جن سے اسے قوت ملتی ہے اور جو اسے اپنا فرض نبھانے میں ممد ثابت ہوتے ہیں۔ اور وہ اصول صرف خُداوند کی حضوری سے میسر آتے ہیں۔ طبیب کو خُدا کے فضل اخلاق کی نمائندگی کرنی ہے۔ اسے ہرروز ہر گھڑی اور ہر لمحہ ان کے سامنے زندگی بسر کرنی ہے جنہیں وہ دیکھ نہیں سکتا۔ (فرشتے اور خُداوند کے سامنے) بالکل جناب موسیٰ کی طرح طبیب کو بھی ثابت قدم رہنا ہے۔ “وہ اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابت قدم رہا” عبرانیوں 27:11۔SKC 84.2

    راستبازی کی جڑیں پارسائی میں ہیں۔ کوئی کوئی شخص اپنے بھائی بندوں کے سامنے اپنے پاکیزہ اور قابل رشک زندگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جب تک کہ اُس کی اپنی زندگی خُداوند مسیح میں ضم نہ ہو یعنی جب تک وہ خود خُداوند یسوع مسیح میں زندگی بسر نہ کر رہا ہو۔ انسانوں کے درمیان جتنا عظیم کام کوئی انجام دیتا ہے اس کی رفاقت اور شراکت اور اس کا اپنا ہی خُداوند کے قریب ہونا لازم ہے۔SKC 84.3

    طبیب کے جتنے زیادہ فرائض ہوں گے اتنی ہی اس کی بڑی ذمہ داری ہوگی۔ ان فرائض اور ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے اتنی ہی زیادہ الٰہی قوت کی ضرورت ہو گی۔ اس لیے خُداوند کے ساتھ رفاقت رکھنے کے لیے طبیب کو عارضی چیزوں سے نظریں ہٹا کر ابدی چیزوں پر اپنی نظریں جمانے کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ اسے دنیا کے ہنگاموں اور فکروں کا مقابلہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اسے خُدا سے جو قوت کا منبع ہو علیحدہ نہ کرے۔ دُعا اور خُداکے کلام کے وسیلہ سے اسے خود خُدا کی پناہ میں رہنا ہی چاہیے۔ اسے ہر گھڑی صداقت کے اصولوں راستبازی اور رحمدل زندگی بسر کرنا ہو گی جو خُداوند کی خصوصیات ہیں۔SKC 84.4

    خدا کے کلام کو جس قدر دل میں جگہ دی جائے گی اور جسقدر اس کی تابعداری کی جائے گی اتنی ہی زیادہ طبیب کی خدمت موثر اور کارگر ثابت ہو گی- یوں ہر خیال اور خواہش پاکیزگی پائے گی- وہ جو خداوند کے کلام میں بھروسہ رکھتے ہیں خداوند میں مضبوط ہوتے جاتے ہیں- نیز وہ ہر آلودگی سے پاک ٹھہرتے ہیں-SKC 85.1

    جب کوئی انسان خُدا کی لیاقت میں ہوتا ہے تو اسے دانی ایل اور یوسف کی سی محافظت نصیب ہوتی ہے۔ گو یہ دونوں حضرات نے دین لوگوں میں گھیرے ہوئے تھے۔ پھر بھی ان کی پاکیزہ زندگیاں بے داغ رہیں۔ اسی طرح جو شخص خود کو خُداوند کی پناہ میں دے دیتا ہے اس کی سیرت کا چوغہ بے داغ رہتا ہے۔ اس کی زندگی میں خُداوند مسیح کی روشنی چھپی نہ رہے گی بلکہ دور دور تک ضیا پاشی کرے گی۔ اُس کے اُوپر مسیح کا چمکتا ہوا سیارہ پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہو گا۔ ایسی زندگی معاشرے میں روشنی کا مینار ثابت ہو گی۔ یہ بدی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے گی جو ہر آزمائش سے محفوظ رکھے گی۔ اور جو مشکلات اور پست ہمتی کا شکار ہیں ان کے لیے مشعل راہ ہو گی تاکہ وہ صراط مستقیم پا لیں۔SKC 85.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents