Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First

    مسیح یسوع کی تعلیم

    خُدا وند یسوع مسیح بے بھی انجیل کی صدات کے اصلو بیان کئے۔ اُس کی تعلیم کی روشنی میں ہم اُس ندی کے پاکیزہ پانی کو نوش کر سکتے ہیں جو خُدا کے تخت سے جاری ہوتی ہے ۔ خداوند یسوع مسیح ایسا علم عطا کرسکتا تھا جو تمام قدیم افشائے راز پر سبقت لے جاتا ہے، اگر وہ چاہتا تو راز پہ راز منکشف کرتا چلاجاتا اور ان عجیب وغیرب اور شاندار مکاشفات پر ہمہ تن متوجہ ہوتا، اور اَخیر زمانے تک کی آنے والی مسلسل پشتوں کے بارے بتا سکتا۔ مگر اُس نے نہ چاہا۔ اُس کا وقت، قواء اور اُس کی زندگی سب قدر کی نگاہ سے دیکھے گئے کیونکہ اس سب کو اُس نے انسان کی روح کی نجات کے لئے استعمال کیا۔ وہ کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا تھا۔ اور اُس نے نہ چاہا کہ اپنے مقصد سے ہٹ جائے۔ اس لئے اُس نے کسی چیز کو بی اپنی راہ میں حائل نہ ہونے دیا جو اُسے گمراہ کرے۔ خُدا وند یسوع مسیح نے وہی تعلیم دی جو استعامل تھیں۔SKC 325.8

    وہ تجسس جو عوام کو بھید معلوم کرنے کے سوال کے ساتھ اُس کے پاس لے آتا اُس سے اُسے تسکین نہ وہتی۔ ایسے تمام حالات کے جوابات دینے کے لئے اُس نے ایک خاص موقع نکالا اور اس بار ایک سنجیدہ، راست اور نہایت ہی اہم اپیل اُن لوگوں سے کی جوعلم کے درخت سے پگل توڑنے کے بڑے مشتاق تھے اُس ے اُنہیںزندگی کے درخت سے پھل پیش کیا۔ اس سے اُنہوں نے دیکھا کہ خُدا کے پاس جانے کے راستے کے لاوہ باقی تمام راستے مسدور ہو چکے ہیں ہر ایک چشمہ سر بمہر ہوگیا ہے مطر صرف ایک ہی ابدی زندگی کا چشمہ جاری ہے۔SKC 326.1

    خُدا وند یسوع مسیح نے کسی کی بھی حوصلہ افزائی نہ کی کہ وہ اپنے وقت کے ربیوں کے اسکولوں میں جا کر علم حاصل کرے۔ اُس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُن کے ذہن و دماغ اُن کی مسلسل تعلیم سے خراب ہوجائیں۔ تو پھر ہم کیوں انسانوں کا کلام جو نا پائیدار، غیر مستحکم ہے اُسے افضل دانش جان کر قبول کرلیں جب کہ برتر حکمت ہماری رسائی میں ہے۔؟SKC 326.2

    جو میں نے ابدی چیزوں کے بارے دیکھا ہے۔ اور جو میں نے نسل انسانی میں کمزوری دیکھی ہے اُس کا میرے ذہن و دماغ اور میر زندگی کے کام پر خاصہ اثر پڑا ہے۔ مجھے تو انسان میں کوئی چیز نظر نہیں آتی جس کی تعریف کی جائے۔ اس لئے میں کوئی وجہ نہیں دیکھتی کہ دُنیاوی دانشمند لوگوں کی رائے کا تنا احترام کیا جائیے، اور اُ پر عمل کیا جائے۔ وہ انسان جن کی بصیرت خُداکے بارے نہ ہونے کے برابر ہے وہ خُدا کی راہوں اور اُس کی تجاویز کے بارے کیا جانتے ہیں؟ یا تو وہ اُس کا کلی طور پر انکار کرتے ہیں یا پھر وہ اُس کی قوت کو اپنی ناقص ععقل کے مطابق مھدود کرتے ہیں۔SKC 326.3

    آئیے جس نے زمین و آسمان کو تکلیق کیا اُس سے سیکھی ۔آئیے ہم اُس سے تعلیم پائیں جس نے ستاروں کو فضا میں ترتیب دیا اور آفتاب اور مہتاب کو اُن کے کام سونپے۔SKC 327.1

    نوجوانوں پر ہر گز یہ پابندی نہیں کہ وہ کتنی تعلیم پائیں۔ بلکہ جس قدر وہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اگر وہ خُدا کے جلال اور بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے نہیں تو بے شک یہ تمام تعلیم و تربیت بے معنی اور فضولہے۔SKC 327.2

    یہ بھی اچھا نہیں کہ دماغ کو اسیے مطالعہ سے ماندہ کیا جائے جس کے لئے طالب علم کو بڑی ہی تنگ ودو کرنی پڑے، مگر اُسے عملی زندگی میں کبھی بھی استعمال نہ کر سکے۔ یہ تو طالب علم کے لئے سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔SKC 327.3

    ایسے مطالعہ سے اُن کو حاصل کرنے کی رغبت اور کوہش کم ہوجاتی ہے جو اُسے دُنیا میں ایک قابل اور مفید شخص بناتے اور جواُسے ذمہ داریاں نھبانے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں۔ عملی تربیت علوم وفنون کو درست انداز میں استعال کرنا ہی عقلمندی ہے۔ اس لیے جو علم حاصل کیا جاتاہے اُسے بہتر انداز میں استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔SKC 327.4

    وہ وقت اور وسائل جو بے معنی علوم و فنون حاصل کرے پر صرف کئے جاتے ہیں بہتر ہو اگر اُنہیں مقابلتاً اپس تعلیم و تربیت پر استعمال کیا جائے جو انسان کی عملی مردوزن بنا کر زندگی کی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ممد ثابت ہوں۔ ایسے علم کی بڑی ہی قدر و منزلت ہے۔SKC 327.5

    ہمیں ایسے علم کی ضرورت ہے جو ہمارے ذہن و دماغ اور روح کو تقویت اور تازگی بخشے جو ہمیں بہتر رد و کواتین بنائے۔ وہ علم جو دل تک رسائی کرے کتابی علم سے کہیں بہتر اور اہم ہے۔ یہ اچھا ہے بلکہ ہمارے لئے بہت ہی اہم ہے کہ جس دُنیا میں ہم رہتے ہیں اُس کے بارے ہمیں علم ہو۔ لیکن اگر ہم اس علم میں سے ابدیت کو خارج کردیں تو پھر ہماری ناکامی اور نقصان کی تلافی نہ ہوگی۔ ہمیں بہتر رد و کواتین بنائے۔ وہ علم جو دل تک رسائی کرے کتابی علم سے کہیں بہتر اور اہم ہے۔ یہ اچھا ہے بلکہ ہمارے لئے بہت ہی اہم ہے کہ جس دُنیا میں ہم رہتے ہیں اُس کے بارے ہمیں علم ہو۔ لیکن اگر ہم اس علم میں سے ابدیت کو خارج کردیں تو پھر ہماری ناکامی اور نقصان کی تلافی نہ ہوگی۔SKC 327.6

    ایک طالب علم اپنی تما ترقوتوں کو علم حاصل کرنے کے لیے ضرور وقف کرسکتا ہے۔ لیکن اگر اُسے خداوند کا عرفان حاصل نہ ہو۔ اور اگر وہ اُن اصولوں اور ضابطوں کی نافرمانی کرے جو اُس کے بدن کو روں دوان اور قئم رکھتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو برباد کرتا ہے۔ بُری عادات کی وجہ سے خود ضبطی اور اُس قوت سے محروم ہوجاتاہے جو اپنی قدر کرنا سکھاتی ہے وہ اُن باتوں کے بارے بھی بخوبی بحث و تمحیص نہیں کرسکتا جو خصوصاً اپس کی پانی ذات سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ وہ اپنے بدن اور ذہن دونوں کے ساتھ سلوک کرنے میں ناعاقبت اندیش اور معقول شخص ہے۔ صحیح اصولوں کی نشوونما میں غفلت برتنے کی وجہ سے وہ دونوں جہاں کے لئے برباد ہو چکا ہے۔SKC 327.7

    اگر نوجوان خود اپنی کمزوریوں کو جان جائیں۔ تو وہ خُدا میں اپنی قوت پاسکتے ہیں۔ اگر وہ خپدا سے تعلین حاصل کرنا چاہیں تو وہ اُس کی حکمت کو حاص کر کے دانا بن سکتے ہیں۔ پھر اُن کی زندگیاں یقینا دُنیا اور انسانی قیاس و گمان کے مطالعہ میں لگائیں اور اخودکو خُدا سے علیحیدہ کر لین وہ اُ تمام برکات سے محروم ہو جائیں گے جو زندگی کو آراستہ کرتی ہیں۔SKC 328.1