Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
شفا کے چشمے - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First

    حسی اور ہیجان خیزادبی علوم

    آج کل کی مشہورومعروف تالیف و تصنیف ہیجان خیز قصے کہانیوں سے بھری پڑی ہیں جو نواجوانوں کو بدی سکھاتی ہیں اور اُنہیں بربادی کی راہ پر ڈال دیتی ہیں۔ گو وہ ابھی بچے ہی ہیں مگر جرائم کرنے کے لئے اُن کے پاس کافی علم ہے۔ وہ جو کہانیاں پڑھے ہیں اُنہیں بُرائی کرنے پر اُکساتی ہیں۔ اپنے تصورات میں وہ اُس پر عمل کرتے ہیں جو اُنہوں نے پڑھا ہے یہاں تک کہ اُن میں جرم کرنے کی خواہش بیدار ہوتی ہے ۔ اور یہ بھی کہ کس طرح اس جرم کی سزا سے بچنا ہے۔SKC 322.1

    بچوں اور جوانوں کے سرگرم اور بیدار مغز میٰں تصوراتی تصاویر مستقبل کے لئے صرف تصور ہی نہیں بلکہ حقیقت ہوتے ہیں۔ جیسے ہی انقلابات کی پیشنگوئی ہوجاتی ہے اور قانون اور خود ضبطی کو بالائے تاک رکھنے کی تمام تدابیر عمل میں آ جاتی ہیں تو بہتیرے اُن کرداروں کی پیروی کرنے پر اُتر آتے ہیں جن کے بارے اُنہیں نے حسی علوم میں پڑھا تھا۔ اور اگر ممکن ہو تو وہ اُن جرائم سے بھی بڑے جرام کے مرتکب ہوتے ہیں جس کا مصنف نے سما باندھا تھا۔ اس طرح کے بُرے تاثر سے معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو رہا ہے۔ لاقانونیت کے بیچ بوئے جا رہے ہیں۔ اور کسی کو بھی حیران نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے نتیجہ میں جرائم کی فصل تیار ہو رہی ہے۔SKC 322.2

    عشقیہ واقعات، بے ہودہ اور گھٹیا گفتگو، ہیجان خیز (بھڑکانے والی) قصے کہانیاں پڑھنا کسی لحاظ سے بھی لعنت سے کم نہیں۔ مصنف شائد کوئی اخلاقی سبق سکھانے کے در پہ ہو اور وہ اپنی کہانی کے دوران شاید مذہبی رنگ بھی بھرے مگر دیکھنے میں آیا ہے ایسی تحریریں سوائے اخلاقی بگاڑے کے کوئی اچھا کارنامہ سرانجام نہیں دیتیں۔SKC 322.3

    دُنیا ایسی کتابوں سے بھرپور ہے جو غلط کاری پر اکساتی ہیں۔ نوجوان اُنہیں بطور صداقت قبول کرتے ہیں۔ جب کہ بائبل مقدس اُنہیں ناراستی، دروغ اوربے ایمانی سے تعبیر کرتی ہے۔ مگر نوجوان اس جھوٹ سے نہ صرف محبت کرتے ہیں بلکہ اس سے چمٹے رہتے ہیں جو اُن کی روح کی بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں۔SKC 323.1

    من گھڑت قصے جن کے لکھنے کا مقصد سچائی سکھانا یا کسی بڑی بدی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ بعض کے تو کافی اچھے اثرات مرتب ہوتے یں جب کہ بعض ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اُن قصوں میں موجود کچھ اقتباسات ہوتے ہیں کچھ قلم کے بکھیرے ہوئے فن پارے جو نوجوانوں کے ذہنوں کو اُبھارتے اور ایسی تربیت دیتے ہیں جو خطرے سے بھر پور ہوتی ہے۔ ان قصوں میں جو منظر کشی کی ہوتی ہے وہ نوجوانوں کے ذہنوں میں بار بار اُبھرتی رہتی ہے۔ ایسی تحریرات ذہن کو کسی مفید کام کے قابل رہنے نہیں دیتیں نیز روحانی عمل کے بھی نا اہل بنا دیتی ہیں۔ یوں آسانی چیزیں ذہن میں بہت کم جگہ پاتی ہیں۔ جب ذہن میں ہر وقت وہ گندے مناظر چھائے رہے ہیں جو قصے میں درج ہیں تو انسان کے جذبات بھڑک اُٹھتے ہیں اور اس کا نتیجہ گنا ہ کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔SKC 323.2

    حتیٰ کہ اسیے من گھڑت قصے جو بدی کا مشورہ نہ بھی دیتے ہوں اور جن کا کلی منشا یہی ہو کہ اعلیٰ اصولوں کی تشہیر کریں وہ بھی خطرے سے خالی نہیں۔ کیونکہ یہ ہمیں محض کہانی کے انجام کو جاننے کی عجلت میں جلدی جلدی اور سطحی مطالعہ کرنے کی بُری عادت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ یوں وہ ہماری قواء اور صحت مند سوچ بچار کو برباد کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ نیز روح کو فرائض اور ابدی زندگی کے مسائل پر غورو خوض کرنے کے نا اہل بنا دیتے ہیں۔SKC 323.3

    محض لطف اندوز ہونے کے لئے قصے پڑھنے کی عادت پیدا کرنا، زندگی کے عملی فرائض کی راہ میں بدمزگی کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے اکسانے اور مدہوش کرنے والی قوت سے اکثر لوت جسمانی اور ذہنی دوںون لحاظ سے بیمار ہو جاتے ہیں۔ ایسے قصے کہانیوں سے لگاؤ رکھنے والے بہت سے بدقسمت گھر سے بے اعتنائی برتتے ہیں۔ بعض پوری عمر کے لئے معذور ہوجاتے ہیں اور بہت سے پاگل خانے پہنچ جاتے ہیں اور یہ سب کچھ ناول وغیرہ پڑھنے کی بُری عادات کے سبب وقوع میں آتا ہے۔SKC 323.4

    اکثر یہ بھی مشورہ دیا جاتا ہے کہ نوجوانوں کو خراب قصوں سے نجات دلانے کے لئے ہمیں اُن کے لئے اچھے قصے پیش کرنے چاہئیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی شرابی کا علاج کرنے کے لئے وسکی اور برانڈی کی جگہ ہم اُسے کوئی ہلکی شراب مثلا انگوروں، سیبوں یا جو کی شراب پیش کریں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو شرابی کے دل میں ہمیشہ ان ہلکی شرابوں کی جگہ کوئی زیادہ نشہ آور شراب استعمال کرنے کی خواہش کروٹ لیتی رہے گی۔ ایسے متوالوں اور بد پرہیز لوگوں کے لئے صرف اور صرف یہی محفوظ راستہ اور پناہ گاہ ہے کہ وہ مکمل طور پر ہر طرح کے نشہ سے پرہیز کریں۔ من گھڑت قصے پڑھنے والوں کے لئے بھی یہی اصول صداقت رکھتا ہے۔ کیونکہ اسی میں اُن کی خیریت ہے کہ مکمل طور پر من گھڑت قصوں سے اجتناب کریں۔ SKC 324.1